وقت کے پار ( قسط نمبر ایک)

ڈاکٹر شہلا گوندل

دنیا اسے “ڈاکٹر شفیق ضیاء” کے نام سے جانتی تھی — نظریاتی طبیعات کا ماہر، کائناتی مظاہر پر تحقیق کرنے والا، ایک ایسا دماغ جس کے سامنے وقت کی مہریں بھی کمزور پڑنے لگی تھیں۔

لیکن کم لوگ جانتے تھے کہ شفیق، اپنے دماغ کی بےپناہ طاقت کے ساتھ ایک ایسی جنگ بھی لڑ رہا تھا جو سائنس کی کتابوں میں نہیں لکھی جاتی — بائی پولر ڈس آرڈر۔

دن کے وقت وہ لیکچرز دیتا، کائناتی تسلسل، کوانٹم غیر یقینی، اور وقت کی خمیدگی پر بات کرتا۔ رات کو، تنہائی میں، وہ اپنے ذہن کی دو انتہاؤں میں جھولتا رہتا — کبھی بےتحاشا توانائی، دنوں کی جاگ، متواتر فارمولے، تصورات کا طوفان؛ اور کبھی ایسی اداسی جو کمرے کی ہر چیز کو دھندلا کر دیتی۔

مگر ایک رات — وہ رات جسے وہ “زیرو آور” کہتا تھا — کچھ بدل گیا۔

اس کی حالت اُس دن شدید تھی۔ وہ تین دن سے سویا نہیں تھا۔ اس کے دماغ میں وقت کی ساخت گھوم رہی تھی — اسپیس ٹائم کا خم، کوانٹم کشش، اور انسانی شعور کے ساتھ وقت کے تعلق پر سوالات۔ اُس نے اپنی لیب میں اکیلے بیٹھے ہوئے اچانک چیخ کر کہا:
“وقت لکیر نہیں، یاد ہے۔ اور یاد… روشنی کی طرح جھک سکتی ہے!”

اسی لمحے اس نے ایک مساوات لکھی — عجیب و غریب، جنونی سی — لیکن مکمل۔ یہ مساوات نہ صرف وقت کی رفتار کو نظریاتی طور پر کم یا تیز کر سکتی تھی، بلکہ ایک خاص ذہنی حالت میں، اسے “محسوس” بھی کر سکتی تھی۔

اس نے خود کو اس مساوات کا تجربہ بنا لیا۔

بائی پولر ایپی سوڈ کی شدت میں، جب اس کا شعور بے قابو توانائی سے بھرا ہوتا، وہ “وقت کی جھروکیوں” میں جھانکنے لگا۔
گزشتہ لمحے، آنے والے وقت کے دھندلے عکس، ماں کی لوری، بچپن کی بارش، اور ایک آنے والے مستقبل کی ہلکی سی جلتی روشنی — سب ایک ساتھ۔
وہ وقت کو لپیٹ کر دیکھتا، کھول کر چھوتا، اور دہراتا۔

مگر اس کا ایک سائیڈ ایفیکٹ بھی تھا۔

جب وہ ڈپریشن میں جاتا، تو وقت اس کے لیے منجمد ہو جاتا۔ دن ہفتے بن جاتے، لمحے برسوں کے بوجھ میں بدل جاتے۔ وہ ہر گزرتی ساعت کو اپنی کھال میں محسوس کرتا، جیسے کوئی اسے وقت کی سولی پر ٹانگ رہا ہو۔

ایک روز، جب اس کی حالت بگڑ گئی، اسپتال میں اس کا دماغ مکمل خاموش ہو گیا۔ ڈاکٹروں نے کہا،
“وہ کومہ میں ہے۔ شاید واپس نہ آئے۔”

لیکن حقیقت یہ تھی… وہ گیا تھا۔ وقت کے پار۔

اپنی بنائی گئی مساوات کے ذریعے، شفیق ضیاء نے اپنے شعور کو وقت کی تہوں میں اتار دیا تھا۔ اب وہ ماضی میں جا رہا تھا، مستقبل سے گزر رہا تھا، اور کسی وقت سے باہر کی فضا میں معلق تھا۔

اور وہاں… ایک خاموش مقام پر، اس نے کچھ دیکھا جو وہ پوری زندگی جاننا چاہتا تھا:

“وقت کا راز صرف رفتار یا ساخت میں نہیں، بلکہ احساس میں ہے۔ وقت ہم وہی محسوس کرتے ہیں جو ہم جینا چاہتے ہیں۔ باقی سب صرف شور ہے۔”

جب وہ جاگا، تو ہسپتال کی نرس حیران رہ گئی — وہ مسکرا رہا تھا۔ آنکھوں میں سکون، چہرے پر روشنی۔
اس نے آہستہ سے کہا،
“میں وقت سے گزر آیا ہوں… اب زندگی جینا چاہتا ہوں۔”

جاری ہے ۔۔۔

2 تبصرے ”وقت کے پار ( قسط نمبر ایک)

  1. لا جواب بہت زبردست پر سرار کہانی ۔۔۔
    وقت کے دھارے پہ بہتی —ساعتوں کی لہروں پہ ابھرتی ڈوبتی نائو کی طرح ۔۔۔۔
    جویں ۔۔۔ ڈگ مگ ڈگ مگ کردی کشتی

اپنا تبصرہ لکھیں