ڈاکٹر سلیم خان
ہندوستان کی عوام کو پاکستانی سیاست کی بہ نسبت کرکٹ میں دلچسپی زیادہ ہے اس لئے گفتگو کا آغاز کرکٹ سے کرنے کے بعد ضروری معلوم ہوتا ہے کہ موجودہ سیاسی بحران کا گہرا اور معروضی جائزہ لیا جائے۔ یہ عمران خان اور نواز شریف یا علامہ طاہر القادری اور شہباز شریف کے درمیان بپا ہونے والا معمولی تنازع نہیں ہے بلکہ اس نے مقننہ، عدلیہ اور فوج تینوں کو ملوث کرنے کی کوشش کی ہے۔ مقننہ میں بھی یہ صرف مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف پارٹی تک یہ محدود نہیں رہا بلکہ پاکستان پیوپلس پارٹی اور جماعت اسلامی بھی اس کی لپیٹ میں آگئے۔ یہ سیاسی سیلاب اپنے اندر دریائے چناب میں آنے والی طغیانی سے زیادہ بھیانک اور دوررس تباہی کے امکانات رکھتا ہے۔ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس میں ملوث ہر فریق کا فرداً فرداً جائزہ لیا جائے۔
پاکستان مسلم لیگ(ن): نواز شریف اوران کے بھائی شہباز شریف پر لگائے جانے والے اقربا ءپروری کے الزامات سے انکار ناممکن ہے۔ بدعنوانی اور دھاندلی کے الزامات سے بھی انہیں بری الزمہّ قرار نہیں دیا جاسکتا۔ ماڈل ٹاؤن کی فائرنگ کا معاملہ شہباز شریف کے ماتھے پر بدنما کلنک سے کم نہیں ہے لیکن ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس طرح کےمظاہروں اور مطالبوں سےمذکورہ مسائل کا حل ممکن ہے ؟کہیں یہ دوا بیماری سے زیادہ نقصان دہ تو نہیں ؟ بدقسمتی سے پاکستان کی سیاسی تاریخ کی روشنی میں اس سوال کا جواب حوصلہ افزا نہیں ہے۔ اس لئے کہ سیاسی بحران کا فائدہ اٹھاکر فوج ملک و قوم کوزیادہ نقصان پہنچاتی ہے۔
لوگ بجا طور پریہ سوال کرتے ہیں کہ آصف زرداری کے دورِ حکومت میں اس طرح کا بحران کیوں نہیں پیدا ہوا ؟ نواز شریف اس کو وجود میں آنے سے کیوں روک نہ سکے؟ ان سوالات کا ایک جواب تو یہ ہے کہ آصف زرداری نے مکمل طور پر امریکی انتظامیہ کے آگے ہتھیار ڈال رکھے تھے ۔ اس لئے امریکہ کو انہیں ہٹانے میں کوئی دلچسپی نہیں تھی لیکن نواز شریف صد فیصد نہ سہی مگر کسی نہ کسی حد تک اپنی منفرد سوچ رکھتے ہیں اور اس پر عمل کرنے کی کوشش کرتےہیں۔ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ امریکی انتظامیہ کے نزدیک وہ دوسروں کی بہ نسبت ناقابلِ اعتماد اور کم پسندیدہ رہے ہیں۔
نواز شریف کو پڑوسی ممالک خاص طور پر ہندوستان کے ساتھ بہتر تعلقات استوار کرنے میں خصوصی دلچسپی ہے اس لئے کہ اس میں پاکستان کا بالواسطہ اور بلا واسطہ فائدہ ہے۔ اگر ان ہم سایہ ممالک کے تعلقات بہتر ہو جائیں تو دفاعی امورکے اخراجات میں کمی ممکن ہے اور خزانے کا بڑا حصہ عوام کی فلاح بہبود میں استعمال ہو سکتا ہے۔ ہندوستان ایک بہت بڑی تجارتی منڈی ہے جس میں پاکستانی تاجر اپنی مصنوعات اچھے داموں پر باآسانی فروخت کرسکتے ہیں اور دور دراز کے ممالک سے سامان برآمد کرنے کے بجائے ہندوستان کے بازار سے استفادہ بہتر ہے ۔ اس سے دونوں ممالک کے تاجر اور صارفین کا فائدہ ہے لیکن یہ دونوں باتیں امریکہ کیلئے نقصان دہ ہیں ۔ اس کے سبب اس کے اسلحہ کی کھپت، اس کو ادھار بیچ کر اپنے رسوخ میں اضافہ کے امکانات کم ہو جاتے ہیں ۔ پاکستانی صنعت کا مال اگر ہندوستان میں بکنے لگے تو وہ یوروپ اور امریکہ کو بہترداموں پر اپنا مال فروخت کرسکتے ہیں ۔
نواز شریف نے اس بابت شعوری کوششیں کی ہیں۔ انہوں نے اپنی حلف برداری میں منموہن سنگھ کو شرکت کی دعوت دی اور خود مودی کی حلف برداری میں شریک ہوئے ۔یہ دراصل خیرسگالی کا ایک علامتی اظہار تھا۔ جب تک امریکہ افغانستان میں الجھا ہوا تھا اسے پاکستان میں امن و سلامتی درکار تھی لیکن وہاں سے نکل جانے کے بعد یہ ضرورت ختم ہو جائیگی۔ جنوب ایشیا میں اپنا اثرو رسوخ برقرار رکھنے کیلئے امریکہ کیلئے ان دونوں ہمسایہ ممالک کے درمیان کشیدگی مفید تر ہے ۔ اس کے رہتے وہ دونوں کو اسلحہ فروخت کرکے اپنے وارے نیارےکرسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ساری دنیا کے اسلحہ فروش نواز شریف کے دشمن بنے ہوئے ہیں۔
اس آزمائش کے دوران نواز شریف کا سب سے بڑا ہتھیار ضبط وتحمل تھا۔ یہ تحریک پنجاب میں چل رہی تھی ۔یہ علاقہ ان کے حامیوں سے اٹا پرا ہے۔ ان کے پاس مرکزی اور صوبائی اقتدار ہے اس کے باوجود لاہور سے اسلام آباد مارچ کے دوران کوئی رکاوٹ نہیں پیدا کی گئی۔ اسلام آباد آنے کے بعد مظاہرین کے پیر بتدریج پھیلتے چلے گئے۔ پہلے تو وہ ڈی چوک تک آئے پھر شاہراہِ دستور میں داخل ہوئے اس کے بعد ایوان پارلیمان کے سامنے جا بیٹھے ۔ جب وہاں بھی بات نہ بنی تو وزیراعظم کے گھر پر چڑھائی کردی۔گویا طاقت کے استعمال پر اکسانے والا آخری حربہ بھی استعمال کرلیا گیا لیکن کامیابی ہاتھ نہ آئی اس لئےکہ نواز جانتے اس میدان میں ہار تو کجا جیت بھی ہار ہے۔ وہ عوام کو کچل کر ان کے حقوق کی علمبرداری کا دم نہیں بھر سکتے۔ نواز شریف نے ایک عقلمند کھلاڑی کی مانند مخالف کے پالے میں سڑک پر اترنے کے بجائے ایوان پارلیمان کا اجلاس بلا کر ترپ کا پتہ ڈالا اور بازی جیت لی۔
پاکستان پیوپلس پارٹی: ایوان پارلیمان میں سب سے بڑی حزب اختلاف ہونے کے سبب پی پی پی کا مسلم لیگ کے خلاف ہونا فطری امر ہے۔ اس طرح بلاواسطہ عمران خان کو اس کی حمایت کا حقدار ہوجانا چاہئے لیکن ایسا نہیں ہوا۔ یہ وہی بالغ نظری ہے جس کا مظاہرہ ۶ سال قبل نواز شریف نے کیا تھا۔ گزشتہ مرتبہ جب پی پی پی اکثریت سے محروم رہ گئی تو اس کی سب سے زیادہ خوشی پرویز مشرف کی حمایت یافتہ مسلم لیگ(ق) کو ہوئی۔ انہیں یقین تھا کہ پی پی پی حکومت سازی کیلئے ان کے آگے جھولی پسارے گی اور وہ اس نئی حکومت کو چور دروازے سے یرغمال بنا لیں گے۔اگر یہ نہ ہوا تو مسلم لیگ (ن) اقتدار کے لالچ میں ان کے دام میں پھنس جائیگی لیکن ان تمام قیاس آرائیوں پر پانی پھیرتے ہوئے نواز شریف نے آصف زرداری کی جانب اپنا تعاون کا ہاتھ بڑھا دیا ۔
انتخابی سیاست کی تاریخ میں یہ منفرد واقعہ تھا جس میں ایک اور دو نمبر کی جماعتیں ایک ساتھ ہو گئی تھیں ورنہ عام طور سے یہ ہوتا ہے کہ پہلی کے ساتھ تیسرے نمبر والی جماعت ہوتی ہے یا دوسرے اور تیسرے نمبر کی جماعتیں یکجا ہو کراول آنے والی جماعت کو ٹھکانے لگا دیتے ہیں۔ نواز شریف نے جس طرح اپنے سیاسی مفاد سے اٹھ کر اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کیا تھا اس بار پی پی پی نے اس کو نہایت حسن و خوبی کے ساتھ لوٹا دیا۔ پی پی پی نے اس قومی بحران سے سیاسی فائدہ اٹھانے کے بجائے دونوں متحارب گروہوں کے درمیان مفاہمت کرانے کوشش کی ۔ پاکستان پیوپلس پارٹی کا یہ موقف یقینا ً قابلِ تحسین ہے جس کی قدردانی ہونی چاہئے۔
جماعت اسلامی (پاکستان): اس سیاسی بحران نے جماعت اسلامی پاکستان کونہایت نازک پوزیشن میں پہنچا دیا اس لئے کہ جماعت صوبہ پخونخواہ میں تحریک انصاف کی حلیف ہے اس لئے سیاسی مفاد کا تقاضہ تو یہ تھا کہ اقتدار کی خاطر عمران خان کے ہر بیجا مطالبے کی بھرپور حمایت کی جاتی لیکن یہ رویہ قومی مفاد سے متصادم تھا اس لئے جماعت نے اپنے سیاسی تحفطات کو بالائے طاق رکھ کر ایک اصولی موقف اختیار کیا۔ ابن الوقتی کی انتخابی سیاست یہ نہایت مشکل مرحلہ ہوتا ہے ۔ اس موقع پر جس سیاسی بالغ نظری کا مظاہرہ امیر جماعت نے کیا وہ ان کی پر اعتمادقیادت وحسنِ تدبر کا ثبوت ہے ۔ جماعت کیلئے یہ بھی بہت آسان تھا کہ وہ عمران خان پر تنقید کرکے ایک جانب ہو جاتی اور اپنے آپ کو جمہوریت نوازپارسا ثابت کرنے کوشش کرتی لیکن جماعت نے اعتدال کا راستہ اختیار کیا۔
امیر جماعت کو غالباً اندازہ ہو گیا تھا کہ انہیں آگے چل کر ثالثی کی ذمہ داری ادا کرنی پڑے گی ایسے میں لازم تھا کہ ان کا جھکاؤ کسی ایک فریق کی جانب نہیں بلکہ متوازن ہو۔ انہوں نے ببانگ دہل یہ اعلان کیا کہ ہم نہیں چاہتے کہ مظاہرین خالی ہاتھ واپس جائیں اور یہ بھی نہیں چاہتے کہ کوئی دستوری بحران پیدا ہو یا غیر دستوری مطالبہ پورا ہو۔ اس عادلانہ مفاہمت نے انہیں دونوں فریقوں کا اعتماد حاصل کرنے میں مدد کی اور ایک درمیان کی راہ نکالنے میں کامیاب ہوئے۔اس کام کو آگے بڑھانے کیلئے انہوں نے آصف زرداری سے بھی ملاقات کی اور قومی مفاہمت کی ایک سازگار فضا تیار کرنے میں کامیاب ہوئے۔
تحریک انصاف پارٹی: اس بحران کے دوران عمران خان سب سے زیادہ ذرائع ابلاغ میں نظر آئے لیکن ان کی شبیہ دن بدن بگڑتی چلی گئی ۔ پاکستان کی دونوں بڑی سیاسی جماعتیں بدقسمتی سے موروثیت کے موذی مرض کا شکار ہیں لیکن عمران خان کی جماعت اس سے محفوظ ہے ۔ نوجوان طبقہ میں عمران خان کی مقبولیت بہت زیادہ ہے اور وہ امید کے ساتھ ان کی جانب دیکھتے ہیں ۔ مستقبلِ قریب میں اگر کسی رہنما سے یہ امید کی جاسکتی ہے کہ وہ شریف اور بھٹو خاندان کے چنگل سے پاکستان کو نکال سکے گا تو وہ عمران خان کے علاوہ کوئی اور نہیں ہے ۔عمران کو صوبہ پختونخواہ سے باہر بقیہ تین صوبوں میں اپنا سیاسی اثر و رسوخ بڑھانا ہے اور اس کام کیلئے چار سال کی مدت بہت زیادہ نہیں ہے ۔ اگر عمران خان سنجیدگی کے ساتھ اس کام کو کر پائے تو انہیں اقتدار میں آنے سے کوئی نہیں روک سکتا لیکن عمران کو یاد رکھنا ہوگا کہ اس معاملے میں جلد بازی اور ہنگامہ آرائی سمِ قاتل ہے ۔
عمران کا علاقہ افغانستان سے متصل ہونے کے سبب کافی اہم ہے ۔ اس علاقہ کے لوگ مختلف سمتوں سے ظلم و جبر کا شکار رہے ہیں ایسے میں ان کے اندر غم و غصہ کا پایا جانا اور اس کا اظہار ہونا فطری ہے ۔ عمران کیلئے ضروری ہے کہ ان کا اعتماد حاصل کرے ان کو تخریب کی راہ سے نکال کر تعمیر کی راستے پر گامزن کرے ۔ اگر ایسا ہوگیا تو یہ نہ صرف پاکستان بلکہ امن عالم کیلئے ایک سنگ میل ہوگا۔ عمران کو چاہئے کہ وقتی تماشوں پر اپنا وقت اور توانائی صرف کرنے کے بجائے اس موقع کا بھرپور استعمال کرے اور اپنی خدادا د صلاحیت کا لوہا منوالے لیکن اس راہ کی سب سے بڑی رکاوٹ امریکی مفادات ہیں ۔ امریکہ کی آنکھوں کا سب بڑا کانٹا عمران خان ہے اور وہ ضرور چاہے گا کہ عمران پاکستانی سیاست میں بے وزن ہو جائےاس لئے اسے امریکی مفادات کے محافظین سے ہوشیار و خبرداررہنا ہوگا اور ان جھانسے میں آنے سے اپنے آپ کو بچانا ہوگا۔
تحریک انقلاب کے رہنما علامہ طاہر القادری پر ڈاکٹر عاصم واسطی کایہ شعر معمولی ترمیم کے ساتھ صادق آتا ہے ؎
قادری گلدستہ تیرے ہاتھ میں خوش رنگ ہے آستیں سے بھی ذرااب قیمتی خنجر نکال
ڈاکٹرقادری کی مسئلہ یہ ہے کہ جس قیمتی خنجر کا استعمال ان کے پیشِ نظر ہے وہ فی الحال فوج کی آستین میں ہے اور خوش قسمتی سے فوجی سربراہ راحیل شریف واقعی شریف آدمی ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ اس خنجر کا استعمال دوستوں پر نہیں بلکہ دشمن پر ہونا چاہئے ۔ ویسے راحیل شریف کے سامنے پرویز مشرف بھی نشانِ عبرت بنا ہوا ہے جو خودپاکستان میں راندۂ درگاہ ہے ۔ اس کے اوپر قوم سے غداری کے سنگین مقدمات ہیں ۔ کمانڈر چیٖف جانتے ہیں عالمی طاقتیں فوجی آمر کا استعمال ٹشو پیپر کی طرح کرتی ہے ۔ہاتھ پوچھنے کے بعد جب وہ بھیگ کر نرم ہو جاتا ہے تو اسے کوڑے دان میں ڈال دیا جاتا ہے۔ راحیل شریف نے اپنے آپ کو اس عبرت ناک انجام سے بچا کر غیر معمولی دانشمندی کا ثبوت دیا ہے اور اس کیلئے وہ قابلِ مبارکباد ہیں ۔ عمران خان اور طاہر القادری نے گوناگوں وجوہات کی بناء پر فوج کے بجائے عدالت عالیہ کے سامنے گہار لگائی لیکن عدالت کو پتہ تھا کہ اس کا کام دستور کو پامال کرنا نہیں بلکہ اس کو نافذ کرنا ہے لیکن اس بار اس کے تحفظ کی ذمہ داری عدالت نے بخیر و خوبی ادا کی ۔
علامہ طاہر القادی کے علم و فضل سے کوئی انکار نہیں کرسکتا اپنے ہم عمر علماء میں وہ ایک ممتاز مقام رکھتے ہیں ۔ ان کے ہمنواؤں نے ہر گرم و سرد میں ان کا ساتھ دے کر یہ ثابت کردیا کہ وہ عوام کے ایک طبقہ میں خاصے مقبول ہیں اور اگر وہ پاکستان کی سیاست میں کوئی مثبت اور اہم کردار ادا کرنا چاہتے ہیں تو ان کا استقبال کیا جانا چاہئے ۔لیکن اس کیلئے طاہر صاحب کو سب سے پہلے تو اپنے غیر ملکی پاسپورٹ کودریا برد کرناہوگا ۔ اس لئے کہ ایک ساتھ دو کشتیوں کے اندر سواری کی کوشش کا انجام اچھا نہیں ہوتا۔ اس کے بعد سیاسی سمجھ بوجھ کے ساتھ جستہ جستہ آگے بڑھنا ہوگا ۔ جو سیاسی انقلاب ان کے پیش نظر ہے وہ صرف مظاہروں اور تقریروں سے برپا نہیں ہوگا۔
میدانِ سیاست میں کا میابی حاصل کرنے کیلئے سیاست کے اسرار و رموز سے واقفیت کے ساتھ ساتھ سلیقہ مندی سے بہرو ور ہونا ضروری ہے۔ محض عقائد ودعوت پرعلم و تحقیق او رخطابت کی مہارت کافی نہیں ہے۔ اسی طرح ان کو پرویز مشرف سے فاصلہ بنا کر اپنے آپ کو اس کا آلۂ کار بنانے سے بچانا ہوگا ورنہ علم و فضل کی بدولت جو اعلیٰ مقام انہوں نے حاصل کیا ہے وہ بھی داغدار ہوجائیگا۔ ڈاکٹر طاہر القادری کا اعلان کہ مظاہرین عیدا لاضحیٰ اپنے گھروں پر منائیں گے اور عمران خان کی جانب سے ۱۳ ستمبر کو ’ون نیشن ‘ ڈے کا اعلان اس بات کی جانب اشارہ کرتے ہیں کہ سیاسی طوفان کا پانی بھی دریائے چناب کی مانند اتر رہا ہے لیکن اس طغیانی نے جو تباہی مچائی ہے اس کی بھرپائی میں خاصہ وقت لگے گا۔