دنیا کا سب سے بڑا شہ زور اور ناقابلِ شکست پہلوان:
ایک عجوبہ روزگار ہستی:
پنجاب کے پہلوانی کے اکھاڑوں میں ایک واقعہ نسل در نسل سے نوآموز پہلوانوں کو بطور اخلاقی تربیت ازبر کرایا جاتا ہے۔ واقعہ کچھ یوں ہے کہ غیر منقسم ہندوستان میں ایک جوان رعنا کبرو پہلوان طاقت و قوت میں یکتا اور دائو پیچ میں پکا لیکن پاکبازی اور نگاہوں کی حفاظت کا یہ عالم کہ کلکتہ کی ایک حسین ترین اور طرحدار نوخیز جادو ادا توبہ شکن طوائف اس کے عشق میں ایسی گرفتار ہوئ کہ روزانہ اس کے اپنے چوبارے کے سامنے سے گزرتے وقت سولہ سنکھار کر کے بیٹھ جاتی، لاکھ نگاہوں کے تیر چلاتی اور قاتل ادائوں ںسے بسمل کرنے کی کوشش کرتی کہ ایک زمانہ اس کی نگاہوں کا گھائل اور نگاہ التفات پر تن من دھن لٹانےکو تیا رہتا لیکن اس جوان رعنا کی نظر ایسی نیچی رہتی کہ گویا کسی نے زمین کے ساتھ باندھ دی تھیں۔ بالآخر جب تمام عشوہ طرازیا ں بیکار گئیں تو ایک دن اس جوان رعنا کو بلا بھیجا۔ ملاقات میں اپنا دل چیر کر اس پر وا کردیا۔ نوجون نے نظریں اٹھائے بغیر سوال کیا کہ وہ اس کے عشق میں مبتلا ہو کر کیا حاصل کرنا چاہتی ہے تو وہ بائ بولی کہ میرا بھی من کرتا ہے کہ تو میری زندگی کا ہمسفر بنے اور تجھ سے میرا ایسا بیٹا پیدا ہو جو تیری طرح ہی ایسا مرد جوان ہو کہ جس کہ جوانی اور رعنائی بے مثال ہو۔ اس پر اس نوجوان نے اسی وقت اس بائ کا ہاتھ پکڑ کر اپنے سر پر رکھا اور گویا ہوا کہ جا مائ تیری تمنا پوری ہوئ۔ آج سے میں تیرا بیٹا اور تو میری ماں۔ اس پر وہ بائ بھی اپنے پیشے سے ایسی تائب ہوئ کہ باقی زندگی یاد اللہ میں گزار دی۔
یہ پاکباز نوجوان رستم زماں گاما پہلوان تھا۔ جو آ گے چل کر دنیائے پہلوانی کا ایسا بادشاہ بنا کہ جس کہ جگہ آج تک کوئ نہ لے سکا۔
ابتدائی زندگی:
گاما پہلوان امرتسر کے ایک کشمیری بٹ خاندان کے پہلوان گھرانے میں 22 مئ سن 1878 کو پیدا ہوئے کہ جن کا پیشہ پشتوں سے فن پہلوانی تھا۔گاما کا اصلی نام غلام محمد تھا۔ ابھی گاما کی عمر پانچ سال تھی کہ والد کا انتقال ہوگیا۔ والد کے بعد گاما کی تربیت کا بیڑا محمد عزیز بخش پہلوان نے اٹھایا۔
موجودہ مدھیہ پردیش کی ایک چھوٹی سی سابق ریاست داتیا کے مہاراجہ بھاوانی سنگھ نے انھیں اپنی سرپرستی میں لے لیا۔
ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات:
گاما نے صرف دس برس کی عمر میں ہی ایک ایسا بڑا مقابلہ جیتا کہ جس میں اس کے مد مقابل اس وقت ے چار سو بڑے پہلوان تھے۔ ہوا یوں کہ جودھپور میں ایک مقابلہ رکھا گیا جس میں پہلوانوں کو مختلف کسرتوں اور ورزشوں سے اپنے دم خم اور طاقت کا مظاہرہ کرنا تھا۔ اس مقابلے میں مختلف کسرتیں جیسے ڈنڈ پیلنا، مگدر چلانا، اور دیگر کئ ورزشیں شامل تھیں۔ مقابلہ شروع ہونے کے بعد رفتہ رفتہ پہلوان تھک کر میدان چھوڑتے گئے ۔ آخر میں چار سو پہلوانوں میں سے صرف پندرہ باقی رہ گئے جو اب بھی اپنا دم خم دکھا رہے تھے۔ ان میں دس سالہ گاما بھی تھا۔ مہاراجہ جودھپور نے گاما کو فاتح قرار دیا کہ اتنی کم عمری کے باوجود وہ نہ صرف میدان میں جما رہا بلکہ بڑی مشاقی سے اپنے فن کا مظاہرہ بھی کیا
گاما کی کسرت اور خوراک۔:
گاما کی اکھاڑے میں روزانہ کی کسرت یہ تھی کہ وہ چالیس شہ زور پہلوانوں سے پنجہ آزمائ کرتے۔ اس کے بعد پانچ ہزار بیٹھکیں اور تین ہزار ڈنڈ پیلتے۔
گاما بیٹھکیں لگانے کیلیئے 95 کلو وزنی بھاری ڈِسک اٹھاتے اور ورزش کرتے تھے۔ نیشنل انسٹیٹیوٹ آف سپورٹس میوزیم، پٹیالہ، پنجاب، بھارت میں آج بھی یہ ڈِسک موجود ہے۔
گاما پہلوان کو مہاراجہ آف دتیہ روزانہ 2 بکروں کا گوشت ، 3 سیر مکھن، 6 گیلن دودھ، 3 ٹوکریاں پھل، اور 20پاؤنڈ بادام کی سردائی، فراہم کرتا تھا ۔
ناقابل فراموش اعزاز:
۔گاما نے
1902ء میں22 سال کی عمر میں 1200 کلو وزنی پتھر اٹھایا اور اپنے سینے تک لایا اور کچھ قدم چلا بھی یہ پتھر آج بھی بھارت کے بارودا میوزیم سایاجی باغ میں پڑا ہوا ہے اور اس پر لکھا ہے “یہ پتھر 23 دسمبر 1902ء کو گاما نے اٹھایا”، میوزیم حکام کا کہنا ہے اس پتھر کو اٹھانے کیلئے ہائڈرالک مشین کا استعمال کیا جاتا ہے ایک جگہ سے دوسری جگہ کرنے میں اور 25 آدمیوں سے یہ پتھر اٹھانا بھی مشکل ہے اور میوزیم کے رجسڑرار میں انٹری نمبر 10-10 میں لکھا ہے کہ یہ پتھر 1912ء میں اس میوزیم لایا گیا۔آج کی تاریخ میں بہت بڑے ویٹ لفٹر جو کہ سٹیرائڈز کا استعمال کر کے بھی 600 کلو وزن نہیں اٹھا پائے۔
گاما کا پہلا مقابلا:
گاما کو شہرت سترہ سال کی عمر میں اس وقت ملی جب انہوں نے اس وقت کے انڈین چیمپئین گجرانوالہ کےمشہور رحیم بخش سلطانی والا پہلوان کو چیلنج کریا۔ ہر ایک یہی امید کر رہا تھا کہ سات فٹ قد والا دیو ہیکل رحیم بخش پانچ فٹ سات انچ کے لونڈے کو منٹوں میں خاک چٹا دے گا۔ لیکن یہ مقابلہ گھنٹوں جاری رہا اور بالآخر بغیر کسی نتیجے کے ختم ہوگیا۔ یہ گاما کی زندگی کا ایک اہم موڑ تھا۔
1910 تک گاما ہندوستان کے تمام نامی گرامی پہلوانوں کو شکست دے چکا تھا لیکن رحیم بخش ابھی بھی ناقابل شکست تھا۔
گاما ان لندن:
اب گاما کی پرواز انگلستان کی طرف تھی۔ برطانیہ پہنچ کر گاما نے وہاں کے پہلوانوں کو چیلنج کردیا کہ وہ کسی بھی قد اور وزن کے تین پہلوانوں کو تیس منٹ کے اندر پچھاڑ سکتا ہے لیکن کسی بھی پہلوان نے اس چیلنج کو سنجیدگی سے نہیں لیا کہ ان کے نزدیک یہ محض ایک گیدڑ بھپکی تھی۔ جب گاما کے اس چیلنج کا جواب نہیں ملا تو گاما نے دوسرا چیلنج دھر دیا۔گاما نے اس زمانے کے ہیوی ویٹ پہلوان زبسکو اور فرینک گوچ کو چیلنج کردیا کہ اگر وہ ہار گیا تو انعام کی رقم جیتنے والے کے حوالے کر کے وطن واپس چلا جاے گا۔ اس چیلنج کو سب سے پہلے امریکی پہلوان بینجمن رولر نے قبول کیا۔ گاما نے اسے ایک منٹ چالیس سیکنڈ میں زیر کرلیا۔ اس کے اگلے روز گاما نے بارہ پہلوانوں کو شکست دے کر بین الاقوامی مقابلوں میں حصہ لینے کے لئے راہ ہموار کرلی۔
زبسکو کے ساتھ مقابلہ:
زبسکو اس زمانے کا ورلڈ ہیوی ویٹ چیمپئن تھا۔ 10 ستمبر 1910 کو گاما اور زبسکو جان بل ورلڈ چمپیئن شپ کے ٹائٹل کے لئے ایک دوسرےکے مدمقابل آئے۔ اس میچ کی انعامی رقم 250 پائونڈ اور جان بل بیلٹ تھی۔ مقابلہ شروع ہوا تو تماشائیوں نے ایک عجیب منظر دیکھا کہ نوجوان گاما نے ایک منٹ کے اندر زبسکو کو پچھاڑ دیا۔ اس کے بعد پورے مقابلے کے دوران دو گھنٹہ پینتیس منٹ تک زبسکو زمین سے نہیں اٹھا اور بیٹھے بیٹھے ہی دائو پیچ لڑانے کی کوشش کرتا ہا۔ اس کے اس دفاعی اور بزدلانہ انداز پر تماشائ بھی سیخ پا ہو گئے۔ بہرحال یہ رائونڈ ہار
جیت کے فیصلے کے بغیر ختم ہوگیا۔زبسکو کو دوبارہ مقابلے کا چیلنج دیا گیا لیکن وہ دم دبا کر بھاگ نکلا اور گاما کو فاتح قرار دیا گیا۔
اپنے اس دورے کے دوران گاما نے لندن میں اس زمانے کے کئ نامی گرامی چیمپئنوں کو شکست دی۔
گاما نے سویڈن سے تعلق رکھنے والے ولڈ چیمپئین جیسی پیٹرسن، فرانس کے مورائس ڈیریاز اور، سوئٹزرلینڈ کے ، یورپی چمپیئن جوہان لیم کو ہرایا۔
برطانیہ میں گاما نے بنجامن رولر کو 15 منٹ میں 13 بار ہرایا اور گاما نے میچ کے دوران ولڈ چیمپئین کے دعوے دار جن میں جاپانی جوڈو چیمپئین ٹارو میاک، ولڈ چیمپئین فرینک گوچ اور جارج ہیکن سمڈ کو چیلج کیا لیکن ان سب نے لڑنے سے انکار کر دیا پھر گاما نے مزید 20
پہلوانوں کو ایک کے بعد ایک مقابلے کا کہا اور جیتنے والے کو پیسے کا انعام کا کہا لیکن سب نے انکار کر دیا۔سب پہلوانوں میں یہ افواہ پھیل گئ کہ یہ ہندستانی پہلوان کوئ جادوگر ہے۔ ملکہ وکٹوریہ نے بڑے فخر سے بیان دیا کہ یہ تو ہماری ہی نو آبادی کا پہلوان ہے۔
رحیم بخش پہلوان کے ساتھ آخری معرکہ:
برطانیہ سے واپسی کے کچھ ہی عرصے بعد گاما کا مقابلہ ایک مرتبہ پھر رحیم بخش پہلوان سے ہوا۔ یہ مقابلہ کافی دیر تک جاری رہا کہ کوئ بھی مقابل شکست تسلیم کرنے کو تیار نہ تھا۔ بالآخر طویل اور صبر آزما مقابلے کے بعد گاما کو فاتح قرار دیا یا۔ یوں گاما نے رستم ہند کا اعزاز بھی اپنے نام کرلیا۔
بعد میں جب گاما سے پوچھا گیا کہ اس کو زندگی میں سب سے زیادہ طاقتور پہلوان کون ملا جس کو شکست دینے میں اسے دقت کا سامنا کرنا پڑا تو گاما نے بغیر ہچکچائے رحیم بخش کا نام لیا۔
1916 میں گاما نے انڈیا کے مشہور پہلوان پنڈت بدو کو شکست دی۔ اس کے بعد گاما کی ایسی دھاک بیٹھی کہ 1928 تک کئ پہلوان اس کے
مقابل آنے کی ہمت نہ کرسکا۔
زبسکو سے دوسرا دنگل:
1928 میں گاما کا زبسکو سے دوسرا دنگل ہوا۔ یہ مقابلہ 10 جنوری 1928 کو پٹیالہ میں ہوا۔،اکھاڑے میں اترتے وقت زبسکو نے بڑی نخوت سے اپنے قوی اور دیوہیکل جسم کے عضلات کی نمائش کی جبکہ 5 فٹ 7انچ کا گاما اس کے سامنے بہت کمزور نظر آرہا تھا۔ مقابلہ شروع ہوا اور گاما نے ایک منٹ میں زبسکو کو دھول چٹا کو ورلڈ ہیوی ویٹ چیمپئین کا اعزاز جیت لیا۔اس شکست کے بعد زبسکو نے گاما کو ٹائیگر کا خطاب دیا۔ اس طرح 48 سال کی عمر میں گاما دنیائے پہلوانی کا عظیم ترین پہلوان ٹھہرا۔
خاندانی پس منظر:
گاما نے دو شادیاں کیں ۔ ایک بیوی کا تعلق بڑودہ گجرات سے جبکہ دوسری کا تعلق پاکستان سے تھا۔ گاما کا خاندان آج بھی موجود ہے۔ گاما کے دو بیٹے بچپن میں ہی فوت ہو گئے تھے۔موجودہ وزیر اعظم نواز شریف کی اہلیہ محترمہ کلثوم نواز شریف گاما کی سگی نواسی ہیں۔ اس کے علاوہ بھولو پہلوان اور بھولو برادران جن میں ناصر بھولو بھی ان کے رشتہ دار ہیں اور اس کے علاوہ گوجرانوالہ میں بلدیاتی سطح کے ن لیگ سے تعلق رکھنے والے سیاسدان حمزہ بٹ بھی گاما کے ۔سگےنواسے ہیں۔
گاما کو خراج تحسین
افسوس کہ پاکستان کی نوجوان نسل اس عظیم پہلوان سے واقف نہیں لیکن یورپ میں گاما کو اب بھی ایک عظیم پہلوان کی حیثیت سے جانا جاتا ہے۔ عظیم اداکار و کنگفو اور کراٹے کا چیمپئن بروس لی گاما سے بے انتہا متاثر تھا۔، بروس لی گاما کے مداح تھے اور ان کی ٹریننگ اور ورزش کے طریقوں کے آرٹیکل پڑھتے تھے اور ان کو عملی طور پر بھی اپناتے تھے۔
اسکے علاوہ سٹریٹ فائٹر گیم میں ڈارن مسٹر کا کردار بھی گاما پر بنایا ہے ایک اور گیم شیڈو آف کنوینٹ میں گاما کے کردار کا پہلوان ڈالا گیا ہے، اس کے علاوہ جاپانی کامک کتاب ٹائگر ماسک میں بھی گاما کو خراجِ تحسین پیش کیا گیا ہے۔
ناقابل شکست:
اپنی وفات تک گاما ناقابلِ شکست رہا، اس نے زندگی میں اتنے مقابلے لڑے کہ خود بھی گنتی نہ کر سکا، سوائے گوجرانوالہ کے رحیم بخش پہلوان کے جس سے تین مقابلے برابر رہے مگر چوتھے اور آخری مقابلے میں گاما انہیں زیر کرنے میں کامیاب ہوسکا،
اس خاندان کا ایک اور عظیم نام گاماں کے چھوٹے بھائی امام بخش پہلوان کا بیٹا رستمِ زمان بھولو پہلوان ہے، جس نے 1967 میں لندن کے ایمپائیر پول ویملے سٹیڈیم میں فرانس کے ہیوی ویٹ چیمپین ہنری پیجری لٹ کو تیسرے راؤنڈ میں ناک آؤٹ کر کے رستمِ زمان کا اعزاز حاصل کیا تھا-
آج ہمارے وطن میں کوئی بھی نہ گاما کے نام سے واقف ہے اور نہ ہی اس کے کام سے، بھارت کے پہلوان آج بھی اکھاڑے میں گاما کا نام لے کر داخل ہوتے ہیں.
ایک یادگار واقعہ:
تقسیم کے دوران لاہور کے ہندو خاندانوں نے بھارت ہجرت کا فیصلہ کیا ۔ بے شمار خاندان باعافیت روانہ ہو گئے لیکن ایک مرتبہ کچھ شرارتی مسلمانوں کا ٹولہ ہجرت کرنے والے ہندوئوں کو لوٹنے آن پہنچا۔ گاما نے ان کی حفاظت کے لئے اپنے شاگرد کھڑے کردئیے۔ بلوائیوں کا سرغنہ طاقت کے نشے میں چور آگے بڑھا تو گاما نے اس کو اٹھا کر دور پھینک دیا جس کے بعد بلوائ سراسیمگی کے عالم میں منتشر ہوگئے۔
گاما نے اپنے کچھ لوگوں کو اس ہندو خاندان کے ساتھ کیا جو ان کو سرحد تک باحفاظت چھوڑ آیا۔ گاما نے ان کے ساتھ زاد راہ کے طور پر کچھ راشن بھی دے دیا تھا۔
وفات
تقسیم ہند کے زرا پہلے گاما کا خاندان امرتسر سے ہجرت کر کے لاہور آگیا۔ اس وقت تک گاما کی عمر 70 برس ہوچکی تھی۔وہ دل اور دمے کے مرض میں بھی مبتلا ہو چکے تھے۔ ایک بھارتی ہندو صنعتکار ڈی جی برلا گاما کے بڑے قدردان تھے اور اپنی طرف سے ان کی پینشن باندھ رکھی تھی۔ وفات سے کوئ بارہ سال قبل گاماں پہلوان کو رمضان المبارک میں سحری کے وقت ایک نہایت ہی زہریلے سانپ نے کاٹ لیا تھا۔گاماں پہلوان کو ان ہی کے ذاتی تانگے پر میو ہسپتال لایا گیا۔یہ ایک بہت ہی زہریلا سانپ تھا اور کسی عام آدمی کو کاٹتا تو وہ فوراًہی لقمہ اجل بن جاتا مگر گاماں پہلوان اس سانپ کے زہر سے بھی بچ گئے ۔صحت یاب ہونے کے بعد گاماں پہلوان نے کہا کہ سانپ نے دانت میرے پائوں میں گاڑھ دیئے لیکن میں نے پوری قوت سے اسے زمین پر رگڑا تویہ الگ ہوااورمجھے یوں لگا جیسے میں جلتے تنور میں گرگیا ہوں۔گاماں پہلوان اس واقعہ کے بارہ سال بعد طبعی موت کا شکار ہوئے ۔دنیائے پہلوانی کا یہ عظیم سپوت 23 مئ سن 1960 کو اپنی 82 ویں سالگرہ کے اگلے روز اس جہان سے کوچ کرگیا۔ ان کی وصیت کے مطابق انہیں پیر مکی کے مزار احاطہ میں دفن کیا جانا تھا ۔پیر مکی کے صحن میں قبر کی کھدوائی شروع ہوئی تو ایک مجاور خاتون نے ڈپٹی کمشنر کو دہائی دی کہ کچھ لوگ پیر مکی کے صحن میں زبردستی قبر بنانے جا رہے ہیں جنہیں ایسا کرنے سے روکا جائے ۔طویل بحث کے بعد گاماں پہلوان کو جوگی خاندان کے ذاتی قبرستان میں دفن کردیا گیا اور یوں ان کی آخری خواہش جسے پورا کرنا دشمن بھی اپنا فرض سمجھتا ہے ، پوری نہ ہو سکی۔۔
نوٹ: اس مضمون کی تیاری میں مختلف کتب اور ویب سائٹس سے مدد لی گئ ہے