پاکستان کاحسن کلر کہار
سفر نگار احسان شیخ
اللہ حسین ہے اور حسین چیزوں کو پسند کرتا ہے۔اللہ تعالیٰ نے دنیا تخلیق کی اور اسے بے تحاشا حسن عطاء کیا۔اس نے انسان کو آنکھیں دیں اکہ وہ ان کے ذریعے اس کی تخلیقات کو دیکھ کر اسے پہچان سکے۔پاکستان میرا پاکستان ،پاکستان ہمارا پاکستان دنیا کا وہ خطہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے بے تحاشا حسن سے نوازا ہے۔یہ وہ خطہ ہے جہاں دنیا کے بلندترین پہاڑ زمین پر سینہ تانے اللہ تبارک و تعالیٰ کی کبریائی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔تو دوسری جانب لق و دق ریگستان اور چٹانیں میدان خدا کی ایک چھوٹی سی جھلک ہیں۔گذشتہ دنوں ہمیں پاکستان جانے کا اتفاق ہوا اپنے نہائیت ہی مہربان اور شفیق ہم زلف شفیق صاحب سے ملنے کا شوق ہمیں لاہور سے پشاور لے گیا۔ہمارے ہمراہ ہمارے برادر نسبتی عمران علی خان غزالی تھے۔جنہوں نے کمال مہربانی کا مظاہرہ کرتے ہوئے نہ صرف ہمیں ڈرائیو کیا بلکہ راستے میں آنے والے اللہ کی تخلیق کے اس گوشے کو دیکھنے کا موقعہ بھی فراہم کیا۔جس سے ہم ابھی تک محروم تھے ۔کہتے ہیں کچھ کرنے یا دیکھنے کے لیے دل میں شوق تمنا کے ساتھ جذبہ بھی موجود ہونا ضروری ہوتا ہے۔وہی موٹر وے جس پر ہم پہلے بھی سفر کر چکے تھے آج ایک منفرد روپ میں نظر آئی۔کیونکہ اس نے ہمیں قدرت کو قریب سے دیکھنے کا موقعہ فراہم کیا۔جب ہم لاہور سے تقریباً پونے تین گھنٹے کی مسافت کے بعد چکوال کے علاقے کلر کہار میں داخل ہوئے تو خود کو دوسری دنیا میں محسوس کیا۔سیدھی سڑک ہماری گاڑی کو لے کر ایک ایسی جانب داخل ہو گئی جہاں دونوں جانب پہاڑ تھے اور درمیان میںسڑک سانپ کی طرح اونچائی سے نیچے کی جانب سرک ر ہی تھی ۔اپنے دائیں جانب پہاڑوں کی رنگت
کے امتزاج نے ہمیں خود میں ڈبو دیا۔
قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ سمندر میں موجودٹھنڈے اورگرم پانی کے ساتھ ساتھ بہائو کا ذکر کرتا ہے۔یہاں پر ہم نے بھورے اور سرمئی پہاڑوں کو جڑے پایا۔دوسری جانب ایک دیو ہیکل پتھریلا اور خشک پہاڑ اپنی چوٹی پر چھوٹے درختوں کو اٹھائے شان کریمی کی قصیدہ گوئی کر کر رہا تھا۔
خدا تعالیٰ سورہ رحمان میں انسانوں سے بار بار مخاطب ہو کر اپنی قدرت بیان کرتے ہوئے کہتا ہے ۔اور تم میری کون کون سی نعمت کو جھٹلائو گے۔یقیناً خدا تعالیٰ نے کوئی چیز بھی بلا مقصد تخلیق نہیں کی نہ چرند پرندنہ انسان نہ آسماناور نہ ریگستان۔ہمیں کیا معلوم کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق کے لیے ان پہاڑوں کے اندر کون کون سے خزانے چھپارکھے ہیں۔یہ تو ہماری اپنی کوشش اور محنت ہے کہ ہم انہیںتلاش کریں۔لیکن جن قوموں کی نیتیں اور سمتیںخود نمائی اور لالچ و طمع کی طرف مبذول ہو چکی ہوں ان کے پاس اتنا وقت کہاں کہ وہ خدا داد صلاحیتوں کے استعمال سے اللہ کی مخلوق کو فائدہ پہنچانے کیے لیے ایسی کاوشیں کر سکیں۔اپنے سماج اور سماج کے گماشتوں کے بارے میں ہمارے اندر اتنے دکھ اور تکلیفیں ہیں کہ نہ ہم مین انہیں بیان کرنے یا انہیں سننے کا یارا ہو گا۔انہوں نے ہمیں اتنا حال مست کر دیا ہے کہ ہم واہ واہ اور ہاہ ا کی زندگی کے عادی ہو گئے ہیں۔آگے بڑ ہے تو ایک اونچے پہاڑ پہ انگریزی زبان میںبہت بڑا الاخوان کندہ تھا۔لکھنے والے نے تو لکھ دیا کہ ہم سب بھائی ہیں لیکن جب ذرا آگے پٹرول پمپ پر پٹرول بھروانے رکے توپٹرول بھرنے والے نے صفر کے بجائے سات کے ہندسے سے پٹرول بھر کر تقاضا ادائیگی صفر میٹر کے
حساب سے کیا۔جہاں ہم ایک دوسرے کی جیب کھلے عام کاٹنے کے چکر میں ہوں وہاںپر تصور الاخوان اپنا مقام کھوتا ہوا محسوس ہوتا ہے
۔کلر کہار چکوال کا سب سے بڑا ڈوین اور یونین کونسل ہے۔یہ چکوال سے جنوب کی جانب تقریباً پچیس کلو میٹر موٹر وے کے ساتھ واقع ہے۔یہ قدرتی باغات موروں سالٹ واٹر جھیل ( salt water lake) اور تخت بابری کی وجہ سے شہرت رکھتا ہے۔کلر کہار کو موروں کی وادی بھی کہا جاتا ہے۔کلر کہار کی جھیل پوٹھوہار کے جنوب میں واقع پہاڑی سلسلے کے درمیان ایک وادی میں سطح سمندر سے تقریباً پندرہ فٹ کی بلندی پر واقع ہے۔یہ ایک قدرتی جھیل ہے جس کا منبع تازہ پانی ہے۔یہ جھیل مقامی لوگوں کے لیے تفریحی مقام کے علاوہ بیرون ملک کے سیاحوں اور پاکستان کے دیگر شہروں سے آنے والے لوگوں کی توجہ کا مرکزبھی ہے۔اس کے علاوہ وہاںپر دربار سخی آہو باہو موجود ہے جہاں پر زائرین اور عقیدتمندوں کی بڑی تعدادحاضری دے کر اپنی نیاز مندی اور عقیدت کا اظہار کرتی ہے۔یہاں پر مور کھلے عام پھرتے ہیں اور کہا جاتا ہے کہ اگر انہیں کسی اور مقام پر لے جایا جائے تو وہ اندھے ہو جاتے ہیں۔
تخت بابری کلر کہار میں تاریخی اہمیت کا حامل ہے۔کہتے ہیں اسے پہلے مغل بادشاہ بابر کے سپاہیوں نے چٹان کاٹ کر بنایا تھا جہاں پر کھڑے ہو کربابر نے لشکر سے خطاب کیا تھا۔اب وقت تبدیل ہو چکا ہے اور جمہوریت کے نام پر اب اس جگہ پر مغل بادشاہ کی جگہ پر صدر آصف زرداری براجمان ہیں۔ بابر فارسی بول کر اپنے سپاہیوں کو لڑائی کی ترغیب دیتا تھا اور مال و متاع سمیٹ کر اپنے گھوڑوں پر سوار ہو کر آگے بڑھ جاتا تھا۔اب حکمران انگریزی اور اردو بول کر جمہوریت کے سر پہ سوار ہو کر وہی کام کر رہے ہیں۔فرق صرف اتنا ہے کہ مغلوں نے عوام کے لیے روٹی پانی اور روزمرہ کی اشیاء کی کمی نہیں ہونے دی جبکہ ہمارے آج کے عوام روزمرہ کی زندگی کی سہولیات و ضروریات سے بتدریج محروم ہو رہے ہیں۔جبکہ حکومت و اشرافیہ دودھوں نہا کر پوتوں پھل دے رہے ہیں۔کہتے ہیں کہ اللہ کی رسی بڑی دراز ہے لیکن جس دن اس نے اسے کھینچا تو یہی رسی انکے گلے کا ہار بن کر انہیں جھولنا جھلائے گی۔آخر میں ہم اتنا ہی کہیں گے کہ خدا وند تعالیٰ نے ہمیں اشرفالمخلوقات کا اعلیٰ اعزاز عطا کرتے ہوئے ہمیں ایک مخصوص وقت کے لیے اس دنیا میں بھیجا ہے۔لہٰذا اس دنیا کی خوبصورتی کو دیکھنے کے لیے ہمیں اپنے اندر بھی خوبصورتی پیدا کرنی چاہیے۔تاکہ اپنے ارد گرد اللہ کی تخلیق اپنے اندر کی خوبصورتی کا عکس دیکھ سکے۔
بہت خوب احسان صاحب بہت لطف آیا کلر کہار کی سیر کر کے۔میں نے اپنی امی سے اس علاقے اور یہاں کے موروں کی بہت تعریف سن رکھی تھی لیکن کبھی وہاں جا نہ سکی ۔آج آپ نے اس خوبصورت جگہ کی بھی سیر کروا دی بہت شکریہ۔
شازیہ