انٹر ویو شازیہ عندلیب
گذشتہ دنوں پاکستان کے بے باک لکھاری محترم ہارون الرشید ناروے تشریف لائے۔قارئین اردو فلک کی خدمت میں انکے ساتھ ایک خصوصی گفتگو حاضر خدمت ہے۔
تعارف
معروف اینکر اور کالم نگار محترم ہارون الرشید صاحب پچھلے انچاس سال سے صحافت کے شعبے سے وابستہ ہیں۔انہوں نے اپنے کیرئیر کے دوران رپورٹنگ خبریں، ایڈیٹوریل اور ایک کتاب لکھی۔آپکا آبائی گاؤں سرگودھاکے قریب تھا۔وہیں سے ہارون صاحب نے ایف اے کا ا متحان پاس کیا۔اس کے بعد انکا خاندان کچھ عرصہ رحیم یار خان میں رہنے کے بعد سن انیس سو انہتر میں لاہور منتقل ہو گیا۔اس کے بعد ہارون صاحب نے سن انیس سو ترانوے میں اسلام آباد میں جنگ اخبار میں کالم نگاری کی۔اخبار جنگ کے بعد ایک چھوٹے سے اخبار اساس اور پھر روزنامہ نوائے وقت میں لکھا۔ان اخبارات میں قلمی طبع آزمائی کے بعد ہارون صاحب نے روزنامہ ایکسپریس اور دنیا جیسے معروف اخبارات میں لکھا۔لکھنے کے ساتھ ساتھ انہوں نے دنیا ٹی وی چینل پر مختلف پروگراموں کی میزبانی بطور اینکر بھی کی۔اس کے علاوہ ان کے حلقہء احباب میں عمران خان اور سہیل وڑائچ جیسی اہم شخصیات شامل ہیں۔انہوں نے عمران خان کو سیاست میں سولہ برس تک سپورٹ کیا۔تاہم دوستی ابھی تک برقرار ہے۔
ہارون صاحب ایک کتاب کے مصنف بھی ہیں جو کہ انہوں نے افغان جنگ کے موضوع پر لکھی اور اس وقت اس کتاب کو سب ذیادہ پاکستان میں پڑھا گیا۔ آجکل ایک کتاب پر کام کر رہے ہیں۔اس کے علاوہ ہارون صاحب اس جمعہ سے شام سات بجے پاکستانی ٹائم کے مطابق دنیا ٹی وی چینل پر ایک نیا پروگرام شروع کر رہے ہیں۔اس پروگرام میں ان کے ساتھ سہیل وڑائچ اور میر صاحب بھی ہم نواء ہوں گے۔
ہارون الرشید کی تحریروں کی خصوصیات
ہارون صاحب کی تحریروں میں ایک بے باکانہ اور نڈر انداز بیاں نظر آتا ہے۔انہوں نے ذیادہ تر معاشرتی موضوعات سے لے کر عسکری موضوعات پر لکھا ہے۔اس کے علاوہ ہارون صاحب نے اپنی تحریروں اور کالموں میں مختلف فلاحی تنظیموں اور اداروں کی کارکردگی کو بھی سراہا ہے۔ان فلاحی اداروں میں پاکستان کے تعلیمی ادارے اخوت اور تعمیر ملت،فاؤنڈیشن،الغزالی فاؤنڈیشن اور سکون فاؤنڈیشن کی کارکردگی کو اپنی تحریروں کا موضوع بنایا ہے۔اس کے علاوہ کشمیر اور افغانستان کی مزاحمتی جنگ پر بھی لکھا۔
ہارون صاحب نے بتایا کہ ایک اچھے کالم کی خصوصیات یہ ہونی چاہیے کہ آپ کو زبان پر دسترس حاصل ہو اور تاریخ سے واقفیت ہو۔۔کالم نگار کو لوگوں کے رجحانات اور دلچسپیوں کو مد نظر رکھ کر لکھنا چاہیے۔ہمارے اٹھانوے فیصد عوام کامزاج اسلامی ہے۔زمانہ بدل گیا ہے لیکن اللہ اور اس کے رسول کا قانون نہیں بدلا ۔اسلام کے قوانین آج بھی وہی ہیں۔ہماری قوم کی تقدیر اسلام کے اصولوں سے جڑی ہوئی ہے۔لوگ مولویوں سے متنفر ضرور ہیں لیکن اسلام سے متنفر نہیں ہیں۔ہمیں چاہیے کہ ہم زندگی کو سمجھیں۔ میں جو کچھ محسوس کرتا ہوں اسے اپنی تحریروں کا موضوع بنا لیتا ہوں۔حضرت علی کے ایک قول کے مطابق ہمیں لوگوں کے رجحانات کو سمجھنا چاہیے۔
اردو فلک ڈاٹ نیٹ جناب ہارون الرشید کے انٹر ویو کے لیے سکون ویلفئیر فاءؤنڈیشن کے سربراہ جناب شاہد جمیل کے تعاون کے لیے شکر گزار ہے۔
UFN