فیس بُک کے توسط سے اسلام قبول کرنے والی ایک امریکی خاتون کا انٹرویو
کامران غنی، بیوروچیف۔ اردو نیٹ جاپان
موبائل فون پر دوسری جانب سے ہمارے دوست طارق اعظم کی آواز تھی۔ ” عطاء بھائی کو لیکر جلدی آئیے، ہم لوگ بے صبری سے آپ کے منتظر ہیں۔” میں کچھ پوچھتا اس سے قبل کال منقطع کی جا چکی تھی۔ کچھ دیر بعد جب ہم لوگ طارق اعظم صاحب کے پاس (ذاکر نگر، اوکھلا) پہنچے تو وہاں اس وقت اُن کے اور فاروق احسن کے علاوہ ایک ادھیڑ عمر خاتون موجود تھیں۔ خاتون شرعی لباس میں ضرور تھیں لیکن یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں تھا کہ وہ ہندوستانی تو بہر حال نہیں ہیں۔ طارق اعظم نے ہمارا تعارف کرایا۔ ہم حیران تھے کہ وہ خاتون ہیں کون؟ طارق بھائی نے جب اس خدا رسیدہ خاتون کا تعارف، اور اس کے قبول اسلام کی ایمان افروز داستان بیان کرنی شروع کی تو ہم بالکل ششدر رہ گئے۔”اللہ جسے چاہتا ہے اپنا کر لیتا ہے، اور وہ اپنی طرف آنے کا راستہ اُسی کو دکھاتا ہے جو اُس کی طرف رجوع کرے” (سورة الشوری) ۔
عیسائی خانوادے میں آنکھیں کھولیں، تعلیم و تربیت پائی، جوان ہوئی لیکن راہِ حق کی متلاشی اس خاتون کی منزل تو کہیں اور تھی۔ ناز و نعم میں پلی بڑھی اس امریکی خاتون نے ہوش سنبھالتے ہی ادیان عالم کا مطالعہ شروع کر دیا تھا کیوں کہ عیسائیت کے تضادات نے اسے اپنے مذہب سے بیزار کرنا شروع کر دیا تھا۔تین خدا میں اصل خدا کون ہے؟ اگر حضرت عیسی خدا ہیں تو انھیں ہمارے گناہوں کی تلافی کے لیے سولی پر کیوں چڑھنا پڑا؟ کیا خدا بھی اتنا بے بس و لاچار ہو سکتا ہے؟ ایسے ہی بے شمار سوالات کے جواب حاصل کرنے جب وہ اپنے مذہبی پیشوائوں کے پاس جاتی تو اُس کے کاسۂ سوال میں جواب کے بجائے نگاہِ غیظ و غضب اور حقارت انڈیل دی جاتی۔ رفتہ رفتہ وہ عیسائیت سے متنفر ہونی لگی۔ حق کی تلاش نے اسے انٹرنیٹ کے توسط سے مختلف مذاہب کے پیروکاروں سے رابطہ کرنے پر مجبور کیا۔ فیس بک کے توسط سے اس نے کئی لوگوں سے رابطہ کیا۔ اپنے سوالات پیش کیے لیکن یہاں بھی اسے اطمینان حاصل نہ ہو سکا۔ اس درمیان اس کا رابطہ کچھ ہندوستانی ہندوئوں سے ہوا۔ مشیت الٰہی کو شاید کچھ اور ہی منظور تھا۔ ہندو دوستوں کی فہرست میں محمد ایوب ایک ایسا نام تھا جو نہ صرف نام کے اعتبار سے منفرد تھا بلکہ اس کی پوسٹس (Wall Posts) بھی منفرد ہوا کرتی تھیں۔ محمد ایوب کی وال پوسٹس نے اسے اسلام کا مطالعہ کرنے پر مجبور کیا۔ اسلام کے تعلق سے اُس کے ذہن میں جب کوئی سوال جنم لیتا وہ محمد ایوب سے سوال کرتی۔ اسلام سے قربت نے اس کے مسلم دوستوں کی فہرست میں اضافہ کرنا شروع کر دیا۔ جب کبھی اُس کے ذہن میں کوئی سوال جنم لیتا وہ اپنی وال پر ڈال دیتی۔ محمد ایوب اور دوسرے مسلم دوست مختلف ویب سائیٹس کے توسط سے اس کے شکوک و شبہات کو دور کرنے کی کوشش کرتے۔ رفتہ رفتہ اسلام کی حقانیت اُس پر واضح ہونے لگی اور بالآخر 12دسمبر 2012کو انڈیانا (امریکہ) کی ایک مسجد میں کلمہ شہادت پڑھ کر اس نے کفر و الحاد کے سارے بندھن توڑ ڈالے۔ اسلام قبول کرنے کے بعد مریم ”طیبہ” ہو چکی تھیں۔مریم طیبہ اب مستقل طور پر ہندوستان آ چکی ہیں۔محمد ایوب کی ہی کوششوں سے اللہ کے ایک بندے نے انھیں اپنی زوجہ بھی بنا لیا ہے۔پیش ہے مریم طیبہ سے کامران غنی کی بات چیت :
س: آپ کو اسلام کی کس چیز نے سب سے زیادہ متاثر کیا؟
ج: اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے۔سچ پوچھئے تو اسلام کا کون سا پہلو ہے جو متاثر کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا؟ تاہم مجھے جس چیز نے سب سے زیادہ متاثر کیا وہ اسلام کا ”احترام خواتین” ،” حقوق خواتین” اور ”تحفظ خواتین” ہے۔میں پورے وثوق سے کہہ سکتی ہوں کہ اسلام نے عورتوں کو جتنے حقوق دئیے ہیں اور اسلام میں عورتوں کا جتنا احترام ہے دنیا کے کسی مذہب میں نہیں ہے۔
س: اسلام قبول کرنے کے بعد آپ نے کیا تبدیلی محسوس کی؟
ج: (تھوڑے توقف کے بعد آبدیدہ آنکھوں سے) کلمہ شہادت کے آخری کلمات کی ادائگی کے ساتھ ہی ایسا محسوس ہوا گویا پہلے زنجیروں میں جکڑی ہوئی تھی اور کسی نے میری زنجیریں توڑ کر مجھے آزادی دلا دی ہے۔ اس وقت میری جو کیفیت تھی اسے میں بیان نہیں کر سکتی۔ اسلام قبول کرنے کے بعد میری زندگی یکسر بدل گئی۔ پہلے میں اپنے لباس، اپنے ہیئراسٹائیل وغیرہ پر خاص توجہ دیا کرتی تھی۔ اب میں ان سب سے بے نیاز ہوں۔ مجھے اب یہ فکر نہیں ستاتی کہ لوگ کیا کہیں گے، لوگ مجھے قدامت پرست سمجھتے ہوں تو سمجھا کریں میں مطمئن ہوں کہ میرے اللہ کو میرا یہی روپ پسند ہے۔
س: اسلام قبول کرنے کے بعد آپ کے گھر والوں کا رویہ کیسا تھا؟
ج: اسلام قبول کرنے کے بعد میں اپنے رشتہ داروں سے بالکل کٹ چکی ہوں۔ کوئی مجھ سے ملنا نہیں چاہتا۔ میرا بیٹا مجھ سے الگ ہو گیا۔ میرے بھائی بہنوں نے مجھے تنہا چھوڑ دیا۔ اب آپ لوگ ہی میرے ماں ،باپ، بھائی، بہن سب کچھ ہیں۔ شروع میں مجھے تنہائی کا احساس ہوا لیکن پھر یہ سوچ کر دل کو مطمئن کر لیا کہ میرے ساتھ اب میرا اللہ ہے۔
س: آپ ایک خوشحال خاندان سے تعلق رکھتی تھیں، اسلام قبول کرنے سے پہلے آپ نے عیش و آرام کی زندگی گذاری ۔ ہندوستان میں یقینا آپ کو ویسا آرام نہیں ملتا ہوگا جیسا امریکہ میں آپ کو حاصل تھا۔ کیا کبھی آپ کے دل میں یہ خیال آیا کہ اسلام قبول کرنے کے بعد آپ کو اذیتوں سے گزرنا پڑا؟
ج: جی ہاں! بحیثیت انسان اس طرح کے خیالات آنے فطری ہیں لیکن جب بھی اس قسم کے خیالات آئے یہ سوچ کر دل کو مطمئن کر لیا کہ دنیاوی عیش آرام چند روزہ ہیں۔ اللہ کا شکر ہے کہ اُس نے چند روزہ عیش و آرام کے عوض دائمی آرام کا راستہ ہموار کر دیا۔
س: اب آپ ہندوستان میں کیسا محسوس کر رہی ہیں؟
ج: الحمد للہ بہت اچھا۔ یہاں میں شرعی لباس میں نگاہِ استہزا کا شکار نہیں ہوتی۔ بازاروں میں اس لباس میں مجھے کوئی گھورتا نہیں۔ اگر میں چاہوں تو یہاں اس لباس میں بھی دفتروں میں کام کر سکتی ہوں، درس و تدریس کے فرائض انجام دے سکتی ہوں۔ امریکہ میں یہ ممکن نہیں تھا۔
س: مسلمان بالخصوص نوجوان نسل کو آپ کوئی پیغام دینا چاہیں گی؟
ج: نوجوانوں سے گزارش کروں گی کہ اچھے دوست بنائیں، بری صحبتوں سے گریز کریں۔ آپ دوسروں کے لیے آئیڈیل بنیں۔دنیا سرائے فانی ہے اس کا موازنہ ہمیشہ دائمی یعنی آخرت کی زندگی سے کریں۔ اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لیں اگر آپ کو اس بات کو خدشہ ہو کہ اللہ کی رسی چھوٹ جائے گی تو اسے اپنی کلائیوں سے کس کر باندھ لیں تاکہ کوئی چاہ کر بھی اللہ کی رسی سے آپ کو علیحدہ نہ کر سکے۔