پرامن اور خوبصورت حج انتظامات


خادم الحرمین الشریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز اور ولی عہد محمد بن سلمان کا امت مسلمہ کے لیے عظیم تحفہ

تحریر : پروفیسر ڈاکٹر حافظ مسعود عبدالرشید اظہر

رئیس المجلس الاسلامی باکستان

اسلام کے بنیادی ارکان میں سے ایک اہم رکن حج بیت اللہ ہے جو ہر صاحب استطاعت مسلمان پر فرض ہے۔ اسی لئے ہرمسلما ن مکمل عقیدت واحترام کیساتھ اس مقدس فریضہ کی ادائیگی کے لئے اپنی تمام تر صلاحیتیں بروئے کار لاتے ہوئے وسائل جمع کرتا ہے اور اس فریضہ کی ادائیگی کو اپنے لئے سعادت سمجھتے ہوئے حرمین شریفین کا قصد کرتا ہے۔ دنیا بھر سے لاکھوں مسلمان اسی مقصد کے لئے سعودی عرب کا سفر کرتے ہیں اور حرمین شریفن میں جمع ہوکر8 ذوالحجہ سے لیکر13 ذوالحجہ تک مکہ ، منی ، عرفات اور مزدلفہ میں مخصوص طریقہ سے عبادات بجالاتے ہیں۔
حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیھماالسلام نے جب کعبة اللہ کی تعمیر فرمائی اور حکم ربی سے حج بیت اللہ الحرام کااعلان کیا تو اس کے بعد ایک عرصہ تک یقیناانسانوں کےلئے بیت اللہ کاسفر محفوظ اور پرسکون رہا ہوگا تاہم جیسے جیسے انسانی آبادی میں اضافہ ہوتا چلاگیا لوگ آسمانی مذاہب سے دور اور خواہشات کے اسیر ہوتے چلے گئے تو حج کے راستے بھی پرخطر ہوتے چلے گئے ۔ یہاں تک جب اسلام کوہ فاران کی چوٹیوں سے ضیا فگن ہوا تواسلام نے حجاز اور سرزمین حرمین کو امن وامان کامثالی گہوارہ بنا دیا ۔ امن وامان کی یہ مقدس ردا کئی صدیوں تک سرزمین حجاز پر سایہ فگن رہی اور لوگ مکمل اطمینان کے ساتھ حج وعمرہ کے مناسک بجالاتے رہے درمیان میں اگر چہ حجاج کرام کےلئے بہت مشکل وقت بھی آتے رہے ہیں ۔
حرمین شریفین اور حجاج کرام کی خدمت کے حوالے سے خلافت عثمانیہ کا دور بھی مثالی رہاہے تاہم جب خلافت عثمانیہ کی گرفت کمزور ہوئی تو سرزمین حجاز میں ابتری پھیل گئی ، راستے پر خطر ہوگئے ، حجاز کے شہر، دیہات اورعام شاہرائیں بھی محفوظ نہ رہیں ۔ حجاج کرام ڈاکوﺅں کے ہاتھوں لٹنے اغواہونے اور قتل کئے جانے لگے ۔راستے اس قدر پرخطر تھے کہ جولوگ سفر حج کا ارادہ کرتے وہ اپنے تمام معاملاتِ زندگی سمیٹ کر دوست احباب اور رشتہ داروں سے معافی تلافی کر کے کفن باندھ کر سفر ِحج پر نکلا کرتے تھے ۔ اس دور میں یہ تصور عام تھا کہ سفر حج سے واپسی کی امید نہیں رکھنی چاہیے ۔جو حجاج کرام ڈاکوﺅں کے ہاتھوں لٹنے سے بچ کر بیت اللہ پہنچ جاتے وہاں بیشمارو لاتعداد مشکلات ان کا استقبال کرتیں۔حالت یہ تھی کہ حجاج کرام کو مکہ مکرمہ اور حدود حرم میں بھی تحفظ حاصل نہ تھا۔کیونکہ مکہ اور اس کے گرد ونواح میں ڈاکوﺅں اور لٹیروں کا راج تھا۔لوگ اونٹوں پر حج کا کٹھن سفر کرتے ،زائرین اپنے علاقوں سے کئی مہینوں تک مقدس مقامات کی طرف چلتے، انہیں موسم کی حدت اور شدت کا بھی سامناکرنا پڑتا۔اس صبر آزما سفر میں حجاج کو کہیں شدید گرمی، چلچلاتی دھوپ، اور کہیں شدید طوفانی بارشوں اوربہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا۔ سڑکیں، راستے اور ذرائع نقل وحمل کا فقدان تھا۔ لوگ مہینوں تک اونٹوں کے ذریعے پرخار وادیوں ،تپتے صحراوؤں ، جنگلوں اور بیابانوں سے گذرتے۔ اس صورتحال کے پیش نظر ماضی میں یہ کہاوت مشہور تھی “جو حج پر جاتا ہے وہ غائب ہوجاتا اور جو حج سے لوٹ آتا ہے گویا اس نے نئے سرے سے جنم لیا ہے“۔ یہ ایک ایسا جملہ ہوتا تھا جو کم وبیش ہرعازم حج کے سفر حج کی روانگی کے وقت بولا جاتا تھا۔ اگر وہ فریضہ حج کے بعد بہ حفاظت واپس آجاتا تو گویا اس نے ایک نئی زندگی کا آغاز کیا ہے۔
عرصہ دراز تک حجاج کرام کےلئے ایسے ہی مشکلات کادور رہا ۔اس ابتر اور خوفناک صورت حال کے پیش نظر ہندوستان کے علماءکو حج کے موقوف ہونے کے فتوے صادر کرنے پڑے ۔پھر اللہ رب العزت والجلال کو اپنے بندوں پر رحم آیااور اطراف عالم سے تشریف لانے والے اپنے مہمانوں اور بیت اللہ کے زائرین کی حفاظت کا بندوبست اس طرح سے کیا کہ اللہ تعالیٰ نے ایک موحد، مجاہد،بہادر ،دین کے داعی، امن کے سپاہی اور انصاف پسند بندے شاہ عبدالعزیز آل سعود کو حرمین شریفین اور حجاج کرام کی خدمت کے لئے منتخب فرمایا۔شاہ عبدالعزیز آل سعود نے مکہ مکرمہ ، مدینہ منورہ اور مضافات کے تمام علاقوں میں شریعت محمدی کے نفاذ کا اعلان کیا،حدود اللہ ، نظام قصاص ودیت کا اجرا کیا اور یہ حکم صادر فرمایا کہ حجاج کرام ضیوف الرحمن کے تمام قافلوں کے ایک ایک فرد کو مکمل تحفظ دیا جائے گا، حجاج کرام کو بے توقیر کرنے ، لوٹنے، قتل کرنے والے مجرموں کیساتھ کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ ﷺ کے مطابق سلوک کیا جائے گا اور اس ضمن کسی بھی مجرم سے کسی قسم کی رو رعایت نہیں برتی جائیگی چاہئے اس کا تعلق کتنے ہی بڑے قبیلے سے کیوں نہ ہو ۔شاہ عبدالعزیز نے اس کے ساتھ یہ اعلان بھی کیا کہ آج کے بعد حجاج کرام مکمل اطمینان اور امن کیساتھ بیت اللہ کا سفر کرسکتے ہیں اگر کسی بھی شخص ، کسی بھی گروہ یا قبیلے نے یا قبیلے کے کسی فرد نے حجاج کرام کو لوٹنے یاا ن کو تکلیف دینے کی کوشش کی تو اس کے ساتھ سختی سے نمٹاجائے گا جو قبیلہ ایسے فرد کو پناہ دے گا اس قبیلے کے ساتھ بھی وہی سلوک کیا جائے گا جو مجرموں کے ساتھ کیا جاتا ہے ۔ قبیلہ مجرم کو حکومت کے سپرد کرنے کا پابند ہوگا اور اگر قبیلہ ڈاکواور راہزن کو حکومت کے سپرد نہیں کرے گا تو مجرم کی پوری بستی کو جلا دیا جائے گا ۔حقیقتاََ ہوا بھی ایسے ہی حجاج کرام کو لوٹنے والے کتنے ہی ڈاکوﺅں ، لیٹروں ، رہزنوں اور قاتلوں کی بستیاں جلادی گئیں اس سے سفر حج پرامن ہوگیا ، دنیا بھر سے حجاج کرام کے قافلے مکمل اطمینان ، آرام ، راحت اور یکسوئی کیساتھ حرمین شریفین کا قصد کرنے لگے ۔
دوسری طرف حجاج کرام کی بڑھتی ہوئی تعداد کے پیش نظر شاہ عبدالعزیز آل سعود نے مملکت کے وسائل کا بڑا حصہ حرمین شریفن ، مشاعر مقدسہ اور حجاج کرام کی خدمت کے لئے وقف کردیا۔انھوں نے تمام تر میسر وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے حجاج کرام کو بہتر سے بہتر سہولتیں فراہم کیں۔ 1924 میں سفر حج کے لیے اونٹوں کی جگہ لاری نے لے لی ۔ مکہ مکرمہ، منی، مزدلفہ ، عرفات اورمدینہ منورہ میں حج ٹرانسپورٹ نے ترقی کا سفر بتدریج طے کیا ۔ لاری کے بعد شاہ عبدالعزیز کے حکم پر پہلی بار 1948 میں مملکت کے مختلف شہروں میں بسوں کے سفر کا جال بچھایا گیا۔ چار برس تک یہ سلسلہ جاری رہا پھر مارچ 1953 میں بسوں کی جنرل سنڈیکیٹ ٹو کے قیام کا فرمان جاری کیاگیاجبکہ بیسویں صدی کے اواخر میں جدید طرز کی بسیں استعمال ہونے لگیں۔
مملکت سعودی عرب کے بانی شاہ عبدالعزیز مرحوم کا ایک اہم کارنامہ جن پر پوری امت قیامت تک ان کےلئے دعاگو رہے گی یہ ہے کہ انھوں نے امت کو جمع کیا اور اتحاد واتفاق کا عملی ثبوت دیا ۔ بیت اللہ جو امت کے اتحاد کی علامت تھا سعودی حکومت کے قیام سے پہلے بیت اللہ میں چاروں مسالک کے الگ الگ مصلے، الگ الگ امام تھے ، ایک ہی نماز کےلئے چاروں مسالک کی الگ الگ اذان ہوتی اور الگ الگ نماز باجماعت ادا کی جاتی تھی اسی طرح منبر بھی چار تھے ۔ سعودی فرمانرواﺅں نے اسے ختم کرکے امت کو پھر سے اتحاد واتفاق کی لڑی میں پرودیا ۔ چاراذانیں ، چار جماعتیں اور چار مصلے ختم کرکے ایک اذان ، ایک نماز اور ایک مصلی قائم کیاگیا ۔
9نومبر1953ءمیں مملکت سعودی عرب کے بانی شاہ عبدالعزیز نے وفات پائی ۔ انھوں نے اللہ کے فضل اور شبانہ روز محنت کی بدولت ایک ایسی مثالی اسلامی ریاست کی بنیاد رکھی جس میں حجاج کرام سمیت ہر شخص کو مکمل تحفظ حاصل تھا ۔ ایسی عالیشان اور مثالی اسلامی فلاحی ریاست کہ جس کے بارے میں یورپ کے بڑے بڑے دانشوروں کو یہ کہنا پڑا کہ ہمارے ملکوں میں جتنے جرائم ایک دن میں ہوتے ہیں سعودی عرب میں اتنے جرائم ایک سال میں بھی نہیں ہوتے ۔ یہ سب کچھ اسلامی نظام کے نفاذ کی بدولت ہوا ۔
شاہ عبدالعزیز مرحوم کی وفات کے بعدان کی اولاد اور جانشین اپنے والدکے نقش قدم پرچلتے ہوئے آج تک ان سنہری روایات کو قائم رکھے ہوئے ہیں۔
اب حج انتظامات کو مزید بہتر بنانے اور حجاج کرام کو ان کے ملکوں میں سہولیات فراہم کرنے کےلئے خادم الحرمین شاہ سلمان بن عبدالعزیز اور ولیعہد شہزادہ محمد بن سلمان کی ہدایت پر روڈ ٹو مکہ جیسے عظیم الشان اور تاریخ ساز پراجیکٹ شروع کردیا گیا ہے ۔ روڈٹومکہ کے تحت پاکستان سمیت پانچ مسلم اکثریتی ممالک کے عازمین حج کے امیگریشن کے مراحل ان کے اپنے ملک کے ہوائی اڈوں ہی پر مکمل کیے جارہے ہیں۔پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد اور سندھ کے دارلحکومت کراچی کے ائیرپورٹ ، انڈونیشیا کے دارالحکومت جکارتہ کے سوئیکارنو ائیرپورٹ ، ملائشیا کے دارلحکومت پتراجایا ائیرپورٹ ، بنگلہ دیش کے ڈھاکہ ائیرپورٹ اور تیونس کے ائیرپورٹ سے روڈ ٹومکہ کاآغاز کردیا گیا ہے ۔اس سہولت کافائدہ یہ ہوگاکہ سعودی عرب میں آمد سے قبل ہی حجاج کے سعودی عرب میں داخلے اور دیگر انتظامات کو حتمی شکل دے دی جائے گی تا کہ انھیں سعودی عرب میں کسی بھی قسم کی دشواری کا سامنا نہ کرنا پڑے اور وہ بلارکاوٹ اپنی قیام گاہوں پرمنتقل ہوسکیں ۔ پاکستان میں یہ سہولت لاہور ائیرپورٹ پر بھی فراہم کرنے کےلئے منصوبہ بندی کی جارہی ہے ۔ اس سے یقینا حجاج کرام اور معتمرین کو بہت زیادہ سہولت دستیاب ہوگی ۔
حقیقت یہ ہے کہ آل سعود نے مملکت سعودی عرب کے وسائل کا ایک بڑا حصہ حرمین شریفین مشاعر مقدسہ اور حجاج کرام کے لئے وقف کیا، سعودی وزارت حج اور دیگر محکمے سال بھر خوب سے خوب تر کی تلاش میں جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے حجا ج کرام کی خدمت اور سہولےا ت کی فراہمی کے لئے کوشاں رہتے ہیں۔آج حجاج کرام اور زائرین حرمین شریفین کے آرام وراحت اور پرسکون و پرامن طریقہ سے مناسک حج کی ادائیگی کے لئے جو وسیع تراور خوبصورت انتظامات کئے گئے ہیں ان کو دیکھتے ہوئے ہم پورے وثوق سے کہہ سکتے ہیں کہ ہر انصاف پسند شخص جو فکری کجی اور منہجی انحراف کے امراض سے پاک ہووہ حرمین شریفین کے خوبصورت، وسیع تر انتظامات اور آل سعود کی حجاج کرام اور معتمرین کے لئے خدمات میں کوئی کمی یا کوتاہی کی شکایت نہیں کرسکتا ۔الحمد للہ نہ ہی آج تک کسی سلیم الفطرت شخص کو ایسا کرتے دیکھا یا سنا ہے ۔ البتہ کچھ شرپسند افراد کو حرمین شریفین کا یہ امن وامان اور پرامن حج کی ادائیگی ایک آنکھ نہیں بھاتی۔ ماضی قریب میں بھی انھوں نے امن کی فضا کو سبوتاژ کرنے اور حجاج کرام کے پرامن مناسک کی ادائیگی میں خلل پیدا کرنے، اپنے قبیح سیاسی مقاصد کی تکمیل، آل سعود او ر حرمین شریفین کے ساتھ اظہار بغض کے لئے مشاعر مقدسہ ، بیت اللہ اور مسجد نبوی میں مظاہرے کرنے کی مذموم اور ناپاک جسارت کی ۔ جسے سعودی حکومت نے اپنی فورسز کے تعاون سے نہ صرف ناکام کیا بلکہ انکا ہمیشہ کے لئے سدبا ب کرتے ہوئے سخت قوانین کا نفاذ کردیا اور ایسے عناصر جو حرمین شریفین کے امن وامان کی خرابی مشاعر مقدسہ کی بے حرمتی اور تخریب میں ملوث پائے گے تھے ان کے سعودی عرب میں داخلہ پر پابندی عائد کردی گئی۔
اب جونہی موسم حج کی آمد ہوتی ہے ایسے شرپسند عناصر اور انکے سہولت کار منظم انداز میں مملکت سعودی عرب ، آل سعود اور حج انتظامات کے خلاف پروپگنڈہ شروع کردیتے ہیں اورحج انتظامات عالمی کمیٹی کے سپرد کرنے کے راگ الاپنا شروع کردیتے ہیں تاکہ وہ ماضی کی طرح حجاج کرام کولوٹ سکیں، حرمین شریفن میں فرقہ واریت کا علم بلند کرسکیں اور اپنے باطل افکار ونظریات کی ترویج واشاعت کا خواب پورا کرسکیں ۔ایسے افراد کو جان لینا چاہئے کہ ان کے خواب نہ کبھی تعبیر پاسکے ہیں نہ ہی پاسکےں گے یہ شر پسندعناصر پہلے بھی ناکام تھے اور آیندہ بھی ناکام ہی رہیں گے ۔امت مسلمہ کا ہر سلیم الفطرت فرد وہ کسی بھی خطہ زمین یا کسی بھی نسل یا قوم سے تعلق رکھتا ہووہ حرمین شریفن کی تعمیر وترقی ، حجاج کرام اور معتمرین کی خدمت کے لئے سعودی فرماں روا شاہ سلمان بن عبدالعزیز آل سعود ، انکے جانشین شہزادہ محمد بن سلمان اور دیگر سعودی حکام جو حرمین شریفین اور زائرین حرمین شریفین کی خدمت کے لئے دن رات کوشاں رہتے ہیںکے ممنون ومشکور بھی ہیں اور انکی خدمات اورقیادت پر مکمل اطمینان کا اظہار بھی کرتے ہیں ۔ہم سب حرمین شریفین کے تحفظ اور اسکی حرمت کے لئے خادم الحرمین الشریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز آل سعود اور شہزادہ محمد بن سلمان کے دست بازو اور ہراول دستہ ہیں۔ ہم حرمین شریفین اور آل سعود کے خلا ف اس جھوٹے پروپیگنڈہ کو مکمل طور پرمسترد کرتے ہیں ۔بے مثال عدیم النظیر حج انتظامات ، حرمین شریفین کی تعمیر وترقی، حجاج بیت اللہ کے آرام وسکون اور خدمت کے لئے اپنے تمام تر وسائل اور صلاحیتیں وقف کرنے پر امت مسلمہ کی طرف سے امت مسلمہ کے عظیم قائد خادم الحرمین الشریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز، ان کے جانشین شہزادہ محمد بن سلمان، سعودی وزارت حج اور دیگر سعودی حکام کے صدق دل سے شکر گزار ہیں اور انکی خدمات کو تحسین کی نظرسے دیکھتے ہیں اللہ تعالی سے دعا گو ہیں کہ اللہ تعالی خادم الحرمین الشریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز آل سعود اور ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان سمیت تمام سعودی حکام کی حفاظت فرمائے ،اور انہیں توفیق مزید سے نوازے آمین یا رب العالمین۔

اپنا تبصرہ لکھیں