اسلامی تاریخ کے عظیم سپہ سالار طارق بن زیاد نے جب سپین کے بادشاہ راڈرک کو شکست دی تو اس کے بعد دوسرے شہروں کو فتح کرنے کیلئے چھوٹے چھوٹے لشکر تشکیل دیے جنہوں نے اہم فتوحات حاصل کیں۔ ان میں سے ایک لشکر 700 سواروں پر مشتمل تھا جسے قرطبہ کی فتح کا ذمہ سونپا گیا۔ اس دستے کی قیادت مسلمانوں کے خلیفہ ولید بن عبدالملک کا تجربہ کار غلام مغیث کر رہا تھا۔ یہ دستہ دریائے شقندہ کے کنارے چھپ گیا جہاں ایک چرواہے کو پکڑا گیا تو اس نے بتایا کہ قرطبہ کے امرا شہر چھوڑ کر طلیطلہ چلے گئے ہیں۔ اس وقت قرطبہ کی حفاظت کیلئے والی شہر 400 سپاہیوں کے ساتھ موجود ہے۔ چرواہے نے بتایا کہ شہر کی فصیل بہت مضبوط ہے لیکن انجیر کے ایک درخت کے پاس سے شہر میں داخل ہوا جاسکتا ہے۔ مسلمانوں نے رات کی تاریکی میں شہر پر ہلہ بولا اور چرواہے کے بتائے ہوئے راستے سے اندر داخل ہونے میں کامیاب ہوگئے ۔ اندر جا کر پتا چلا کہ شاہی محل سنسان پڑا ہے اور حاکم شہر اپنے 400 سپاہیوں کے ساتھ قلعہ بند کلیسا سینٹ جارج میں محصور ہوگیا ہے۔
یہ ایک غیر متوقع صورتحال تھی کیونکہ یہ کلیسا ایک باغ کے اندر تھا اور اس میں پہاڑی کے راستے پانی آتا تھا، مسلمانوں نے اس کا تین مہینے تک محاصرہ کیا لیکن اندر جانے کی کوئی امید نظر نہیں آئی۔ اسی دوران ایک حبشی غلام کی بیوقوفی رحمت بنی اور مسلمانوں کو اندر کلیسا والوں کو باہر نکالنے کا راستہ مل گیا۔
الحاج محمد حسین گوہر نے اپنی کتاب واقعات اسلام کا انسائیکلو پیڈیا میں اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اس حبشی غلام کا نام رباح تھا، جب مسلمانوں نے کلیسا کا محاصرہ کر رکھا تھا تو یہ اس کے باغ کے ایک درخت پر چڑھ کر پھل توڑ کر کھانے لگا۔ اسی اثنا میں کلیسا والوں کی اس پر نظر پڑ گئی اور اسے پکڑ کر لے گئے۔ کہا جاتا ہے کہ اہل کلیسا نے اس سے پہلے کسی حبشی کو نہیں دیکھا تھا، اس لیے انہوں نے سمجھا کہ رباح نے اپنے جسم پر سیاہی مل رکھی ہے۔ اہل کلیسا اس کے جسم کی سیاہی دھونے کیلئے اسے چشمے پر لے آئے اور اسے خوب دھویا لیکن اس کی سیاہی نہیں اتری جس کے بعد انہیں یقین ہوا کہ اس آدمی کا رنگ دراصل قدرتی طور پر سیاہ ہے۔جب رباح کی سیاہی اتارنے کی کوشش کی جارہی تھی تو اسی دوران اس نے پانی کا راستہ دیکھ لیا اور یہی مسلمانوں کی فتح کی وجہ بن گئی۔