وہ رات

تحریر شازیہ عندلیب
راولپنڈی ریلوے اسٹیشن پر کھڑی تانیا نے صرف چند منٹوں میں اپنے آپکو پر رونق اسٹیشن کے بجائے ایک ویران جگہ پر پایا ۔اس کے ساتھ ایک تین سالہ بچہ بھی تھا۔اور ایک اٹیچی کیس۔اس نے اپنے گردو پیش کا جائزہ لیا تو وہ یہ دیکھ کر ششدر رہ گئی کہ اس کے آس پاس کچھ مشکوک قسم کے لوگ چادروں کی بکل مارے اور سگریٹ کے کش لگاتے ہوئے گھوم پھر رپے تھے۔یہ سب کچھ اس قدر آناً فاناً ہوا کہ وہ سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ ایسا بھی ہو سکتا تھا۔کچھ لمحے پہلے یہاں ٹرین کھڑی تھی۔مسافروں کی چہل پہل تھی ٹرین کی روشنیوں سے اسٹیشن جگر مگر کر رہاتھا۔ سرخ وردی پہنے قلی سامان لانے لے جانے میں مصروف تھے۔
جیسے ہی گارڈ نے روانگی کی سیٹی بجائی ٹرین رینگتی ہوئی دور کیا نکلی کہ پورا اسٹیشن جیسے اندھیرے میں ڈوب گیا۔صرف چند ملگجی سی لائٹیں اسٹیشن کی عمارت کے آس پاس جل رہی تھیںکھمبوں پر۔جبکہ وہ پل پار کر کے کافی آگے نکل آئی تھی۔ اس کے ساتھ نوجوان بھانجہ ساجد سلیم بھی تھا۔انہوں نے رات کی گاڑی سے فیصل آباد جانا تھا۔ ساتھ ہی اس کی ایک کزن نے بھی اسی روز اس ٹرین سے جانا تھا۔اس نے سوچا کہ وہ بھی ساتھ ہو گی تو سفر اچھا گزرجائے گا۔تانیا کی کزن نے بھی اسے اسٹیشن پرہی ملنا تھا۔مگر انہیں یہ نہیں پتہ تھا کہ ٹرین کس پلیٹ فارم پہ آنا تھی۔ساجد تانیاکو پلیٹ فارم نمبر دو پر کھڑا کر کے ٹرین کا پتہ کرنے چلا گیا تھا۔وہاں پشاور جانے والی ٹرین کھڑی تھی۔یہ پلیٹ فارم نمبر ٢ تھا ۔
ٹرین چل پڑی تو اپنی روشیاں بھی ساتھ ہی لے گئی اور اسٹیشن پر ہر طرف اندھیروں کا راج تھا اور تانیا اپنے ڈھائی سالہ بچے کے ساتھ تنہا سہمی ہوئی کھڑی تھی۔وہ بار بار بے چینی سے پلیٹ فارم پہ لگے گھڑیال کی جانب دیکھتی ٹرین کے آنے کا وقت ہوا چاہتا تھا مگر ساجد ابھی تک نہیں آیا تھا۔وہ بار بار اس سمت دیکھتی جدھر ساجد گیا تھا اور کبھی اپنے اٹیچی اور بچے کو دیکھتی۔چند ہی منٹوں میں کیسا اندھیرا چھا گیا جب تک ٹرین کھڑی تھی احساس ہی نہیں ہا کہ وہ کسی ویران جگہ پر کھڑی ہے ٹرین کے سرکتے ہی جیسے وہ کسی جادوئی نیم تاریک ویرانے میں پہنچ گئی۔اس کے ارد گرد جو لوگ تھے انہیں دیکھ کر خوف کے مارے دسمبر کی یخ بستہ ٹھنڈ میں بھی اس کے پسینے چھوٹ گئے۔تانیا نے اپنی میرون گرم چادر اپنے ارد گرد اچھی طرح سے لپیٹ کر اپنے آس پاس کا طائرانہ جائزہ لیا ۔ساجد تو جانے کہاں رہ گیا تھا اب مجھے ہی کچھ کرنا ہو گا اس نے سوچا ۔اچانک اس کے ذہن میں ایک جھماکا ساہواسے اپنے تایا زاد بھائی جان کی بات یاد آگئی۔وہ ا سکے ساتھ ہمیشہ شفقت سے پیش آتے اور انکی کمپنی میں بہت سے دلچسپ قصے اور حکمت والی باتیں سننے کو ملتیں ۔وہ ایک قومی ائیر لاین میں اعلیٰ عہدے پر فائز تھے۔انہوں نے ایک مرتبہ نصیحت کی تھی کہ اگر کبھی کسی جگہ پر یا گھر سے باہر کوئی مسلہ پیش آ جائے تو کبھی کسی غریب اور ان پڑھ آدمی سے مدد نہ مانگو کہ اکثر غریب لوگ ناقابل اعتبار ہوتے ہیں ۔۔اس خیال کے تحت وہ اپنے آس پاس کسی قابل اعتبار شخص کو ڈھونڈنے لگی۔اس کے ساتھ ساتھ اس کے ذہن میں کئی وسوسے شکوک و شبہات چوری ڈکیتی اورغواء کی وارداتوں کی تفصیلات بھی گھومنے لگیں۔وہ اپنی خوفناک سوچوں سے پیچھا چھڑانا چاہتی تی جو اس کالی رات میں کسی خوفناک ناگ کی طرح پھن اٹھائے کھڑے تھے تو دوسری جانب اسٹیشن پر
خوفناک چادرپوش لوگ خطرناک نگاہوں کے ساتھ اسے دیکھ رہے تھے۔اسے ایسا محسوس ہوا جیسے دو خوفناک چادرپوش سائے اس کی جانب بڑھ رہے ہیں اور باقی اس کے اٹیچی کیس کو حرصی نگاہوں سے دیکھ رہے ہیں۔اس اندھیری رات میں وہ اکیلی تھی اور ان کا پورا گروہ تھا۔وہ بری طرح سے سہم گئی۔
تانیا کا تعلق اایک کھاتے پیتے گھرانے سے تھا۔وہ گریجویٹ تھی اور ایک اسکول میں جاب بھی کرتی تھی مگر پھر بچوں کی وجہ سے جاب چھوڑنی پڑی اور اب اپنے ابو کی بیماری کی وجہ سے سسرالی شہر بھی چھوڑنا پڑا۔گو اسکی شادی فیصل آباد میں وئی تھی مگر ابو کو ایک جان لیوا مرض نے آن گھیرا ۔چھوٹابھائی جو صرف بارہ برس کا تھا انکی دیکھ بھال نہ کر سکا تھا مگر اس کے شوہر نے اس کے ابو کی خدمت سگے بیٹوں سے بھی بڑھ کر کی۔یہ بھی اسکی خو ش قسمتی تھی کہ اسکے شوہر اس کے پھپھی زاد تھے۔جنہوں نے نہ صرف اسے زندگی کی ہر خوشی دی بلکہ اسکے ابو اور ان کے بزنس کو بھی سنبھالا۔انہوں نے ایسے مشکل وقت میں اسکے خاندان کا ساتھ دیا جب سب ساتھ چھوڑ جاتے ہیں۔مگر وہ کسی شجر سایہ دار کی طرح اس کے وجود کے ساتھ ساتھ رہا۔وہ دونوں بچپن سے ہی ایک دوسرے کو پسند کرتے تھے اس لیے آپس میں ایک دوسرے کا بوجھ بانٹتے کبھی نہ ہچکچاتے۔مگر یہ محبت بھی اکثر چاہنے والوں کو کڑے امتحان میںڈال دیتی ہے۔اس کے ابو کی حالت اتنی خراب تھی کہ اسے اپنے شوہر کو ان کے پاس دیکھ بھال کے لیے چھوڑ کر آنا پڑا۔اسکی دو ماہ کی بچی بھی اسکی امی کے پاس تھی۔انہوں نے حالات کے پیش نظر فیصل آباد سے اسلام آباد شفٹ ہونے کا فیصلہ کر لیاتھا۔اب وہ فیصل آباد سامان لینے جا رہی تھی جو کہ ایک کمرے کا سامان تھا۔جو اس نے پیک کرنا تھا تاکہ اس کے ماموں وہ سامان ٹرک میںڈال کر اسلام آباد لے آتے۔اچھے وقت میںجب ابو صحتمند تھے وہ لوگ ہمیشہ اپنی گاڑی میں سفر کرتے مگر اب حالات وہ نہیں رہے تھے۔اسے گاڑی اپنے شوہر کے پاس چھوڑ کر بذریعہ ٹرین فیصل آباد جانا پڑ رہاتھا۔ساجد سلیم اسکے بڑے جیٹھ کا بیٹاتھا۔تانیا کو بہت محبت کرنے والا سسرال ملا تھا۔اسکے شوہر خاناندان میں سب سے چھوٹے ہونے کی وجہ سے سارے خاندان کی آنکھوں کا تارا تھے۔۔۔۔۔مگر وقت سدا ایک سا نہیں رہتا۔خوشحال سے خوش حال انسان کی زندگی بھی کسی وقت خوفناک حالات کا شکار ہو سکتی ہے۔ایسے لوگ جو اپنے اچھے وقتوں میں ہمیشہ دوسروں کا خیال رکھتے ہیں ۔دوسروں کی مشکل میں مدد کرتے ہیں اللہ تبارک بھی ایسے لوگوں کی مشکلیں آسان کرتا ہے۔ان سب باتوں کے باوجود اس کا ذہن خوفناک وس وسوں کا شکارتھا۔ا سے چوری ڈکیتی اغوا ء کی ساری خبریں اور واقعات یاد آ رہے تھے۔وہ ان سوچوں سے پیچھا چھڑانا چاہتی تھی۔وہ ان سوچوں کو ذہن سے جھٹکتی تو اس کے وسوے آس پا گھومتے خوفناک لوگوں کو دیکھ کر تقویت پکڑنے لگتے ۔وہ امید اور نامیدی کے پل پرسے گزرنے لگتی ۔ ۔۔۔۔۔۔۔
وہ ابھی اپنے خیالوں میں ہی گم تھی کہ اسے دورس سے ایک شخص وردی میں جاتا ہوا نظر آیا۔

وہ اپنی چال ڈھال سے کوئی آفیسرلگ رہاتھا۔وہ جلدی سے اس کی جانب لپکی۔اسے پھر اپنے تایا زاد بھائی کی نصیحت کی باز گشت سنائی دی۔۔۔۔ کہ جب بھی تم کسی مصیبت یا مشکل میں گرفتار ہو تو کبھی کسی چھوٹے کمزوریا مفلس سے مدد نہ مانگو ملکہ اپنے آس پاس کسی ایماندار مگر صاحب حیثت اچھی پوزیشن والے شخص کو تلاش کرو۔اس سے مدد کی درخواست کرو تو تمہاری مشکل آسان ہو گی۔کسی کم حیثیت کے شخص سے مشکل بیان کرو گے تو وہ سب سے پہلے تو اپنی بھی مشکلات کا ذکر کرے گا۔پھر تم سے ہمدردی بھی کرے گا مگر آخر میں معذرت کرلے گا کیونکہ وہ بیچارہ تو خود ہی بے بس مجبور اور مصیبت کا مارا ہو گا وہ تمہاری کیا مدد کرے گا۔
وہ یہ سوچ کرجیسے ہی اس آفیسرکے پا س پہنچی اس سے اپنا مدعا بیان کیا کہ اسے فیصل آبادکی ٹرین پکڑنی ہے۔ اسے بتایا کہ اس کا بھتیجہ بھی اس کے ساتھ تھا جو کہ اگلے پلیٹ فارم پر ٹرین پکڑنے گیا ہے مگر ابھی تک نہیں آیا اور ٹرین کے آنے کا وقت بھی قریب آ رہا ہے۔میں اکیلی چھوٹے بچے اورسامان کے ساتھ خود نہیں جا سکتی۔پلیز میری مدد کر یں ۔یہ سن کر اس آفیسر نے جو کہ اسٹیشن ماسٹر اسسٹنٹ تھا نے فوراً قریب گزرتے قلی کو اشارہ کیا اس کا سامان اٹھوایا اوراسے پلیٹ فارم نمبر تین پر سامان پہنچانے کا کہا۔وہ جلدی سے قلی کے پیچھے بچے کو اٹھا کرسیڑہیاں چڑھنے لگی۔ابھی وہ اوپر پہنچی ہی تھی کہ اسے سامنے سے اپنا بھتیجہ ساجد اسی کی جاب بھاگتا ہوا نظر آیا تواس کی سانسوں میں سانسیں آئیں۔اس نے آتے ہی پھولی ہوئی سانسوں کے درمیان بتایا کہ چچی میں آپ کی کزن کو تلاش کر رہا تھا اسلیے مجھے دیر ہو گئی۔ وہ بھی مل گئی ہیں۔اس نے شکر ادا کیا کہ وہ بر وقت اس آفیسر سے مدد مانگ کر کسی نا خوشگوار حادثہ سے بال بال بچ گئی ورنہ ایک اکیلی عورت آج پاکستان جیسے اسلامی ملک میں کس قدرغیر محفوظ ہے یہ اسلامی معاشرے کے علم بر داروں کے لیے باعث شرم ہے۔

2 تبصرے ”وہ رات

  1. Bohat acha likha aap ne Shazia.Pakistan k Railway station ki yad dila di jab Train rat ko station par pohanchati ha to kitni ronaq lag jati ha.

    1. جی بالکل تنزیلہ جی بچپن میں تو ٹرین کا سفر ایک خوبصورت خواب کی مانند یاد ہے ۔۔۔۔اب تو پاکستان میں ٹرینیں صرف کہانیوں میں ہی باقی بچی ہیں ۔۔یا پھر یادوں میں۔۔۔۔اس سفر کا بھی اپنا ہی لطف ہوتا تھا۔میرے پاس ٹرینوں کی کئی کہانیاں ہیں۔۔۔
      ہاں تنزیلہ اردو فلک ٹیم کی جانب سے آپ کے لیے ایک اہم پیغام تھا۔ایک دوروزمیں آپ کو مل جائے گا۔

اپنا تبصرہ لکھیں