’’میں بڑی غریب، بد نصیب ہوں۔ رب نے مجھ نمانی کو کچھ نہیں دیا۔ میری کچھ مدد کریں‘‘۔
’’یہ لوایک لاکھ روپیہ اور اپنا ایک بازو مجھے دے دو‘‘۔ حکیم اکبر علی نے روتی بلکتی فریاد کرتی خاتون کو بڑی متانت سے کہا۔
خاتون شکل اور حلیے سے مفلوک الحال لگ رہی تھی ۔ اس کے ساتھ ایک میلے کچیلے کپڑوں میں کمزور سا کوئی 12-13سال کا لڑکا بھی تھا۔ خاتون کی آہ و بکا سے لگتا تھا کہ زمانے نے اس کے ساتھ کوئی اچھا سلوک نہیں کیا ۔ وہ فریاد لے کر حکیم اکبر علی کے پاس آئی تھی کہ کچھ مالی معاونت ہوجائے اوراس کے گھر کا چولہا جل سکے ۔ اس کی آہ بکا سن کر حکیم صاحب نے بڑے تحمل سے اور متانت سے کہا ۔
’’بی بی ایک لاکھ روپے لے لو۔ اور اپنا ایک بازو مجھے دے دو‘‘
عورت کو گویا کرنٹ لگا ۔ کہنے لگی۔ ’’ناں جی ناں یہ کیسے ہو سکتا ہے‘‘۔
حکیم صاحب پھر گویا ہوئے ۔
’’چلو دونو ں بازو مجھے دے دو اور 2لاکھ روپے لے لو‘‘
عورت حیرت سے بولی ’’ حکیم صاحب میں کیسے دے دوں اپنا بازو ؟ آپ مذاق کر رہے ہیں‘‘
’’اچھا اگر بازو نہیں دینے تو ایسا کرو مجھے صرف اپنا ایک پاؤں دے دو ۔ میں تمہیں تین لاکھ روپے دے دوں گا‘‘۔ حکیم صاحب نے ایک اور آفر دے دی
’’حکیم صاحب کیوں غریبی کا مذاق اڑاتے ہیں ۔ میں تو ایک انگلی بھی نہ دوں‘‘
حکیم صاحب مسکراتے ہوئے بولے
’’ اچھا نہ دو۔ ایسا کرو یہ تیرا بیمار، لاغر اور مسکین سا لڑکا ہے۔ اس کا ایک کا ن ہی مجھے دے دو چاہے چار لاکھ لے لو‘‘
’’اور ہاں، میں اس بچے کی ایک ٹانگ کے پانچ لاکھ دے سکتا ہو ں‘‘۔
عورت نے بچے کو اپنی آغوش میں لے کر چومتے ہوئے کہا
’’اللہ میرے لال کے نین پرین سلامت رکھے ۔ میں تو اس کو تتی ہوا بھی نہ لگنے دو ں‘‘
حکیم صاحب نے اُس کی سُنی ان سُنی کرتے ہوئے اپنی آفر جاری رکھی۔’’ چلو ایسا کرو یہ لڑکا ہی مجھے بیچ دو ۔ بولو کتنے پیسے چاہیں 5لاکھ ۔ 10لاکھ ۔ 20لاکھ ؟‘‘
عورت پھٹ پڑی ۔’’ناں جی ناں ۔حکیم جی ۔ اولاد کوئی بیچنے کیلئے ہوتی ہے۔ یہ تو لاکھوں کروڑوں میں بھی نہیں ملتی، میں اُس کی آنکھیں نہ نکال دوں جو میلی آنکھ سے بھی دیکھے میرے لال کو‘‘
حکیم اکبر علی نے ایک بلندقہقہ بلند کیا اور عورت کے سر پر ہاتھ رکھ کر بولے ۔’’بیٹی ۔ اللہ نے تو تجھے لاکھوں کروڑوں کا مال دے رکھا ہے اور تم ناشکری کررہی ہو کہ اللہ نے تجھے کچھ نہیں دیا ۔ سب چھین لیا ہے۔ بڑی غریب مسکین ہو۔دیکھو انسان پر اچھا برا وقت آتا جاتا ہے۔ ناشکری نہیں کرتے ۔ مال اسباب کا کیا ہے آنی جانی چیز ہے۔ اللہ نے تمہیں اور تمہارے بیٹے کو سب ہاتھ پیر سلامت دے رکھے ہیں ، صحت دی ہے۔ روزی روٹی کا بندوبست بھی وہ کردے گا ۔ بیٹی ناشکری نہیں کرتے‘‘۔ چپکے سے کچھ روپے اُس کے ہاتھ میں تھما دئے اور اُس کی مٹھی بند کر دی۔اشفاق احمد کے بابوں سے ہمیشہ چڑتا تھا کہ ایسے ہی اَن پَڑھ بابوں کی تلاش میں پھرتا تھا اور بِلا وجہ اُن کی تعریفیں کرتا تھا۔ آج کے انفرمیشن ٹکنالوجی کے دَور میں اِن جاہل بابوں کا کیا کام۔ مگر جب سے حکیم صاحب سے ملاقات ہوئی ہے بابے اچھے لگنے لگے ہیں اور اُن کی صحبت کا موقع ڈھونڈتا رہتا ہے۔ کتابوں اور انٹرنٹ سے وہ نہ مل سکا جو با با جی سے ملتا ہے۔
حکیم اکبر علی کو رب تعالی نے کمال کی فہم و فراست ، بردباری ، اندازِبیاں، علم اور تجربے سے نواز رکھا ہے۔ ٹینشن کو چند منٹوں میں دور کرنے کی کمال کیمہارت رکھتے ہیں ۔ حکمت تو اب کئی سال سے ترک کرچکے ہیں مگر دانائی اب بھی بکھیرتے ہیں ۔ میرے دوست اور کولیگ اور اُن کے بیٹے پروفیسر ڈاکٹر خلیل الرحمٰن اب حکمت کی پریکٹس کرتے ہیں اور با با کبھی کبھار اپنے مشوروں سے نوازتے ہیں۔ جب کبھی میں ذہنی دباؤ کا شکار ہوتا ہوں تو حکیم صاحب کی چند منٹ کی گفتگو مجھے پھر سے ہنسنے مسکرانے پر مجبور کردیتی ہے اور اللہ کی نعمتوں پر شکر ادا کر نا شروع کر دیتا ہوں۔
حکیم صاحب کی زندہ دلی کا یہ عالم ہے کہ 96سال کی عمر کے باوجود ابھی تک بچوں بڑوں سے ہنسی مذاق چلتا ہے۔ ہر بندہ انہیں دیکھتے ہی مسکرا دیتا ہے۔ مسجد جاتے ہی نعرہ بلند کرتے ہیں ۔
اللہ ہی اللہ
پر ہے کلا ( اکیلا )
اکثر مریضوں کوکہا کرتے ہیں ۔’’ ایک تو تکلیف ، اوپر سے ہائے‘‘
ارے بھائی یہ تو دو ہوگئی ۔ ایک ہی رہنے دو ، دو کیو ں کرتے ہو۔ یہ تکلیف بیماری اللہ کی طرف سے آئی ہے۔ اسے برا بھلا کہو گے تو گناہ بن جائے گا۔ صبر سے برداشت کرو گے تو اجر ملے گا۔
خوشدلی کا یہ عالم کہ اس عمر میں بھی سائیکل چلایا کرتے تھے اور ایک دِن اپنے سے کچھ کم عمر یعنی کوئی 80سالہ دوست کو پیچھے بیٹھا کر بازار جارہے تھے کہ اچانک موٹر سائیکل کے آگے سے گزرنے کی وجہ سے گر پڑے ۔ دونوں بزرگوں کو چوٹیں آئیں ۔ حکیم صاحب کی ایک ٹانگ کی ہڈی بھی ٹوٹ گئی ۔ ہسپتال میں پڑے ہیں اور کسی کی جرات نہیں کہ افسوس کا لفظ بھی بول سکے ۔ اتنی چوٹ کے باوجوداللہ کا شکر ہی ادا کرتے رہے ۔ بڑی خوشدلی سے تکلیف برداشت کرتے رہے ۔ ایک مشہور عالم دین عیادت کیلئے تشریف لائے اور افسوس کا اظہار کیا۔ حکیم صاحب نے کسی لحاظ کے بغیر بڑی حیرت سے کہا
’’مولانا میں تو آپ کو بڑا عالم دین سمجھتا تھا۔ آپ تو مولوی بھی نہ نکلے ۔ افسوس کس بات کا ؟بھئی میں نے اللہ سے کیا مانگیں تھیں یہ ٹانگیں ۔ یہ اللہ نے خود مجھیعطاء کی ۔ میں 92سال اس ٹانگوں پر سواری کی، دوڑا بھاگا، موج کی ۔ اب اگر اس نے 2-3دن کیلئے واپس لی ہیں تو آپ فرماتے ہیں بڑا افسوس ہوا ہے۔ مجھے تو آپ کی عقل اور سوچ پر افسوس ہو رہا ہے۔ بھئی یہ سب نین پرین ( اعضاء ) اللہ کے ہیں ۔ وہ جب چاہے واپس لے لے ۔ ایک ایک کرکے یا اکھٹے ۔ سلامت یا توڑ کر ۔ جب مال اس کاہے ، تو مرضی بھی اس کی ۔ حد ہی ہوگئی ۔ کہتے ہو افسوس ہوا ہے‘‘
مولانا صاحب مارے شرم کے زمین میں گڑھے جارہے تھے۔
جب ٹانگ میں پلاٹینم کی پلیٹ ڈالی گئی اور حکیم صاحب واپس گھر آگئے تو ایک پرانا دوست خبر گیری کو حاضر ہوا اور پوچھنے لگا
’’حکیم صاحب اب ٹانگ کا کیا حال ہے؟‘‘
حکیم صاحب گویا ہوئے ۔’’اوے ،ادھر دیکھ ۔ ( اپنی ٹانگ پر ہاتھ مارتے ہوئے ) لوہے کی سخت اور مضبوط ٹانگ اور کہیں زیادہ پائیدار۔ تیری تو وہی کمزور اور پرانیاں ہڈیاں ہیں۔ اب میری تو کہیں زیادہ مضبوط ہوگئی ہیں اب توڑ کے دکھا اسے‘‘۔
اس سے بڑھ کر کیا زندہ دلی ہوگی کہ بجائے لوگوں کی طرح گلا شکوہ کریں کہ ہائے ٹانگ ٹوٹ گئی، مصیبت ہو گئی، پلیٹ کب نکلے گی، ہر چیز کا مثبت پہلو لے رہے ہیں۔ میرا بابا تو اشفاق احمد کے بابوں سے بھی بڑھ کے ہے۔ افسوس اشفاق احمد کی حکیم صاحب سے ملاقات نہ ہوئی ۔ یقیناًوہ اِن کی صحبت سے محظوظ ہوتے۔
ؓبابا جی ہر نشت میں دین فہمی کی ایک نئی بات ضرور بتائیں گے اور اس قدر دلنشین انداز سے کہ بات فوراً سمجھ آجاتی ہے۔ وگرنہ عموماََ لوگ دین کی بات اتنے خُشک انداز میں کرتے ہیں کہ سننے والے بیزارہو جاتے ہیں۔ لوگ اسی لیے مولویوں سے بھاگتے ہیں کہ ایک تو وہ خود صاحبِ کردار نہیں ہوتے دوسرے حکمت اور دانائی سے محروم ہوتے ہیں۔اللہ اور اُس کے رسول ﷺ کی باتیں بھی ایسے پیش کرتے ہیں کہ لوگ متنفر ہوتے ہیں مگر حکیم صاحب ہنسی مذاق میں دین کو اتنا آسان اور دلچسپ پیش کرتے ہیں کہ دین آسان لگتا ہے اور سُننے کو بھی دل چاہتا ہے۔ یہی وصف اللہ نے اُن کے دونوں بیٹوں پروفیسر خلیل اور سیشن جج خالد صاحب میں بھی منتقل کیا ہے۔
کھانے پینے میں سادہ غذا نہایت مرغوب ہے۔ میں نے چائے پیش کی تو فرمانے لگے ۔’’ میں نہیں پیتا یہ سڑدی بلدی کوڑی ( گرم جلتی ابلتی کڑوی ) غذا ۔
کڑوی اور جلتی ابلتی غذا تو جہنمیوں کو ملیں گی، ہم کیوں کھائیں ‘‘۔
بات سے بات پیدا کرنے کا فن بھی کمال کا جانتے ہیں۔کمال کی مزاح ہے۔ ایسا نکتا لائیں گے کہ محفل زعفران زار بن جاتی ہے۔
بیٹے کا دوست اپنی شادی کارڈ دینے آیا ۔ پُرانے رواج کے مطابق ، جب شادی کا پیغام نائی لایا کرتا تھا تو اُسے کچھ پیسے دیا کرتے تھے، حکیم صاحب نے جیب میں ہاتھ ڈالا تو صرف پانچ روپے کا سکہ نکلا۔ بجائے شرمندہ ہونے کے سکہ اُسے تھماتے ہوئے کہا
’’دیکھو بھائی یہ ہے میری حیثیت آجکل، میں کونسا اب کام کرتا ہوں، یہی حاضر ہے، لے لو، ویسے تیری بھی اوقات یہی ہے‘‘
ایک دن فرمانے لگے کہ بندہ کسی کے ساتھ کتنا مخلص ہو سکتا ہے اس کی مثال حضرت موسٰیؑ سے بہتر شائد ہی کوئی ہو۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسی ؑ سے فرمایا کہ موسی ٰ کیا مانگتا ہے۔ حضرت موسیٰؑ نے عرض کی ’’یا باری تعالیٰ میرے بھائی ہارون کو بھی پیغمبری عطاء فرما دے ۔ دعا قبول ہوئی ۔ اس سے بڑھ کر کہ بندہ کسی کیلئے کیامانگ سکتا ہے۔ دولت ، اقتدار ، سب فانی چیزیں ہیں ۔ اللہ کا دوست اور نبی اپنے بھائی کو بنوادینا ۔ دنیا اس زیادہ خلوص کی مثال نہیں مل سکتی‘‘ ۔
یہ واقعہ بیان کرنے کے بعد اپنے بیٹے ڈاکٹر خلیل الرحمن کی دیکھ کر مسکراتے ہوئے کہا ۔ خالد کو بھی اپنے بھائی خلیل سے بہت پیار ہے۔اگر خالد موسیٰؑ کی جگہ ہوتا تو اپنے بھائی کی جگہ اپنے سالے کو نبی بنواتا۔