پاکستانی الیکشن تارکین وطن کی نظر میں

تحریر شازیہ عندلیب
آج پاکستان میں الیکشن ہو رہے ہیں پوری دنیا کی نظریں اسلامی مملکت پاکستان کے انتخابات پر لگی ہیں۔پاکستانی قوم خواہ وہ دنیا کے کسی بھی حصے میں آباد ہے ہر پاکستانی کسی نہ کسی وقت ملکی انتخابات کے بارے میں متجسس ہے۔خواہ وہ کام پر ہے چھٹیاں منا رہے ہیں یا سیر پر ہیں۔کسی نہ کسی ذریعے سے انتخابات کے نتائج کے بارے میں متجسس ہیں یا پھر ایک دوسرے سے پوچھ رہے ہیں کہ۔۔۔۔
کیا بنا الیکشن کا؟ آپ کس کے حامی ہیں؟ آپکے رشتے دار پاکستان میں کسے ووٹ دے رہے ہیں؟
یہی سب جاننے کے لیے چندافراد سے گفتگو کی جو پیش خدمت ہے۔شی شہر کی مسجد مسلم کلچرل سینٹرکی معلمہ شفقت نواز نے پاکستانی الیکشن کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے بتایا کہ موجودہ حالات میں پچھلی بر سر اقتدار حکومت کی بد اعمالیوں کی وجہ سے وہ اور انکے پاکستان میں رہنے والے عزیز مسلم لیگ کے بجائے تحریک انصاف کو ہی ووٹ دیں گے۔ اس لیے کہ اب جبکہ انکے اس قدر ذیادہ کرپشن کے کیسز اور ملک دشمنی کے ثبوت سامنے آ چکے ہیں کہ انہیں ووٹ دینا عقلمندی نہیں ہے۔جبکہ ان کے مقابلے میں عمران خان وزیر اعظم کے میرٹ پر پورا اترتے ہیں۔انکی آکسفورڈ کی تعلیم، کھیل اور تعلیمی میدان میں شاندار کارکردگی نے انہیں اور ہمارے وطن کو دنیا میں ایک امتیازی مقام دلایا ہے۔اس کے بعد انکا بڑا کارنامہ لاہور میں شوکت خان میموریل ہسپتال قائم کرنا اور اسکا انتظام نہائیت خوش اسلوبی سے چلانا اس بات کا بین ثبوت ہے کہ وہی وزیر اعظم کی سیٹ کے اہل ہیں۔نہ صرف یہ بلکہ انکا ایک ہسپتال پشاور میں بھی ہے اور ایک ہسپتال کراچی میں تکمیل کے آخری مراحل میں ہے۔اس کے علاوہ نمل یونیورسٹی کا قیام انکے کارناموں میں شامل ہے۔
جب معلمہ شفقت نواز سے پوچھا گیا کہ انکا تعلق دینی تعلیم و تدریس سے ہے تو انکا خاندان اسلامی جماعت کو کیوں نہیں سپورٹ کرتا۔اسکے جواب میں انہوں نے کہا کہ جماعت اسلامی اندرونی ملکی نظام تو کنٹرول کر سکتے ہیں اس میں کوئی شک نہیں ۔اس میں بھی بہت قابل لوگ ہیں جیسے مولانا خادم حسین رضوی جنکا تعلق لبیک یا رسول اللہ سے ہے۔وہ کافی لائق لیڈر ہیں۔مگر مسلہء یہ ہے کہ وہ بیرونی دنیا سے معاملات کا فہم نہیں رکھتے جیسا کہ عمران خان میں ہے۔کچھ لوگ عمران خان پہ الزام لگاتے ہیں وہ جھوٹ ہیں اور محض مخالفت ہے۔جب ایک اخباری نمائندے نے اسلامی جماعت کے لیڈر سے یہ پوچھا کہ اس وقت ملک بیرونی قرضوں میں جکڑا ہوا ہے تو ایسی صورتحال میں آپ کیسے ملک چلائیں گے؟
انہوں نے کہا کہ جب حضرت عمر نے ملک کا نظام سنبھالا تھا تو اس وقت بھی تو ملکی خزانے خالی تھے۔یہ تو انکی سیاسی بصیرت ہے۔دوسری جانب عمران خان ہے اسے یہی فکر رہتی ہے کہ ملکی قرضے کیسے واپس کیے جائیں ملک کو کیسے مزید قرضوں کی لعنت سے بچایا جائے۔
جبکہ مسلم لیگ کے حامی اس قدر کور مغز ہیں کہ جب ان سے اخباری نمائندوں نے پوچھا کہ کیا وہ مسلم لیگ کو ووٹ دیں گے تو ٹوٹی پھوٹی ،کیچڑ اور غلاظت سے بھری بجلی پانی کے بغیر گلیوں میں کھڑے لوگ یہ کہہ رہے تھے کہ جی
اگر مسلم لیگ کا کتا بھی آ جائے تو ہم ووٹ اسی کو دیں گے۔
یعنی کہ وفاداری اس قدر ہے کہ ملکی مفاد عزیز نہیں۔
جب یہ سوالات اسلامک کلچرل سینٹر کی معلمہ ساجدہ پروین سے کیے گئے انہوں نے کہا کہ ووٹ کی اصل حقدار اسلامک جماعت کتاب ہے۔اس کے لیڈروں کے نام کوئی کرپشن کوئی بد دیانتی نہیں یہ پچھلے چھ برسوں سے ملک میں اپنے فرائض دیانت داری سے سر انجام دے رہی ہے لیکن پھر بھی اسے آگے نہیں آنے دیا جا رہا بلکہ ایسی پارٹیوں کو کوریج دی جا رہی ہے جس کا کردار ہی اسلام کے منافی ہے۔ہماری تمام فیملی پاکستان میں اسی جماعت الکتاب کو ہی ووٹ دے گی۔پاکستان کے پچھلے الیکشنز میں ہماری فیملی کے کئی افراد پولنگ اسٹیشنوں پر تعینات تھے۔وہاں لالہ موسیٰ جیسے چھوٹے شہروں اور دیہاتوں میں حالات بہت وگرگو ہیں مقامی چوہدری وڈیرے اور زمیندار غریب لوگوں کو گھروں سے نکال کر زبردستی جبری طور پر اپنی مرضی کے ووٹ دلواتے ہیں۔انکی عورتیں اور مرد اس قدر غیر اخلاقی زبان استعمال کرتے ہیں۔لوگ وہاں محض نان قیمہ پر ووٹ کو بیچ ڈالتے ہیں۔
اس وقت اسمبلی میں ہمارے پاس پچیس فیصد سیٹیں ہیں۔امیدہے کہ اس مرتبہ بھی واضع اکثریت ہو گی ہماری جبکہ ہماری صوبہ سرحد کی اسمبلی ممبر عائشہ سیّد اس مرتبہ بھی اپنے حلقہ سے کھڑی ہوں گی ۔امیدہے کہ وہ واضع اکثریت سے سیٹ لینے میں کامیاب ہوں گی۔
جب ضیاالدین صاحب سے پوچھا گی اکہ آپ ووٹ کسے دیتے اگر پاکستان ہوتے تو انہوں نے کہا کہ
میں دیتا اسے ووٹ
جس کے دل میں نہ ہوتا کھوٹ
انہوں نے کہ اکہ وہاں تو ووٹ کی یہ حیثیت ہے کہ لوگ ووٹ کے بدلے اپنے موٹر سائیکلوں میں پٹرول بھروا رہے ہیں۔
معروف شاعرہ رابعہ روحی نے کہا کہ موجودہ سیاسی صورتحال میں تحریک انصاف کا پلڑہ ہی بھاری ہے۔اس لیے امیدہے کہ وزیر اعظم بننے کی عمران خان کی باری ہے۔۔
بہرحال یہ تو تھے چند خیالات ۔مزید افراد کے بیانات قارئین اردو فلک کی نذر کرتے رہیں گے۔

اپنا تبصرہ لکھیں