پاکستانی نثراد نارویجن سماجی کارکن غزالہ نسیم سے گفتگو


تعارف
غزالہ نسیم کا تعلق پاکستان کے سرحدی صوبہ سے ہے ۔ ا و ر آبائی شہر پشاور ہے۔غزالہ شادی کے بعد پہلے ڈنمارک اور پھر ناروے میں آباد ہوئیں۔غزالہ پاکستانی کمیونٹی کی ایک متحرک سماجی کارکن ہیں۔وہ تین نوجوان بچوں کی ماں اور ایک پوتے کی دادی ہونے کے باوجود ابھی تک سٹوڈنٹ لائف گزار رہی ہیں۔غزالہ نے ابتدائی تعلیم پاکستان میں ایف اے تک حاصل کی اس کے بعد باقی تعلیم ناروے میں مکمل کی۔ یہں سے غزالہ نے ٹیچنگ میں بیچلر کی ڈگری حاصل کی اور آجکل مترجم کا کورس کر ہی ہیں۔ غزالہ کو پڑھنے کا شوق ورثہ میں ملا ہے۔

گفتگو
غزالہ نسیم نے اپنی سماجی مصروفیات کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ انہوں نے پاکستان اور ناروے میں پاکستانیوں کی بہبود کے لیے اینجیوز اور آرگنازیشنز بنائی ہیں۔ پاکستان میں انہوں نے حال ہی میں لاہور مین ایک اینجیو کی رجسٹریشن کروائی ہے۔ اس کا بنیادی مقصد نادار عورتوں اور بچیوں کو تعلیم دینا تھا لیکن ایک ایڈووکیٹ کے مشورے سے ایک مقصد کا اور بھی اضافی کر لیا۔ وہ مقصد تھا لاہور کی جیلوں میں قید بے گناہ عورتوں کے مقدمات کی پیروی کے لیے فنڈز دینا۔غزالہ نے بتایا کہ اس اینجیو کی رجسٹریشن میں تیس ہزار روپئے کا خرچہ آیا ہے اور اب وہ اس فلاحی کام کے لیے ذاتی کوشش سے فنڈز اکٹھے کریں گی۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ اگر ایک بے گناہ قیدی عورت اور بچے کو بھی رہا کروانے میں کامیاب ہو گئیں تو وہ اسے اپنے لیے خوشی کا باعث سمجھیں گی۔
اس سے پہلے غزالہ سیلاب زدگان کی امداد کے لیے تین لاکھ روپئے کے فنڈز اکٹھے کر کے پاکستان بھیج چکی ہیں۔یہ امدادی فنڈ نوشہرہ میں موجود انکی بہن خود متاثرین کو تقسیم کرتی رہیں تھیں۔وہ خود اپنے ہاتھوں سے لوگوں کو کیمپوں میں کھانا تقسیم کرتی تھیں۔ انکی بے لوث خدمت کو دیکھتے ہوئے پاکستان سے بھی کئی لوگ انہیں کھانا تقسیم کرنے کے لیے دیتے تھے۔ اس کے علاوہ ایک اور آرگنائیزیشن نے انہیں ڈیڑھ لاکھ روپیہ دیا جو انہوں نے لوگوں میں تقسیم کیا۔جب ان سے پوچھا گیا کہ آپ کی آرگنائیزیشن نے سیلاب زدگان کی آبادکاری کا جو پلان بنایا تھا کیا وہ کامیاب ہوا یا نہیں ، توانہوں نے بتایا کہ تاحال اطلاعات کے مطابق ابھی بیس جولائی کے بعد نو شہرہ میں پھر سیلاب متوقع ہے۔ وہاں کے شہریوں کو وارننگ دی جا چکی ہے تاکہ لوگ شہر کا انخلاء کر دیں۔ کچھ لوگ تو اپنے عزیز و اقارب کے پاس چلے جائیں گے لیکن سب لوگ نہیں جا سکتے اب ان کے لیے بندوبست ہونا چاہیے۔ اس کے لیے فنڈز چاہہیں۔اس کے علاوہ فلاحی کام کرنے کے لیے لوگ تیار نہیں ہوتے۔اس طرح اس سلسلے میں مالی اور افرادی قوت دونوں کے مسائل ہیں۔
نارویجن معاشرہ میں پاکستانیوں کے مسائل
ناروے میں بسنے والے پاکستانیوں کے مسائل کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے غزالہ نے بتایا کہ یہاں پاکستانیوں کو کئی مسائل کا سامنا ہے۔ ان میں سے اہم مسائل،بچوں کی شادیاں،صحت، امیگریشن اورروزگار حاصل کرنا ہے۔ جبکہ نوجوانوں کو عام طور سے روزگار حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ صحیح تعلیمی مضامین کا چنائو کرنے کابھی مسلہء ہوتاہے۔ ان مشکلات کے پیش نظر پاکستانیوں کی رہنمائی کے لیے ہماری آرگنائیزیشن کام کر رہی ہے۔ ہم اپنی آرگنائیزیشن کے ممبران پاکستانیوں کی صحیح سمت میں رہنمائی کرتے ہیں۔ اکثر لوگوں کو یہ پتہ نہیں ہوتا کہ وہ اپنے مسئلے کے حل کے لیے کس محکمہ سے کب اور کیسے رجوع کریں۔اس میں ایک مسلہء زبان کا بھی ہے۔ نارویجن زبان پر عبور نہ ہونے کی وجہ سے پاکستانیوں کو ذیادہ مسائل کا سامنا ہے۔

بچوں کی دیکھ بھال کا ادارہ
ہم پاکستانیوںکا دوسرا بڑا مسلہء ہے نامناسب تربیت پانے والے بچوں کی دیکھ بھال کا مسلہئ۔یہ بات ہم پاکستانیوں کے لیے انتہائی دکھ اور شرمندگی کا باعث ہے کہ ان بچوں کی دیکھ بھال کے لیے کوئی پاکستانی فیملی آگے نہیں بڑھتی۔ ایسے بچوں کی تعداد شرمناک حد تک ذیادہ ہے۔ ایک جائزے کے مطابق دو برس پہلے تک ناروے میں بچوں کی دیکھ بھال کے ادارے میں لائے جانے والے بچوں میں پاکستانی بچوں کی تعداد سب سے ذیادہ ہے۔ان اداروں میں لائے جانے والیے ٧٠ فیصد بچے پاکستانی ہوتے ہیں۔ یہ وہ بچے ہوتے ہیں جنہیںجن کی والدین صحیح دیکھ بھال نہیں کرتے۔ اسکولوں میں گندے کپڑے پہنا کر بھیج دیتے ہیں۔ انکی پڑھائی ،صفائی اور صحت کا کوئی خیال نہیں رکھا جاتا۔نہ ہی انہیں تفریح کروائی جاتی ہے نہ ان کے پاس کھیلنے کے کھلونے یا دوسرے مواقع ہوتے ہیں۔ایسی ناگفتہ بہ حالت والے بچوں کی رپورٹ اسکو ل کا عملہ ،بچوں کے دیکھ بھال کے ادارے کو دیتا ہے۔ یہ ادارہ ایسے بچوں کو اپنی تحویل میں لے لیتا ہے۔ پھر یہ بچے ایسے جوڑوں کو دے دیے جاتے ہیں جو کوئی لے پالک بچہ لینے کی خواہش رکھتے ہیں۔ یہ والدین ان بچوں کا ہر طرح سے خیال رکھتے ہیں۔ یہ والدین تربیت یافتہ ہوتے ہیں۔ انہیں اس بات کے کورس کروائے جاتے ہیں کہ لے پالک بچوں کی دیکھ بھال کیسے کی جائے۔بچے ان کے پاس خوش رہتے ہیں۔حکومت اس بات کا خیال رکھتی ہے کہ بچے ان منہ بولے والدین کے پاس خوش رہیں۔یہ ادارہ بچوں کو انکے اصل والدین سے ملوانے کا اہتمام بھی کرتا ہے۔ لیکن اپنا بچہ اس ادارے سے اٹھارہ برس سے پہلے لینا ناممکن ہے۔بعض پاکستانی والدین یہ اعتراض کرتے ہیں کہ ان کے بچے غیر مسلموں کے پاس پل رہے ہیں۔لیکن کئی پاکستانی جوڑے بے اولاد ہونے کے باجود بھی ایسے بچوں کی دیکھ بھال پر آمادہ نہیں ہوتے۔جب کہ حکومت ان بچوں کی دیکھ بھال کے لیے رقم بھی دیتی ہے والدین کو۔
پاکستانی بچوںِ کی خراب تربیت کی وجوہات بتاتے انہوں نے کہا کہ اکثر بچوں کے والدین جھگڑتے ہیں حکومت کی تحویل میں جانے والے بچے صرف علیحدگی والے والدین کے ہی نہیں بلکہ جھگڑالو والدین کے بھی ہوتے ہیں۔وہ آپس کی لڑائیوں میں بچوں کو نظر انداز کر کے ان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ اس لیے صرف بچوں کو پیدا کرنا ہی کافی نہیں اچھی تربیت بھی ضروری ہے۔ ہم پاکستانیوں میں غصہ اس قدر ذیادہ ہے کہ وہ اپنے ساتھ ساتھ بچوں کی زندگیاں بھی برباد کر لیتے ہیں۔ بے شک یہاں کی حکومت بچوں کے والدین کو سولہ برس تک انکا جیب خرچ بھی دیتی ہے مگر انکا خیال بھی رکھتی ہے۔
یہ بچے اس لیے اس ادارہ کی تحویل میں چلے جاتے ہیںکہ گھر تنگ ہوتے ہیںدوسرے پاکستانیوں کو پیسہ کمانے کا بہت شوق ہے مگر اپنے بچوں پر خرچ نہیں کرتے بلکہ اپنے پیچھے بھیجتے رہتے ہیں۔ یہاں تنگ گھروں میں رہتے ہیں مگر پاکستان میں بڑے بڑے محلات نماء بنگلے اور حویلیاںبنا لیتے ہیں۔ میں یہ مسلہء کئی مرتبہ اٹھا چکی ہوں لیکن کوئی پاکستانی آگے نہیں بڑھا۔صرف ایک پاکستانی نارویجن سیاستدان اختر چوھدری نے اس معاملہ میں دلچسپی ظاہر کی ہے۔
پاکستانیوں کا تیسرا بڑا مسلہ
تیسرا بڑا مسلہء یہ ہے کہ کوئی پاکستانی فلاحی کام کرنے کے لیے تیار ہی نہیں ہوتا۔ ہماری قوم میں کوئی فلاحی کام کرنے کا رواج ہی نہیں ہے۔ جبکہ نارویجن قوم فلاحی کاموں میں سب سے آگے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ قوم آج ترقی یافتہ قوم کہلاتی ہے۔پاکستانی سماجی کاموں کو فضول کام اور وقت کا ضیاع سمجھتے ہیں۔پاکستانی خواتین سماجی کاموں میں بہت کم نظر آتی ہیں۔لیکن میلوں ٹھیلوں تقریبات اور دوسری تفریحات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی ہیں۔سماجی کام کرنے کی پاکستانی آرگنائیزیشنز تو ہیں مگر کام برائے نام ہیں۔
ہمارا ایک پاکستان پائلٹ پروگرام تین سال تک چلا ۔ اسکا مقصد پاکستان میں ہسپتالوں اور اسکولوں کو چلانا تھا۔یہ پراجیکٹ (Norad)نوراد کے تحت چلا۔ اسکی کامیابی کو دیکھتے ہوئے ہمیں اور فنڈز ملے۔
اب میں پاکستان ڈویلپمنٹ نیٹ ورک کی تنظیم میں کام کر رہی ہوں۔غزالہ انٹر کلچرل وومن گروپ کی پریزیڈنٹ ہیں جبکہ پاکستان ڈویلپمنٹ بورڈ کی ممبر ہیں۔۔ جب کہ میری معاون رائنا اسلم ہیں۔رائنا اس آرگنائزیشن میں وائس پریذیڈنٹ ہیں۔ ہمارا کام دوسری آرگنائزیشنز کی صحیح خطوط پر رہنمائی ہے۔ ابھی تک ہمارے پاس ناروے کی بارہ آرگنائیزیشنز رجسٹرڈ ہو چکی ہیں۔ہماری پہلے والی آرگنائیزیشن کو اچھی کاردگی کی بناء پر نارویجن حکومت نے ہمیں مزید فنڈز دیے۔نئے پراجکٹ کا نام اسمائل(Smile) ہے۔یہ پراجیکٹ پاکستان کے چھوٹے شہروں کی صفائی کے لیے تھا۔ اس کے لیے کھاریاں ڈسٹرکٹ کو منتخب کیا گیا۔ بجٹ منظور ہو گیا ۔ اب پروجیکٹ تیار ہے کہ صفائی کی مشینری خرید کر اس سے شہر کی فضاء کو حفظان صحت کے اصولوں کے مطابق بنائیں۔مگر کوئی پاکستانی والنٹیر اپنے ہی ملک کی فلاح کے لیے آگے نہیں بڑھ رہا۔اس وجہ سے یہ پراجیکٹ التواء کا شکار ہے۔یہ صورتحال بہت افسوسناک ہے۔ نارویجن حکومت کا کہنا ہے کہ اب ہم ہی آپ کے ملک کی سفائی کے لیے پیسہ دیں اور کیا یہاں سے نارویجن لوگوں بھی بھیجیں تاکہ یہ لوگ آپکا کوڑا صاف کریں؟؟؟؟مگر کوئی پاکستانی اپنے ہی ملک کی گندگی صاف کرنے کے لیے آگے نہیں بڑھ رہا۔

پاکستانی کمیونٹی کے نام پیغام
ہماری کمیونٹی کے بیرون ملک اور بالخصوص ناروے میں مسائل بہت ہیں۔ یہ مسائل ہم نے خود ہی حل کرنے ہیں۔ہمارے مسائل کسی اور نے نہیں حل کرنے۔میرا سوال اپنے مولوی حضرات سے اور اسلام پھیلانے والوں سے ہے کہ کچھ توجہ پاکستانی بچوں کی طرف بھی دیں۔یہ بچے جو کہ غیر مسلموں کے ہاتھوں میں پل رہے ہیں اپنا کلچر اپنی زبان اور اپنی پہچان کھو رہے ہیں۔ ان بچوں کے والدین کو یا تو سمجھائیں کہ بچے کیسے پلتے ہیں یا پھر مسلمان گھرانوںکو تیار کریں کہ وہ ایسے بچوں کی دیکھ بھال کی ذمہ داری لیں۔

نوٹ،
غزالہ نسیم اردو فلک ڈاٹ کام پر ناروے میں بسنے ولاے پاکستانیوں کو تعلیمی اور امیگریشن سے متعلق مسائل کی رہنمائی کے لیے تیار ہو گئی ہیں۔اپنے مسائل اس میل ایڈرس پر بھیجیں۔

fatimafalak@rocketmail.com

3 تبصرے ”پاکستانی نثراد نارویجن سماجی کارکن غزالہ نسیم سے گفتگو

  1. Asalaamoalikum… before presenting my views about the above interview i would like to congratulate you for making such a successful effort to promote Urdu language in Norway. I found reading the interview very interesting. You have highlighted major issues our Norwegian based Pakistani community is facing at the moment. Its our duty to identify and rectify these discrepancies. People like Ghazala Naseem mark an example for us to stand up and make efforts to eradicate or at least lessen the affects of problems existing in this society. You make all pakistanis living outside of their countries very proud. Keep up the great work our support will always lie with you.

    1. ASSalamoeleikum Rabia,Thanks for visiting and appreciating Urdufalak. Its our pleasure to have such readers who can percieve the messages of our wriritings.We will try to improve the site in the light of your precius suggestions .Keep visiting our site in future .
      Thanks for your valueable response

اپنا تبصرہ لکھیں