ہ ناول جو وہ پڑھ رہی تھی اس نے جلدی جلدی ختم کیا۔ ہلکے پھلکے ناول اکثر اسے اچھے لگتے تھے۔ اس ناول میں جو بہت پڑھی لکھی لڑکی ہے ایک جاہل لٹھ لڑکے کو پڑھا لکھا کر اپنے قابل بنالیتی ہے پھر اس سے شادی کرلیتی ہے۔ اس بات نے اسے حیرت میں ڈال دیا۔۔۔۔ناول کی ہیروئن ثریا اسے بڑی جاندار لگی اپنے سے کہیں مختلف، کہیں بر تر۔ کیا ضروری ہے کہ اگر لڑکی تعلیم یافتہ ہوتو لڑکا بھی اس کے برابر پڑھا لکھا ہو اس کے بر عکس اگر مرد بہت زیادہ قابل ہو تو وہ عموماً یہ نہیں دیکھتا کہ لڑکی اس کے برابر پڑھی لکھی ہو ہمیشہ ایک دو ڈگری کم یا بالکل جاہل لڑکی سے اس کی شادی ہوجاتی ہے۔ ابو اور امّی کی ہی مثال ہے ابو نے شاید یہ بات کبھی سوچی بھی نہ ہوکہ ان کی اور امّی کی کوئی ذہنی رفاقت نہیں ہے تو پھر یہ سب سوچ کر میں یقیناًبدھو پن کا ثبوت دے رہی ہوں۔جب جاہل لڑکی سے ایک پڑھا لکھا لڑکا شادی کرسکتا ہے تو پھر جاہل لڑکے سے ایک تعلیم یافتہ لڑکی کیوں نہیں کرسکتی۔ اور پھر اس میں بے چارے کلیم کی کیا خطا ہے کہ وہ جاہل مطلق ہے….. اس کے والد بزرگوار نے ہی اسے جاہل رکھا۔تجارت پر لگا دیا۔غلطی اس میں ابو کی بھی ہے۔ جب وہ جانتے تھے کہ بیٹی کلیم کو منگی ہے تو پھر شروع ہی سے ان کو کلیم کی تعلیم و تربیت کا اہتمام کرنا تھا یا پھر بیٹی کو بھی جاہل رکھتے۔ یہ تو ان کا مجھ پر اور بے چارے کلیم پر سراسر ظلم ہوا۔۔۔۔۔ وہ بھی آخر کو انسان ہے۔۔۔۔۔۔ میری مرحوم خالہ کی نشانی اس نے امّی والے اسٹائل میں زیرِلب کہا۔اسے پہلی بار ابو پر تھوڑا غصّہ آیا۔ ابواسے خود پڑھا سکتے تھے جس طرح مجھے پڑھایا اس کی بھی ذہنی اور اخلاقی تربیت ابو کر سکتے تھے، شخصیت سازی کرسکتے تھے جیسی میری کی یا پھرشروع سے ہی اس رشتے کو ختم کردیا ہوتا۔ کیا ضروری ہے کہ پردیس میں جو لڑکا میرے لیے وہ دیکھ آئے ہیں وہ مجھے پسند ہی آجائے میرے معیار پر پورا ہی اتر جائے۔ ایک آدھ دن کی جان پہچان سے یہ کیسے اندازہ ہو سکتا ہے کہ اس کا اصل مزاج کیسا ہے ؟ کردار کیسا ہے، شخصیت کیسی ہے، ذہنیت کیسی ہے۔ جہاں تک تنہائی بانٹے کا سوال ہے ، ذہن و دل اور روح کی گہرائیوں میں اترنے کا سوال ہے، ضروری نہیں کہ اُس شخص میں یہ صلاحیت ہو ہی۔ کسی کی تنہائی بانٹنا مشکل کام ہے۔۔۔۔ ہم سب اکیلے ہیں۔۔۔۔ ہر شخص کی اپنی
الگ ذہنی دنیا ہوتی ہے۔۔۔۔۔ تو ۔۔۔۔۔پھر شادی کا کیا مقصد ہے۔۔۔۔۔۔ کیا فقط نسل کی افزائش۔۔۔۔۔۔؟ تو پھر تو اولاد کی پیدائش کے بعد ۔۔۔۔۔بڑھاپے کے قریب شادی کی معنویت ختم ۔ لیکن شایداس وقت ایک دوسرے کے ساتھ کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔ بیماری دکھی، ہرض مرض میں ساتھ اور رفاقت کی ضرورت ہوتی ہے۔ جو امی اور ابو کی اس وقت ہے دونوں ایک دوسرے کا ساتھ دیتے ہیں جس کے لیے برابر کی تعلیم ضروری نہیں۔۔۔۔ امی اور ابو عمر کی ان منزلوں پر ہیں جب زندگی کا کچھ ٹھیک نہیں ہوتا۔ ان کے بعد ز ندگی کس طرح گزاروں گی ورنہ تو شادی کو فضول سمجھتی ہوں لیکن ضرورت ہوتی ہے کسی کے ساتھ کی، دکھ درد میں شرکت کی اور پھر بچے جو بہت محبت کرنے والے ہوتے ہیںیہ تو لڑکی پر ہے کہ کس صورت اپنی انفرادیت برقرار رکھے۔ اور پھر کیا ایسا نہیں ہوسکتا کہ وہ کلیم کو خود پڑھا ئے ،ابو پڑھائیں اور ساتھ ہی اس کی تربیت بھی کریں۔ اس میں حیرت انگیز لچک ہے۔ وہ مضحکہ خیز انداز میں خود کو میرے قابل بنانے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔۔۔انگریزی سیکھ رہا ہے اخبار پڑھتا ہے فلم ایکٹرسوں کے کیلنڈر لگاتا ہے(سوچتا ہے مجھے فلمی اداکاروں سے دلچسپی ہوگی احمق)۔۔۔۔۔اس احساس کے ساتھ کہ اب بیڑیاں ٹوٹ چکی ہیں اس نے آزادی کے ساتھ کلیم کے بارے میں سوچا تو اس سے کچھ ہمدردی سی محسوس ہوئی…… کلیم کے سلسلے میں اپنا رویّہ Snobish لگا۔ابو نے اگر مجھے پڑھایا نہ ہوتا تو شاید میں بھی سلمہ اور رحیمہ کی طرح ہوتی ۔ اوہ! یہ سب کیا سوچنے لگی میں۔۔۔۔۔ وہ اٹھی اور خاکی پیکٹ کھولا جو اس کے ابو لے کر آئے تھے کئی کتابیں تھیں۔ اس نے ’’ جین آئر‘‘ پڑھنا شروع کردی۔
اس نے دو تین گھنٹے ہی میں ناول ختم کرڈالا۔ جین کار اچسٹر سے شادی سے انکار پھر راچسٹر کے اندھے ہوجانے پر اس سے شادی اسے تحفظ دینے کی غرض سے ۔ کیا تحفظ حاصل کرنے کے بجائے میں کسی کو تحفظ دے نہیں سکتی ؟اسی لمحے ا سے احساس ہوا کہ کلیم در اصل احمق نہیں بلکہ عدم اعتماد اور احساسِ کمتری کا شکار ہے جو اس کے اپنے گھریلو ماحول کی دین ہے۔ ان امراض کا علاج ناممکن ہرگز نہیں ۔ اسے محسوس ہواکہ ایک معالج کی روح اس میں سمائی ہوئی ہے جس کا اسے اب تک احساس نہ تھا۔۔۔۔۔
یہ آخرِ میں کلیم کے بار ے میں کیوں سوچے چلی جارہی ہوں اب تو میں نے اس سے شادی سے انکار کردیا ہے۔۔۔۔۔ کتنی آزاد ہوگئی ہوں میں جیسے پیروں کی زنجیر کٹ گئی ہو۔۔۔۔۔۔ لیکن ویسے ہی ذرا تجربے کے طور پر آزما کر دیکھنے میں کیا ہرج ہے اسے پڑھانا شروع کردوں۔ ابو سے بھی کہوں وہ بھی پڑھائیں ویسے بھی آکر بورکرتا رہتا ہے کچھ تربیت ہوجا ئے گی تو کم بور کر ے گا۔ ویسے جسمانی شخصیت کے لحاظ سے برا نہیں ذہنی شخصیت۔۔۔۔ اوہ ناقابلِ برداشت لیکن میں یہ سب سوچ ہی کیوں رہی ہوں ابھی تو اس نتیجے پر پہنچ چکی تھی کہ وہ احمق نہیں ہے جیساکہ میرا خیال تھا۔ مزاج میں لچک ہونے سے یہ کب ثابت ہوا کہ وہ احمق ہے اگر وہ خود کو میرے لائق بنانے کی کوشش کرتا ہے تو یہ خوشی کی بات ہے کچی لکڑی ہے جس طرف موڑو مڑجائے گی۔ اسے ہنسی آگئی یہ جملہ تو کمسن لڑکیوں کے لئے کہاجاتا ہے جب ان کی شادی کی بات چلتی ہے۔۔۔۔۔ اوہ! میں یہ سب کیوں سوچ رہی ہوں۔۔۔۔ لگتا ہے جیسے دھارا ہو جو رک نہیں پارہا ہے۔ اس نے سوچا کہ میری آنکھوں میں آنسو کیوں نہیں ،اوہ تو کیا ضروری ہے کہ ہر وقت ہم خود پر مردہ دلی طاری کئے رہیں۔ جبھی تو کلیم اس شعر کا مطلب پوچھ رہا تھا۔’’ زندگی زندہ دلی کا نام ہے ‘‘ حالانکہ بے چارہ غلط شعر پڑھ رہا تھا لیکن کہنا یہ چاہ رہا تھا کہ زندہ دلی ہی زندگی ہے اور شاہینہ بیگم تم جو ہر وقت منہ بسورے رہتی ہو تو خاک جیتی ہو۔۔۔۔۔۔۔ بڑی دلچسپ بات ہے گہرا طنز کر گیا مجھ پر۔ خود بیوقوف بن کر دوسروں کو بیوقوف بناتا ہے۔ یہی تو عقل مند آدمی کی پہچان ہے۔ یعنی کہ اگر جو اس شخص کی ذرا ذہنی تربیت ہوجائے تو یقیناًیہ اچھا ہم سفر ثابت ہوسکتا ہے ۔۔۔ شریکِ زندگی، تنہائیوں کا مداوا ۔۔۔۔ جس سے کہ میری اداسیاں دور ہوسکتی ہیں۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ فرمانبردار ہے اور یہ میرے خیال میں بہت بڑی خصوصیت ہے۔ ضروری نہیں کہ چھوٹا ہی کہنا مانے۔ امی نے میرا کہنا مانا میں کتنی خوش ہوں۔لیکن میں احمق داس آخر اس شخص کے بارے میں کیوں سوچے چلی جارہی ہوں۔ اس سے میرا رشتہ ختم ہوچکا ہے۔۔۔۔۔۔۔ اوہ میں کس قدر خوش ہوں۔۔۔۔۔لیکن وہ الہٰ آباد والا انجانا شخص نہ جانے کیسا ہو۔۔۔۔۔ تو۔ کیا ضروری ہے کہ شادی کی ہی جائے۔ تجّرد کی زندگی تو سب
سے اچھی زندگی کہی گئی ہے۔ رابعہ بصری ۔۔۔۔لیکن شاہینہ بیگم تم رابعہ بصری نہیں ہو۔ انتہائی معمولی متنفّس ہو۔ وہ پہنچی ہوئی خاتون تھیں لیکن۔۔۔۔ سرسید نے تو کہا تھا ’’ انجمن خاتونان پنجاب‘‘ کے جلسے میں: ’’ تم میں ہزاروں رابعہ بصری موجود ہیں‘‘۔۔۔۔ لیکن ۔۔۔۔ شادی کے بغیر دنیا والے کیا زندہ رہنے دیں گے ذرا لڑکی بڑی ہوئی فوراً انگلیاں اٹھانا شروع کردیتے ہیں۔ ابھی تک شادی کیوں نہیں ہوئی۔ اور ۔۔۔۔ المیہ یہ ہے کہ اگر شادی کے بعد کچھ ہی عرصہ میں وہ کمسن لڑکی اتفاق سے بیوہ ہو گئی تو کوئی اس کی دوسری شادی کے سلسلے میں فکر مند نہیں ہوتا ، کسی کو اس کی تنہائی کا خیال نہیں آتا وسیمہ بے چاری کی مثال سامنے ہے چھوٹے سے بچے کے ساتھ بیوگی کی زندگی گزاررہی ہے۔۔۔۔۔ ماں باپ کب تک زندہ رہیں گے۔ قدم قدم پر مشکلات ، عدم تحف٭۔۔۔۔کیسا عجیب سماج ہے۔ اسے بے حد الجھن ہوئی۔ جین آئیر اور وہ لڑکی جس نے جاہل لڑکے کواپنے قابل بنالیا۔ تو کیامیں کچھ نہیں کرسکتی ۔ اونھ سب ناولوں کی باتیں ہیں۔۔۔۔۔ حقیقت بڑی سنگین ہوتی ہے۔۔۔۔۔ اوہ! یہ سب احمقانہ باتیں آخرِ سوچ ہی کیوں رہی ہوں میں؟
شام ڈھل چکی تھی ۔۔۔۔۔ رات کی تاریکی ہر طرف پھیل چکی تھی۔ وہ امّی کے کمرے کی طرف چلدی۔۔۔۔۔ عجیب کنفیوزڈ سی۔۔۔۔ انسان کی بھی کتنی ہزار تہیں ہیں۔۔۔۔۔ اس نے سوچا ۔ کھانے پر اس نے ابّو سے کہا کہ کلیم کو پڑھانا شروع کردیں تو احمد حسین خاں اور نعیمہ بیگم دونوں ایک دوسرے کو تعجب سے دیکھنے لگے جیسے کہہ رہے ہوں ۔’’ عجیب لڑکی ہے‘‘۔
رات اسے نیند آئی بھی اور نہیں بھی۔ ایک طرف سکون تھا اور دوسری طرف عجیب سی الجھن ۔ یوں ہی صبح ہوگئی۔ صبح جو دائمی صحت مندی اپنے ساتھ لاتی ہے۔ ۔۔۔۔ کھڑکی میں کھڑے ہوکر تازی ہوا کو اپنے وجود میں اتارا۔ وضو کیا اور نماز کی نیت باندھ لی۔نماز کے بعد کافی دیر تک وہ ترجمۂ قرآن پڑھتی
رہی اس کے بعد ناشتے کے لئے بلاوا آگیا۔ ناشتہ سے واپسی پر وہ میز کی طرف بڑھی کہ کچھ لکھے۔ اسی وقت دروازے پر دستک ہوئی
۔جاری ہے۔۔۔