تیسرا حصہ
اور ہاں آج کل بھائی جان نے اتنے خوبصورت کیلنڈرر فلمی ایکٹرسوں کے لگارکھے ہیں اپنے کمرے میں کہ کمرہ دلہن کی طرح لگتا ہے بالکل دلہن کی طرح۔‘‘ رحیمہ بڑے فخریہ انداز میں بولی۔
’’ شاہینہ باجی آئیے نا کسی دن ہمارے گھر۔‘‘ سلمہ نے کہا اور شاہینہ ہر فقرے، ہر جملے پر لاجواب تھی۔
’’ تم کو یہ شعر پسند ہے شاہینہ ؟
زندگی ہے زندہ دلی کا نام
مردہ دل کیا خاک جیا کرتے ہیں
بھئی مجھے تو بہت پسند ہے شاعر نے دل نکال کر کاغذ پر رکھ دیا ہے واﷲ۔۔۔ کن بزرگ کا شعر ہے بھول گیا۔‘‘
کاغذ پر غالب کا دل غلط شعر کی صورت ۔ اسے ہنسی آگئی۔
’’بیٹا کلیم یہاں آنا ذرا۔‘‘ بر آمدے سے نعیمہ بیگم نے آواز دی۔ سلمہ اور رحیمہ تم بھی آؤ یہاں بیٹھو آکر میرے پاس ذرا دیر‘‘۔
اُن تینوں کے کمرے سے جانے کے بعد وہ بے جان سی ہوکر مسہری پر گر پڑی۔ آج وہ امّی سے قطعاً کہہ دے گی کہ یہ رشتہ اُسے منظور نہیں خوشامد کرلے گی۔۔۔ لیکن ۔۔۔ ان کا دل بہت کمزور ہے بہت صدمہ ہوگا انہیں۔۔۔۔۔ کچھ بھی ہو آخرِ کو یہ میری زندگی کا اہم ترین مسئلہ ہے۔۔۔۔لیکن ۔۔۔۔کہوں کیسے۔۔۔۔۔ اس موضوع پر امّی سے آج تک بات نہیں ہوئی ہے۔ تو کیا ہوا۔۔۔۔کیا اتنی بھی ہمت نہیں مجھ میں۔ جرأت کی ضرورت ہے۔۔۔۔حیا کا مظاہرہ کیا اسی معاملے میں ضروری ہے۔ اسے سکون کا احساس ہوا۔ باہر ہلکی پھوار پڑ رہی تھی اور آسمان پر عالمگیری بادل چھارہے تھے۔ جولائی کا مہینہ تھا۔ اس نے سڑک کے اس پار لگے آم کے گھنے درخت کی طرف دیکھا جس پر نگاہ کو ٹھنڈک پہنچانے اور روح کو سکون بخشنے والا سبز رنگ تھرتھرا رہا تھا۔ جنّت کا رنگ۔۔۔۔۔فطرت کے کتنے مختلف روپ ہیں۔۔۔۔۔۔حسین صورتیں۔
شام کے وقت کلیم سلمہ اور رحیمہ کو لینے آیا۔ ان لوگوں کے جانے کے بعد وہ ماں
کے پاس پہنچی۔۔۔۔۔آج وہ اپنے اور اپنی ماں کے درمیان تکلفات اور روایات کی دیوار ڈھادے گی۔ نعیمہ بیگم اُسے معمول سے زیادہ خوش نظر آئیں۔ ۔۔۔۔۔ عزیز بھانجا اور بھانجیاں اُن سے ابھی مل کر گئے تھے۔ ان کی مرحوم بہن کی نشانیاں!
’’ امی۔۔۔۔‘‘ وہ آرام کرسی پر بیٹھتی ہوئی بولی۔ چہرہ دھواں دھواں تھا اور آواز میں آنسو۔
’’ امی ایک بات کہوں؟ مان لیں گی۔‘‘ اس کی آواز میں لرزش تھی۔
’ ’ میں نے تمہاری کون سی بات ٹالی ہے بیٹی؟ کہو تو بھلا کیوں ناراض ہونے لگی؟‘‘ ’’وعدہ۔‘‘ ’’ امی ہمیشہ روایات کی پابندی کیا ضروری ہے؟‘‘
’’ میں سمجھی نہیں ذرا صاف الفاظ میں کہو‘‘۔
’’ صدیوں سے جو باتیں ہوتی چلی آئی ہیں کیا ضروری ہے کہ آنکھ بند کرکے ہم انہیں مانتے رہیں۔ لکیر کے فقیر بنے رہیں؟‘‘ اس نے سوالیہ نظروں سے ماں کودیکھا۔ ’’بالکل۔ جو ہمارے بزرگ کرتے چلے آئے ہیں وہی کرنا ہمارا فرض ہے اور یوں ہی ہم کچھ کر بھی سکتے ہیں‘‘۔
’’ آپ سے ایک بہت اہم بات کہنا تھی لیکن آپ تو‘‘ ۔۔۔۔الفاظ اس کا ساتھ چھوڑ گئے۔ ’’ کون سی بات ہے بیٹی؟۔۔۔۔۔۔ مان لوں گی بھئی اگر ماننے والی ہوئی تو۔۔۔۔‘‘
’’ امّی کلیم سے رشتہ مجھے منظور نہیں۔‘‘
نعیمہ بیگم پر گویا بجلی گر پڑی ہو۔۔۔۔۔۔کچھ دیر سکتے کے عالم میں بیٹھی رہیں۔ انہیں لگ رہا تھا وہ گہرے کھڈ میں جا گری ہوں۔۔۔۔۔ خاندان میں کبھی ایسا نہ ہوا تھا کہ لڑکی شادی بیاہ کے معاملے میں زبان ہلائے۔ ’’یہ کیاکہہ دیابیٹی تم نے۔۔۔۔ وہ مسہری پر گر گئیں اور بیہوش سی ہونے لگیں۔وہ سراسیمہ ہوکر اٹھی۔ ان کے منھ پر پانی کے چھینٹے دیے پھر الماری سے نکال کر ایک چمچہ دوا انکے حلق میں ڈال دی۔ ہائے اب کیا ہوگا۔ ابّو بھی تو نہیں ہیں گھر پر۔ خاندان میں اس طرح کی بات کبھی بھی نہیں ہوئی تھی۔ کیا وہ ہتھیار ڈال دے؟ لیکن کلیم کے تصوّر ہی وہ کانپ سی گئی اسی وقت نعیمہ بیگم نے آنکھیں کھول دیں اس کیمغموم صورت دیکھ کر وہ بے چین ہوگئیں۔ ’’میری بچی یہ کیاکہہ دیا تونے تجھ سے زیادہ تو مجھے دنیا میں کوئی عزیز نہیں‘‘ ان کی آنکھوں میں نمی تھی۔
’’ امی اب طبیعت کیسی ہے۔؟‘‘ ایک انجانا سا خوف اس کے وجود پر مسلط تھا۔ کہیں امی کوکچھ۔۔۔ خدا نہ کرے۔۔۔۔ نہیں نہیں۔۔۔ اس کی آنکھیں ڈبڈبا رہی تھیں۔
’’ ہاں بیٹی اب ذرا بہتر ہوں لیکن تم رو کیوں رہی ہو؟۔۔۔۔ رو مت‘‘
’’ امی۔ ‘‘ وہ ہچکیوں سے رو پڑی۔
’’ اچھااب تم اس وقت جاکر آرام کرو۔۔۔۔۔ ان کی آواز کے دکھ کو اس نے محسوس کیا۔کیا ایسا نہیں ہوسکتا تھا کہ کلیم سے پیچھا بھی چھوٹ جاتا اور امی کو تکلیف بھی نہ ہوتی۔وہ مزید کچھ بھی نہیں کہہ سکتی تھی۔ اب وہ نہ جانے کیا فیصلہ کریں گی۔ ۔۔۔۔ یہ سوچتی ہوئی وہ بوجھل قدموں سے اپنے کمرے میں واپس آگئی۔ کرسی پر بیٹھ کر میز پر سر ٹکادیا۔ اسکے تصوّر میں ایک خیالی پیکرابھرا۔ ایک ایسی ہستی جو اس کو سمجھ سکے۔ سچے علم سے معمور، مہذب باوقار، سنجیدہ، شریف اور بلند کردار، پرُ کشش شخصیت کا مالک۔ جو اس سے سچی محبت کر سکتا۔ اس شخص کا کوئی نام تھا نہ کوئی واضح صورت محض ایک خیالی پیکر جسے پانے کے لیے اس کی روح بے چین تھی وہ سسک پڑی۔
لمحے سرکتے رہے۔۔۔۔ وقت تھم سا گیا۔ نہ جانے کتنی دیر یونہی بیٹھی رہی اور دعا کرتی رہی کہ سب ٹھیک ہوجائے۔ پھر پردہ آہستہ سے ہٹاکر نعیمہ بیگم کمرے میں داخل ہوئیں۔
’’کیا مجھ سے ناراض ہے بیٹی؟‘‘ وہ چونک کر اٹھ کھڑی ہوئی۔ ماں کی آمد غیر متوقع تھی۔ کسی معجزے کی اسے کوئی امید نہ تھی۔
’’ امّی میں نے بہت ظلم کیا آپ پر مجھے معاف کر دیجیے لیکن ۔۔۔ امّی میری مرضی کے خلاف اس شخص کے پلّے نہ باندھیے جس کے ساتھ میں ہر گز خوش نہیں رہ سکتی۔‘‘ اس کی آواز مرتعش تھی۔ اسے اپنے آپ پر حیرت ہورہی تھی کیونکر وہ ادا کرسکی وہ الفاظ…. اسی وقت اس کی نگاہ دیوار پرلگی پینٹنگ پر گئی۔ تنہا چٹان اور لہریں مارتا ہوا پانی۔
’’ بیٹی کلیم مجھے بے حد عزیز ہے میری مرحوم بہن کی نشانی ۔۔۔۔۔ میری دلی خواہش تھی کہ تیری شادی اسی سے ہوتی۔ حالانکہ ہمارے خاندان میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ
لڑکی اپنی شادی کے بارے میں زبان ہلائے۔ اب تک میں یہی سمجھتی تھی کہ لڑکیاں گائیں ہوتی ہیں جس کھونٹے باندھ دو خوش رہیں گی۔مگر اب اندازہ ہوا کہ لڑکیاں گائے نہیں رہیں۔تو بیٹی تیری خوشی میری خوشی ہے۔مجھ سے تیرا کمہلایا چہرہ نہیں دیکھا جاتا ۔ یہ میری زندگی کی سب سے بڑی ہار ہے بیٹی۔۔۔‘‘ ان کی آواز میں پژمردگی تھی۔
’’ ممکن ہے یہی آپ کی سب سے بڑی جیت ہو‘‘ وہ مسکرائی۔
’’ اب تو ناراض نہیں ہے ہم سے؟‘‘ انہوں نے اسے چمکارا حیرت اور خوشی کے ملے جلے جذبات سے اس کا چہرہ کھل سا اٹھا۔
’’ امی ۔۔۔۔۔ وہ ان کی گردن میں جھول گئی �آنکھیں خوشی سے چھلک پڑیں۔
’’ اچھا اب چلو تمہارے ابو آگئے ہیں ان کو بھی یہ خوش خبری سنادوں‘‘۔ وہ تکلیف اور خوشی کے ملے جلے جذبے سے دوچار تھیں۔ تمام مرحلے سے گزرنے کے بعد اسے شدت سے محسوس ہوا کہ وہ ریشم کی طرح نرم بھی ہے اور فولاد کی طرح سخت بھی۔ اور اُسی لمحہ اسے اس سامنے والی چٹان اور فولاد میں گہری مماثلت نظر آئی۔ رزم حق و باطل ہوتو فولاد ہے مومن تو کیا وہ مومن ہے۔۔۔۔۔؟ اس نے خود سے سوال کیا۔ اپنی نرمی کا احساس تو اسے تھا لیکن سختی اور مضبوطی کا احساس اب ہوا ۔ اور اس لمحے اسے سامنے والی چٹان کے پاس نرم روی سے بہتے پانیوں کی نرمی کا بھی احساس ہوا۔ چٹان اور پانی ، پانی اور چٹان۔ وژن اب مکمل ہوا تھا۔ اقبال کتنا بڑا شاعر تھا۔۔۔۔ عظیم۔۔۔۔ برگزیدہ۔۔۔۔
نعیمہ بیگم جاچکی تھیں۔ اس کا دل اُچھل رہاتھا۔باربار مسکراپڑتی۔۔۔۔کبھی کرسی پر بیٹھتی، کبھی مسہری پر، کبھی کھڑکی میں جا کھڑی ہوتی کبھی وہ ناول اٹھالیتی جو اس نے شروع کردیا تھا اس وقت اس کا دل چاہا کہ کاش اس کی کوئی سہیلی اس وقت اس کے پاس ہوتی تو وہ اس کے سامنے اپنی خوشی کا اظہار کرسکتی لیکن اس کی کسی سے اتنی دوستی ہی نہیں تھی۔ خاندان کی سطحی لڑکیوں سے اس کی قطعی نہ پٹتی تھی کوئی اس کی سطح تک نہیں پہنچ سکتی تھیں الٹے حسد میں مبتلا تھیں۔ ان کے مرغوب موضوعات زیورات، لباس، خانہ داری کے گُر، مرغن کھانوں کی ترکیبیں، سلائی کڑھائی کے ڈیزائن اور سب سے بڑھ کر چھُپ چھُپ کرفلمی رسالوں کا مطالعہ اور فلمی اداکاروں کی کریز۔