پاکستان ایک ایٹمی طاقت
تحریر عابدہ رحمان
شکاگو
abida may 28th ,2013
28 مئی 1998 کا دن پاکستانی قوم کی زندگی میں بہت اھمئیت کا حامل ہے کیونکہ آج پاکستان نے ایک طویل جد و جھد اور قربانیوں کے بعد اپنے آپ کو ایٹمی طاقت کے طور پر دنیا سے منوالیا -اس دھماکے کے بعد جھاں پاکستا نیوں کا سر فخر سے بلند ہوا وہاں انکو مزید بندشوں اور قربانیوں کا سامنا کرنا پڑا پاکستان پہلا اسلامی ملک ہے جو ایٹمی قوت بن سکا ہے اس سے پہلے عراق نے کوشش کی تھی لیکن اسکا ایٹمی ری ایکٹر اسرائیل نے فضا ئی حملہ کرکے منٹوں میں تباہ کردیا- اس دہماکےاور ایٹمی طاقت بننے کا یہ نتیجہ ہوا کہ ہمارے دائمی حریف بھارت کی جارحئیت میں کچھ کمی آگئی ہےاور اب وہ ہم سے دوستی کا خواہاں ہے -کیونکہ اگر مد مقابل برابر کا ہو تو ہوش ٹھکانے رھتے ہیں-حالانکہ باقی دراندازیان اور چالیں جاری ہیں-
ایران اس صف میں شامل ہونے کی کوشش میں ہے دیکھتے ہیں کہ وہ کس حد تک کامیاب ہوتا ہے-آیٹمی طاقت ہونا جہاں ایک ملک اور قوم کی طاقت اور مضبوطی کی علامت ہے وہاں اس کرہ ارض، ہماری دنیا اور انسانیئت کی تباھی و بربادی کے لئے ایک مہلک ترین ہتھیارہے- شائد کرہ ارض پر قیامت اسی ایٹمی تباہ کاری کے نتیجے میں آئے اور پورے کرہ ارض کو نیست و نابود کر کے رکھ دے- انسان نے اپنے ہاتھوں اپنی تباہی کا سامان کر رکھاہے -اب ہمارا ایمان تو یہ ہے کہ اسرافیل صور لئے ہوئے تیار کھڑا ہے اور نمعلوم کب نفخالاولیٰ کا وقت آجائے-اور اسکے بعد ہی محشر بپا ہو-
چند برس پہلے امریکی ریاست نیو میکسیکومیں البقرقی کے مقام پر کرک لینڈ ایرفورس بیس میں ایٹمی عجائب گھر دیکھنے کا اتفاق ہوا-یھاں ان ایٹم بموں کے ماڈل دیکھے جو ہیرو شیما اور ناگاساکی پر گرائے گئے تھے-ہیروشیما پر گرائے گئے ایٹم بم سے متعلق ایک فلم بھی دیکھی ” وہ دس سیکنڈ جس نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا”
پولینڈ کی مادام کیوری وہ پھلی سائنسدان تھی جنہوں نے ریڈئم کو سرطان کے علاج کے لئے استعمال کیا -انکے بعد انکی بیٹی بھی اس شعبے میں آیئں اس پر مزید تحقیق ہوتی رہی- دوسری جنگ عظیم کے دوران یورینئم کی افزودگی پر کام ہوتا رہا -یورو پیئن اور جرمن سائنسدان ہٹلر اور مسولینی سے عاجز آکر امریکہ روانہ ہوگئے، ان میں مشہور سائنسدان البرٹ آئین سٹائن شامل تھے یوں 1938 اور 39 میں امریکہ سائنسدانوں کا مرکز بن گیا-البرٹ آئن سٹائن پھلے تو حکومت امریکہ کے لئے ایٹمی تحقیق کرنے سے انکار کیا- اسکے نتیجے میں امریکی صدر روزویلٹ نے انہیں قید کیا، بعد ازاں وہ راضی ہوئے اور یون تحقیقی کام شروع ہوا- انکے ساتھ کولمبیا یونیورسٹی کے نوبل یافتہ کیمیا دان اور مشہور سائنسدان شامل تھے – ان پناہ گزیں سائنسدانوں کے اشتراک سے میں ہٹن پروجیکٹ کا آغاز ہوا-
–
16 جولائی 1945 کو امریکہ نے لاس الاموس ، نیو میکسیکو میں پہلا ایٹمی دھماکہ ٹرینیٹی کے نام سے کیاجب تجرباتی طور پر پھلی دفع ایٹم بم کا دہماکہ ہواتو بے انتہا خوشیاں منائی گئیں-اسطرح دنیا ایک نئے ایٹمی عھد سے روشناس ہوئی اور امریکہ کو دنیا میں بالادستی حاصل ہوئی-
اس دہماکے کے بعد امریکہ نے اپنے پھلے دو ایٹم بم بنائے ان کے نام little boy ,Fat man
تھے- اگرچہ امریکہ ایٹمی قوت بن چکا تھا اور دنیا کو اسکی مہلک تباہ کاریوں کا اندازہ بھی تھا لیکن پھر بھی کوئی قوم ذہنی طور یہ تسلیم کرنے کیلئے تیار نھیں تھی کہ اسکے اوپر اسے آزمایا جائے گا-
دوسری جنگ عظیم آخری مراحل میں تھی کہ امریکہ اسپر بضد ہو گیا کہ وہ پرل ہاربرکے حملے کا بدلہ لے کر جاپان کو مزا چکانا چاہتا ہے-اسوقت کے امریکی صدر ہیری ٹرومین نے جاپان پر ایٹم بم بنانے کی دستاویز پر دستخط کر دئے دو بی -29 بمبار جنکے نام اینولائے گے اور بوک اسکار تھے ایٹم بموں کو لے کر جاپان کی طرف روانہ ہوئےاسوقت امریکہ کے سپہ سالارجنرل آئزن ہاور تھے-
16 اگست 1945 کی بد قسمت صبح تھی امریکہ میں صبح کی چھل پہل تھی سان ڈیئاگومیں ایک مرین ڈویژن جاپان پر قبضے کی تیاری کر رہاتھا- اینولائے گے کے پہونچنے سے کچھ دیر قبل تین بمبار طیاروں نے ہیروشیما پر ہلکی بمباری کیان جہازوں کے جانے کے بعد آل کلئر کا سائرن بج رہا تھا اینولا گے صبح آٹھ بج کر گیارہ منٹ پر اپنے مقررہ ہدف پر پہونچا، ھواباز نے فیٹ مین کو گرانے کا لیور دبایا- فیٹ مین کو ہیروشیما کی زمین تک پھنچنے میں 43 سیکنڈ لگے، 15 سیکنڈ میں جھاز وہاں سے بحفاظت نکل گیا-بم کے پھٹنے میں دس سیکنڈ لگے-ان دس سیکنڈ میں اتنی بڑی تباہی ہوئی کہ دو لاکھ پچاس ہزار افراد کی آبادی کا یہ شہر صفحہ ہستی سے مٹ گیا، ہیرو شیما کا 67 فیصد حصہ بالکل تباہ ہوگیا-دوسرا بم لٹل بوائے جسے بوک سکار لے کر ناگاساکی گیا تھا اس نے نسبتا کم تباہی مچائی اسکم درجے کی تباھی میں 39 ہزار افراد ہلاک اور 25 ہزار زخمی ہوئے-اس ایٹمی بمباری کے اثرات اتنے شدید تھے کہ چار ہزارمیٹر کے نصف قطرتک لوگوں کے کپڑے جلنے شروع ہوگئے اور ایک ہزار میٹر کے نصف قطر کے لوگوں کے جسم جل کر خاکستر ہوگئے، شھر میں تمام مکانات یا تو جل گئے ا مٹی کا ڈھیربن گئے، دہماکےکی شدت سے لوگ بیس فٹ دور جا گرے-
بمباری کے مرکز سے ایک کلو میٹر کے فاصلے پر موجود لوگ ایک گھنٹے کے اندر ہلاک ہوگئے، تجوریوں میں بند نوٹ اور کاغزات خاکستر ہو گئے- سکول کے بچوں کے ناشتہ دانوں میں کھانا سیاہ اور انکی پانی کی بوتلیں پگھل گئیں-دریاۓ توبسو کے کنارے ہزاروں لوگ پانی پیتے ہوۓ ہلاک ہوۓ – حد درجہ بلند درجہ حرارت سے بچ جانے والوں کو سردی نے آگھیرا اور سخت سردی سے ٹھٹھر گئے -شۃر کے شمال مغرب میں کالی بارش ہوئی اس بارش سے تمام آبی جانور ہلاک ہوۓ تابکاری کے اثرات سے پتھروں پر انسانی تصویریں ابھر آئیں –تابکاری کے اثرات 66 سال کا عرصہ گزرنے کے بعد بہی نسل در نسل چل رہے ہیں–
اس تباہی کے بعد جاپان نے اپنی شکست کا اعتراف کیا 2 ستمبر 1945 کو ٹوکیو کی بندرگاہ پر کھڑے جنگی جہاز میسوری کے عرشے جنرل میک آرتھر نے جاپانی شہنشاہ ہیرو ہیٹو سے شکست نامے پر دستخط کروالئے-آج ہیرو شیما پھر ایک ہنستا بستا شہرہے-یہ ابھی تک اعلانیہ ایٹم بم کا پہلا اور آخری حملہ ہے، اگرچہ عراق اور افغانستان میں کلسٹر اور فاسفورس بموں کا استعمال ہوا اور اب اگر امریکہ چاہے تو ڈرون یا میزائیل کے زریعے اپنے ہدف کو نشانہ بناسکتی ہے-
بھارت اور پاکستان نے بھی اپنےمیزائیل اس مقصد کے لئے تئار رکھے ہیں وہ اپنے ترشولوں اور ہم اپنے حتفوں کے فاصلے ناپتے ہیں-
لیکن نیوکلیائی ھتیاروں کی اس دوڑ میں کیا بنی نوع انسانی کی تباہی بربادی اور ہلاکت کے علاوہ کوئی اور راز بھی پوشیدہ ہے-؟
Sent from my iPad