وہ چاندنی میں کچھ ایسا تھا تربتر تنہا
از ڈاکٹر جاوید جمیل
وہ چاندنی میں کچھ ایسا تھا تربتر تنہا
میں دیکھتا رہا منظر یہ رات بھر تنہا
ہوئی ہے جیسے ابھی تک گزر بسر تنہا
گزار ڈالیں گے باقی کا بھی سفر تنہا
پکارتا ہوں ترا نام جیسے صحرا میں
ہمیشہ آتی ہے آواز لوٹ کر تنہا
عقاب اڑتا ہے جس طرح آسمانوں میں
بلندیوں میں کیا کرتا ہوں سفر تنہا
ہمیشہ رہتا ہے ہمراہ قافلہ اسکے
مصیبت آتی نہیں ہے کسی کے گھر تنہا
وہ منتظر ہے کوئی اس کے سائے میں آئے
کھڑا ہے دور رہ_ حق پہ اک شجر تنہا
شریک_ قافلہ ہوتا تو جشن ہو جاتا
ملے تھے آج سفر میں مجھے خضر تنہا