وقت کے پار ( قسط نمبر پانچ)

ڈاکٹر شہلا گوندل

جب تحقیق کے آخری مرحلے میں نایاب کی بینائی واپس آئی، تو کسی نے اسے معجزہ نہیں کہا — یہ ایک سائنسی حقیقت تھی، ایک ایسی دریافت جو جذبات، یادداشت اور حسیاتی ربط کی بنیاد پر ممکن ہوئی تھی۔
یہ تجربہ، جس میں خوشبو نے بصارت کو جگایا، صرف نایاب کی آنکھوں تک محدود نہیں رہا — اس نے انسان کے دیکھنے کے مفہوم کو نئے سرے سے تخلیق کیا۔
نایاب نے جب پہلی بار شفیق ضیاء کو دیکھا، تو لمحہ ٹھہر سا گیا۔ ایک احساس، جو برسوں صرف خوشبو میں محسوس ہوا تھا، اب سامنے کھڑا تھا۔

“تم وہی ہو… جو میری کہانیوں کی خوشبو میں چھپا رہتا تھا”

نایاب کی آواز جیسے وقت کی دیواروں کو نرم کرتی چلی گئی۔

اسی لمحے، عادل — جو شفیق ضیاء کے وجود کا وہ پہلو تھا جو ایک اور وقت میں الگ ہو چکا تھا — مکمل طور پر جاگ چکا تھا۔
اب وہ صرف ہمزاد نہیں رہا تھا، بلکہ شعور اور ذات کا وہ توازن بن چکا تھا، جو انسان کے بکھرے حصوں کو جوڑ دیتا ہے۔
اسی توازن نے شفیق ضیاء کو مکمل کر دیا — اور ساتھ ہی نایاب کو بھی۔

ادھر، عبیر نے مائیکروبیالوجی کی سطح پر کام کرتے ہوئے انسانی جینیات میں وہ نشانیاں تلاش کیں جو مخصوص خوشبوؤں اور رنگوں کے ساتھ ریسپانس پیدا کرتی تھیں۔
فاطمہ نے اس تحقیق کو سسٹم میں ڈھالا، ایک نیا بزنس ماڈل بنایا، جس کا مقصد انسان کو منافع نہیں، نجات دینا تھا۔
اور اوسلو سے خرد، جو شعوری لہروں اور ریڈیائی مطالعے کی ماہر تھی، اس نے *ساعت* کی گنبدی دیواروں پر ایسی لہریں ترتیب دیں جو انسان کے اندرونی ارتعاش کو متوازن کر دیتی تھیں۔
یہ سب محض سائنس نہیں تھی — یہ ایک شاعری تھی، جو دماغ، دل اور وقت کو ایک لَے میں باندھ رہی تھی۔

پروفیسر ناتھن — جو اب بھی اس پورے پروجیکٹ کے باپ کی طرح تھے — نے جب شفیق کی آنکھوں میں دوبارہ وہی روشنی دیکھی جو بائی پولر ایپیسوڈ کے بعد ماند پڑ گئی تھی، تو دھیرے سے کہا:

“شفیق، تمہارا بائی پولر اب تمہاری کمزوری نہیں، تمہاری وہ شدت ہے جس سے تم وقت کی ندی کے بہاؤ کو محسوس کر سکتے ہو۔ تمہیں وقت کی شدت سے عشق ہے، اور یہی عشق انسانیت کو بچا سکتا ہے۔”

شفیق نے نایاب کی طرف دیکھا، جو اب روشنی میں بھی وہی بات کرتی تھی جو وہ اندھیرے میں کرتی تھی —
نرم، واضح، اور گہرائی سے بھرپور۔

انہوں نے ایک ساتھ *Echo Chamber of Time* کا دروازہ کھولا۔
عادل درمیان میں تھا، جیسے وقت کے دونوں سروں کو باندھنے والا ایک خاموش راوی۔

“یہ صرف لیب نہیں… یہ ساعت ہے”
شفیق نے کہا
“یہ وہ جگہ ہے جہاں ماضی کی گتھیاں سلجھا کر حال کو سانس لینا سکھایا جاتا ہے، تاکہ مستقبل کو زخموں کے بغیر تعمیر کیا جا سکے”

اور یوں *ساعت* مکمل ہوئی —
لیکن اس کا مطلب اختتام نہیں تھا۔

آخری شام، گنبد کے نیچے، نایاب، شفیق اور عادل خاموش کھڑے تھے۔
روشنی نرم تھی، خوشبو مانوس۔
آسمان پر جیسے وقت جھک کر دعا مانگ رہا تھا۔

نایاب نے آہستہ کہا
“اب جب میں دیکھ سکتی ہوں، تو تمہیں اور زیادہ محسوس کرتی ہوں، عادل”

شفیق مسکرایا۔
عادل نے نظریں نیچی کیں، جیسے کوئی ساز مکمل ہو چکا ہو۔

اور پھر —
وقت نے ایک نئی شروعات کی۔

یہ وہ لمحہ تھا
جہاں سائنس اور جذبہ ایک دوسرے سے گلے ملے
جہاں عبیر کی تحقیق، فاطمہ کی سوجھ بوجھ، خرد کی روشنی اور نایاب کی خوشبو نے
مل کر انسان کو انسان بنایا

اور *ساعت* نے اپنے دروازے پوری دنیا کے لیے کھول دیے
تاکہ جو لوگ خود کو بوجھ سمجھتے تھے
وہ روشنی کے نئے بانی بن سکیں

یہ اب ایک ادارہ نہیں رہا تھا
یہ ایک دھڑکن تھی

جہاں ماضی نے معافی مانگی
حال نے خود کو قبول کیا
اور مستقبل نے کہا

“میں تمہارے انتظار میں تھا”

اگلی قسط

وہ لمحہ جب *ساعت* کو انسانیت کا دل بنا دیا گیا۔

اپنا تبصرہ لکھیں