ڈاکٹر شہلا گوندل
Echo chamber of Time
شفیق ضیاء کی غیر موجودگی نے نہ صرف لیب کی تحقیق کو روک دیا تھا بلکہ یونیورسٹی کے ذہین دماغوں میں بھی ایک خلا پیدا کر دیا تھا۔ پروفیسر ناتھن، جو شفیق کی ذہانت اور نظریاتی فہم کے معترف تھے، اُس کی ایک مہینے کی پراسرار غیر حاضری پر سخت پریشان تھے۔
انہوں نے آخرکار ایک دو ٹوک ای میل لکھی
“شفیق، یا تو واپس آ جاؤ، یا اپنی خاموشی کا مطلب ہمیں بتاؤ۔ سائنس میں خاموشی بھی ایک تباہی ہے”
یہ پڑھ کر شفیق ایک لمحے کو رکا۔ اس کے سامنے دو راستے تھے
یا تو سب کچھ چھوڑ کر واپس پاکستان چلا جائے
یا پروفیسر ناتھن کو سچ بتا دے
وقت، شعور، اور نایاب کی موجودگی میں ایک نئی حقیقت کے امکان کی پوری کہانی
اگلی صبح، وہ ناتھن کے آفس میں بیٹھا تھا۔ آنکھوں میں وہی خاموش آگ، جو صرف وہی شخص رکھ سکتا ہے جو کچھ ایسا دیکھ چکا ہو جو باقی دنیا صرف تصور میں سوچے
“پروفیسر، میں نے جو کچھ پایا ہے، وہ صرف طبیعیات نہیں… انسانیت کے شعور کی سرحد پر ہے
اور میری تحقیق کا سب سے نازک، سب سے اہم جزو… ایک انسان ہے۔ نایاب”
پروفیسر ناتھن نے بھنویں چڑھائیں، جیسے کوئی کہانی سننے والا ہو، لیکن فیصلہ ابھی باقی ہو
شفیق نے تفصیل سے بتایا کہ نایاب کیسے خوشبو کے ذریعے جگہوں، جذبات اور امکانات کی رہنمائی کرتی ہے
کہ کیسے وہ آنکھوں سے اندھی ہونے کے باوجود شعور کی تہوں میں دیکھ سکتی ہے، جہاں تک شاید روشنی بھی نہ پہنچ پاتی ہو
ناتھن لمحوں تک خاموش رہے۔ پھر آہستہ سے بولے
“یہ عورت… صرف تمہاری تحقیق کا حصہ نہیں، بلکہ خود ایک مساوات ہے، ہے نا؟”
شفیق نے اثبات میں سر ہلایا
اور تب ہی پروفیسر ناتھن نے حیران کن فیصلہ سنایا
“ہم اسے یونیورسٹی بلاتے ہیں۔ تم دونوں مل کر کام کرو گے۔ ٹائم پرسیپشن لیب میں
شاید جو تم دونوں محسوس کرتے ہو، وہ دنیا کو وقت کی بالکل نئی تعریف دے سکے”
چند ہفتے بعد، نایاب شفیق کی یونیورسٹی میں پہنچ چکی تھی
اسے جب لیب میں لے جایا گیا، تو وہ خاموش کھڑی رہی
مگر شفیق نے محسوس کیا کہ اس کے چہرے پر وہی ہلکی سی مسکراہٹ تھی… جیسے کوئی خوشبو اسے ایک نئی سمت دکھا رہی ہو
انہوں نے لیب میں قدم رکھا، اور مشین آن کی جس کا نام تھا
Echo Chamber of Time
یہاں وہ دونوں، اپنے تجربات، احساسات، اور مشاہدات کی روشنی میں، مستقبل کے امکان پر سفر کرنے والے تھے
لیکن یہ سفر نہ راکٹ سے تھا، نہ روشنی کی رفتار سے
یہ سفر اندر کی آواز، دل کی خوشبو، اور شعور کی لرزش سے تھا
اور جب انہوں نے ایک ساتھ چیمبر میں قدم رکھا
وقت نے ایک لمحے کے لیے خود کو تھام لیا
کیونکہ دو ایسے مسافر سفر پہ نکل چکے تھے
جو وقت کو صرف سمجھنا نہیں
محسوس کرنا چاہتے تھے
جاری ہے ۔۔۔
Recent Comments