پدماوت : خوبصورت فلمی،تاریخی آرٹسٹک فراڈ

اختر عباس

Selected by Abda Rahmani

ہم کمال کھلے دل کے مالک ہیں کہ کسی مسئلے کو مسئلہ ہی نہیں بناتے وہ تاریخ کا ہو یا جغرافیے کا، اس میں تبدلی پر بھی ذرا پریشان نہیں ہوتے، یہ رویہ عام زندگی میں بھی ہے اور فلمی زندگی میں بھی۔ پدماوت کو ہی لے لیں ہمارے سنسر بورڈ نے پہلے چار ایک اعتراض لگائے مگر پھر فلم کی خوب صورتی دیکھ کر بنا کچھ کاٹے اسے پاس کر دیا اور سینماؤں میں ریلیز کرنے کی بخوشی اجازت دے دی، البتہ اسی فلم پر ہندوستان میں ایک غدر مچا ہوا ہے، ہدایت کار کا سراور ہیروئین دپیکا پدوکون کی ناک کاٹنے پر 51لاکھ روپے کا انعام بھی رکھا گیا ہے، ایک ہندو انتہا پسند تنظیم کے سربراہ نے ہدایت کار کی ماں کے نام پر اسے تکلیف پہنچانے کے لیے ’’لیلا کی لیلا‘‘ کے نام سے فلم بنانے کا بھی اعلان کر دیا ہے، دو صوبوں میں عدالت عظمیٰ کے حکم کے باوجود فلم ریلیز نہیں ہو سکی۔ جلاؤ گھراؤ، آگ لگاؤ قسم کی مہم پورے راجپوتانہ میں چل رہی ہے۔ میواڑ، اجمیر اور چتوڑ میں اس کا زور زیادہ ہے، انتہا پسند ہندو کے دباؤ میں آکر وہاں کے سنسر بورڈ نے فلم کا نام تک بدل دیا اور اسے پدماوتی سے پدماوت کر دیا، اس کے بے شمار سین کاٹ دیے، اسے ریلیز کرنے میں قسم قسم کی پابندیاں لگیں بالآخر عدالت عظمیٰ نے مداخلت کی اور اسے سینما گھروں کی اسکرینوں تک آنے کی اجازت ملی، اپنی ریلیز کے پہلے ہی دن اس نے ایک محتاط اندازے کے مطابق اٹھارہ سے بیس کروڑ روپوں کا کامیاب بزنس کیا۔
یہ ساری دلچسپ باتیں ہیں اور ہم اس کی کہیں زیادہ تفصیل آنے والے دنوں میں اخبارات کے صفحات میں دیکھیں گے مگر فلم دیکھنے کے بعد میرے لیے اصل غور و فکر کا مسئلہ ہی کچھ اور ہے، اور وہ ہے مسلمان ناظرین اور تماش بینوں کا رویہ، دلچسپ بات یہ ہے کہ ہمارے اہل دانش کا معاملہ بھی کچھ مختلف نہیں ہے، اس سے قبل کہ تاریخ کے صفحات پر لکھے حقائق کی طرف جائیں پہلے آپ کو یہ بتا دوں کہ رام لیلا بھنسالی ایک باہنر اور باذوق ہدایت کار ہے، اس کی فلموں کے موضوعات کا انتخاب، فلم کی عمدہ عکاسی اور کرداروں کے لیے مہنگے اور شاندار لباس یا کاسٹیوم سے لے کر مہنگے تاریخی سیٹ بنانے اور لگوانے کی مہارت نے اسے فلم سازی میں بہت منفرد اور نمایاں مقام دے رکھا ہے، فلم دیکھ کر اس کی تحسین کیے بنا نہیں رہا جا سکتا، اس قدر خوب صورت اور جاذب فلم کہ آپ اسے بھلا نہ سکیں، یہی اس کا کمال ہے کہ فلم دیکھنے والے اس کی مرضی سے تاریخ دیکھتے ہیں، علا الدین خلجی جیسا بھی کامیاب بادشاہ رہا ہو اسے لوگ سکندر ثانی کہتے رہے ہوں اور اس نے منگولوں کو چھ بار شکست دے کر سینٹرل ایشیاء [قندھار اور غزنی تک] پر قبضہ کر کے وحشی منگول حملوں کا مستقل سدباب کر دیا ہو، پہلی بار دہلی میں مارکیٹ بنائی ہو اور قیمتوں کا تعین کیا کہ مہنگائی ختم کر دی ہو، 35 برس بہترین حکمرانی کی ہو، بے شمار فلاحی کام کیے ہوں، شراب بنانے اور پینے پر پابندی لگائی، مضبوط مرکزی حکومت بنائی ہو، مگر اس فلم میں وہ ایک جنگلی، وحشی اور درندہ قسم کا انسان ہے اور ایک عورت کی خاطر ہر رشتے اصول اور قاعدے کو چیونٹی کی طرح مسل کے رکھ دیتا ہے، اس کی بے رحم، بے لحاظ کینہ پرور آنکھیں، لمبے بال، جنگلیوں جیسی عادتیں کسی وحشی منگول یا کسی تاریک دود کے بادشاہ اور حاکم جیسی نظر آتی ہیں، اس کی اداکاری ایسی کہ مسلمان ناظرین ہر ہر سین کے بعد شرمندگی سے سر جھکاتے جائیں، اپنی تاریخ پر شرمندگی سے زمیں میں دھنستے جائیں اور ہندو رانی پدماوتی کی بہادری، غیرت اور ذہانت کے گن گانے لگیں اور راجپوت راجا رتن سنگھ کی شیر دلی اور اساطیری رویے پر عش عش کر اٹھیں۔
میں گزشتہ کئی روز سے تاریخ میں سے میگاوتی ڈھونڈ رہا ہوں، خلجی خاندان کے اس سلطان کی حیوانیت کے قصے تلاش کر رہا ہوں جو ہر خوب صورت لڑکی پر ریجھ جاتا ہوگا، ایک بدنگاہ پنڈت راگھو چیتن جو جادوگر بھی تھا اور جسے راجا نے چتوڑ گڑھ سے نکال دیا تھا سے راجپوت رانی پدما وتی کی خوب صورتی کے قصے سن کر اسے حاصل کرنے نکل کھڑا ہو، کسی کی بیوی پر بری نگاہ رکھنے اور اسے ایک رات کے لیے اٹھانے اور اپنے حرم کا حصہ بنانے کے لیے مہینوں چتوڑ کے قلعے کے باہر بیٹھا اور بندے مرواتا رہا ہو، مجھے آپ سے معذرت کر لینی چاہیے کہ میری تمام کوششیں ناکام ثابت ہوئی ہیں، اور میں یہ سب ڈھونڈنے میں ناکام رہا ہوں، یہ درست ہے کہ پرانے ادوار کے بادشاہ بہت سے ناروا اور ناگوار کام کرتے رہے ہیں ان ادوار میں ان کو روا سمجھا جاتا رہا ہوگا مگر تاریخ کی بے رحم آنکھوں سے تو کوئی بھی ایسا کام اور حکمران نہیں بچ پاتا، یہ خلجی صاحب نے تاریخ دانوں کو کیا رشوت تھما دی کہ اس کے عہد میں ایسی کوئی کہانی نہ لکھی گئی نہ معروف اور مشہور ہوئی، حتیٰ کہ ایس لال نے بھی علا الدین خلجی پر اپنی تاریخی کتاب میں اس واقعے کا سرے سے ذکر ہی نہ کیا ہو اور پورے دو سو سال بعد ایک شاعر ملک محمد جائشی اپنے ہندو راجا کے لیے ایک تصوراتی نظم لکھیے کہ جس کا نام پدماوت ہو اور محبت اور رومانس کے جذبات سے بھری ہو، اور یہ کہانی سات سو برس پرانے کسی عہد کی ہو مگر پدماوت نام سے [جو اب فلم کا نام ہے] ایسی مقبول زبان دی ہو کہ وقت کے ساتھ ساتھ اسے ایک تاریخی حقیقت جان لیا جائے اور ایک فرضی خوب صورتی پر ایک پورا افسانہ بنا کر عوام الناس کے جذبات سے کھیلا جائے، اگر دیکھا جائے تو اس موضوع پر جذبات تو مسلمانوں کے بھڑکنے چاہیے تھے کہ ان کی تاریخ کو بگاڑا گیا اور ان کے ایک بادشاہ کی یوں بے عزتی اور رسوائی کی گئی مگر ہم تو صدا کے سادھو اور بے نیاز ٹھیرے، ایک آواز تک بلند نہیں ہوئی، الٹا اسے درست مان کر سنیما ہال سے باہر نکلتے ہیں اور افسردہ اور شرمندہ شرمندہ گھروں کی راہ لیتے ہیں، پھر بھی کہتے ہیں ہم انتہا پسند ہیں، ویسے معاف کیجیے یہ بے حسی بھی ہو سکتی ہے بے علمی بھی اور بے نیازی بھی۔ اس کا ایک نتیجہ یہ بھی نکلے گا کہ آپ کی ساری نئی نسل جو آج کی فلموں اور ان کے اداکاروں کی فین اور دلدادہ ہے اسے حقیقت جان کر اپنی ہی تاریخ کو سیاہ باب سمجھنے لگے گی یہ سوچے بنا کہ فلم تو ایک فلم ساز کے دماغ میں آئے ایک خیال کی عکاسی ہوتی ہے ہاں اگر وہ خیال آپ کی تاریخ کو مسخ کر کے خوب صورت بنتا اور توجہ پاتا ہے تو اس پر کچھ ردعمل تو بنتا ہے ورنہ تو عملی صورت حال یہ ہے کہ جن کو فائدہ ہوا ہے جن کی تاریخ کو گلیمر ملا ہے اور جن کی پدماوتی کو کئی سو سال بعد بھی عزت احترام اور وقعت حاصل ہوئی ہے کہ اس کو گلیمرائز کرنے کے لیے ہدایت کار نے اسے چار سوکلو سونا اس کے زیورات اور ملبوسات میں استعمال کر ڈالا ہو اسی کو ماننے والے ہندو انتہا پسند اپنی انتہا پسندی سے باز نہیں آرہے اور سنیما ہی نہیں جلا رہے لوگوں کی املاک بھی نشانہ بنا رہے ہیں کہ ہماری رانی پدماوتی کا نام بھی کیوں لیا۔
تاریخ کا ایک واحد معتبر حوالہ خواجہ حسن نظامی مرحوم کے وہ حواشی ملے جو انہوں نے راج کمار ہردیو کی فارسی کتاب چہل روزہ پر لکھے ہیں یہ اصل میں راجکمار کی یاداشتیں ہیں اور تب سے ہیں جب علا الدین مانک صوبے کا گورنر تھا اور ملک پر جلال الدین خلجی کی حکومت تھی، ’’چہل روزہ‘‘ میں 1295ء میں دیو گڑھ پر حملے کا ذکر تو ہے مگر چتوڑ پر حملے کا نہیں۔ یہی لکھاری راجکمار ہر دیو علا الدین کے بیٹے سلطان قطب مبارک کے خسرو خان کے ہاتھوں قتل اور ناصرالدین کے نام سے مرتدوں کی حکومت کے دوران موجود تھا اور دیبالپور سے تعلق رکھنے والے نئے بادشاہ ملک غازی المعروف غیاث الدین تغلق کے بیٹے محمد بن تغلق کے زمانے میں وزیر بنا اور بعد میں خان جہاں کے خطاب کے ساتھ وزیر اعظم] اس نے بھی کسی پدماوتی کا کوئی ذکر نہیں کیا، تاریخ یہ بھی بتاتی ہے کہ راجپوتوں کی اس روایت کا چتوڑ گڑھ ہی میں سات بار استعمال ہوا جب جب ان کو شکست ہوئی ان کی افواج ہار گئی تو رانیوں اور سب داسیوں اور باندیوں نے اپنے آپ کو ستی کر لیا۔ علا الدین کو اس فلم میں بدنامی اور رانی پدماوتی ہمراہی عورتوں کے جلے بدنوں کی بدبو کے سوا کچھ حاصل نہ ہوا تھا۔ یہی ان کے مطابق اس کی ہار اور رانی کی جیت تھی اور راجپوت اسی پر فخر کرتے ہیں، یہ ان کی ’’فوک لور‘‘ اورعزت اور غیرت کا حوالہ ہے۔ ستی یا اجتماعی خود خشی کو اس قدر ’’گلوری فائی‘‘ اس سے قبل کبھی نہیں کیا گیا، یہ بالکل ممکن ہے کیوں کہ 1947ء میں ایسے کتنے ہی واقعات مسلمان عورتوں کے ساتھ بھارتی پنجاب میں پیش آئے۔ اس قدر گلیمرائزڈ کہانی کے باوجود ہندووں کا احتجاج کیوں تھا کہ بی جے پی کے راہنما بھی اس میں کود پڑے اور اپنی مذہبی کتاب رامائن کے ایک کردار جس کی غلطی پر ناک کاٹ دی گئی تھی، بے چاری دپیکا پدوکون کو بھی یہی سزا سنا دی، اس انتہا پسندی کی جڑیں ہندو معاشرے میں بہت گہری ہیں، اسی لیے کرنی سینا والے راجپوت گروپ تو جنوری 2017 سے احتجاج پر ہیں

حالاں کہ اس فلمی، تاریخی، آرٹسٹک فراڈ پر مسلمانوں کو سراپا احتجاج ہوناچاہیے تھا، وہ نہ اپنی تاریخ پڑھتے ہیں اور نہ اس کی اچھائی برائی سے واقف ہیں، کراچی سے ایک لکھاری دوست حنیف سحر چوہان نے تو علا الدین خلجی سے اس سے زیادہ نفرت کا اظہار کر ڈالا ہے جو بھنسالی صاحب کروانا چاہتے تھے، ایک بادشاہ کے بجائے ایک درندے اور وحشی کو کوئی کیسے قبول کر سکتا ہے، جب کہ اپنے پسندیدہ ڈائریکٹر نے یہ سب کہا ہو کہ خلجی کے اس قدر ڈراؤنے اور گھناوؤنے کردار کے باوجود احتجاج کیوں ہو رہا ہے، میرے لیے اس سوال کا جواب ڈھونڈنا بہت ضروری تھا۔ تحقیق کی تو پتا چلا کہ ہمارے افواہ سازوں کے سرخیل جناب ڈاکٹر شاہد مسعود کی طرح وہاں بھی کسی نے یہ افواہ اڑا دی کہ بے شک علا الدین خلجی پدماوتی سے مل پایا نہ چھو پایا اور نہ ہی اسے اپنے حرم میں شامل کر پایا مگر سنجے لیلا بھنسالی نے بادشاہ کو خواب میں رانی چندراوتی سے ملاقات کی ساری خواہشیں پوری کرا دی ہیں، جو پدماوتی کا اپمان یا بے عزتی کے مترادف ہے، یوں جو سین فلمایا ہی نہ گیا تھا وہی سارے فساد کی جڑ بن گیا۔
ملک محمد جائسی نے 1540ء میں پدماوت پر یہ نظم لکھی، کہا جاتا ہے کہ اس سے بہتر نظم بعد کے ادوار میں بھی نہیں لکھی گئی۔ اصل بات جو آپ بھی جانتے ہیں کہ کہانی لکھتے ہوئے سچ کہاں اور کب ختم ہو جاتا ہے اور شاعر یا مصنف کی مرضی اور خواہش کہاں شروع ہو جاتی ہے اس کا فیصلہ ہمیشہ مشکل ہوتا ہے، مبالغے کا اندیشہ ہی نہیں یقین ہوتا ہے، اسی طرح تاریخ لکھتے ہوئے اور تاریخی فلم بناتے ہوئے ہمیشہ اس اندیشے کا سامنا رہتا ہے کہ لکھنے والا اپنی مرضی اور ضرورت کا صرف آدھا اور ادھورا سچ لکھتا اور فلماتا ہے۔ کیا کبھی کوئی غیر جانب دار ہوکر یہ نہیں کر سکے گا کہ تخلیقی قوت کے ساتھ تاریخ کے کسی واقعے پر مکمل سچ لکھ اور فلما سکے۔ اس فلم میں ایک واحد سافٹ کردار خلجی سلطان کی بیوی مہرالنساء کا ہے جسے ادیتی راؤ حیدری نے ادا کیا ہے، اپنے باپ جلال الدین اور بھائی کو اپنی آنکھوں کے سامنے مرتے دیکھا اور بالآخر رانی پدماوتی کی مدد کر کے اسے فرار کرواتی ہے، [اس کے والد جلال الدین خلجی نے اس خاندان کی بنیاد رکھی تھی اور وہ تغریٰ خان کے بیٹے، سلطان بلبن کے پوتے کے قباد کو قتل کرکے دلی کے تخت پر بیٹھا تھا، علا الدین خلجی 66 برس کی عمر میں جنوری 1316ء میں ملک نائیک کے ہاتھوں مارا گیا، وہ دہلی کے قطب کمپلیکس میں دفن ہے اگر انتہا پسندوں کے ہاتھوں اس کی قبر تباہی سے بچ گئی تو۔ تاریخ یہ بتاتی ہے کہ سلطان علا الدین خلجی کملا دیوی کا بیٹا تھا اور تاریخ کے بدترین اور مکروہ بادشاہ قطب الدین مبارک شاہ کا باپ تھا جس کا ذکر ہی تاریخی صفحات کو کراہت سے بھر دیتا ہے۔ اس کا تفصیلی ذکر میں نے خشونت سنگھ کی دہلی اور جناب اشفاق احمد کی کتاب سفر در سفر میں بھی پڑھا تھا، علا الدین اپنے غلام ملک کافور کی قربت [یابائی سیکسوئل کی وجہ سے بھی تاریخ دانوں کی تنقید کا نشانہ بنتا رہا ہے] کبھی کبھی تو مجھے لگتا ہے تاریخ کے اس پہلو کی وجہ سے اچھا ہے ہم بلا وجہ احتجاج نہیں کرتے، جن سلاطین نے اپنے عہد میں خود اپنی عزت اور وقار کا خیال نہیں کیا کوئی بعد میں کیسے ان کے لیے لڑ سکتا ہے۔

اپنا تبصرہ لکھیں