معین سلطان
یوں تو ہر پاکستانی یا ہم۔جیسے ملک سے تعلق رکھنے والا۔یہ ہہ سمجھتا ہے کہ یورپ یا کسی امیر ملک پہنچ کر اس کے تمام مسائل حل ہوجائے گئے اس طرح میں بھی یہ ہی سمجھ رہا تھا جس دن ناروے کا ویزہ مجھے ملا تو پاوں زمین پر نہیں لگ رہے تھےاور میں اپنے آپ کو عام لوگوں سے کچھ زیادہ سمجھ رہا تھا۔محسوس ہورہا تھا کہ اب آسانیاں ہی ہے زندگی بدل جائے گئ آسائشیں ہوگئ پیسہ ہوگا ہر مسئلہ کا حل ہوگا میرے پاس اور پھر وہ دن آیا 24 جنوری 2021 جس دن ناروے کے لیے میری فلائٹ تھی مجھے لگا کہ جیسے ہی جہاز سے آتروں گا تمام خواب پورے ہوگئے ۔مگر جیسے ہی جہاز نے رن وے پر ڈورڑنا شروع کیا دل کی دھڑکنے بھی تیز ہوگی جہاز اپر اٹھنے کو جھٹکا لیا تو دل بھی ایک ایسا جھٹکا لگا جیسے زمین کو کسی زوردار زلزلے کے جھٹکے نے ہلا کر رکھ دیا ہو اور وہ سب کچھ جو اسکی تہ میں تھا اب باہر ہے جوں جوں جہاز زمین سے آسمان کر طرف بلند ہورہا تھا اپنے وطن اور مٹی سے جو محبت اس طرح سے محسوس ہورہی تھی جو پہلے کبھی سوچی بھی نہ تھی ویسے بھی مٹی تو ماں ہے اور ماں سے دوری کس قدر درد ناک ہے میں سمجھ سکتا تھا کیونکہ اپنی ماں اپنے سب کچھ کو اس مٹی کے حوالے کرکے اس سے دور جارہا تھا سو مجھے یہ درد دوسری دفعہ برداشت کرنا پڑھ رہا تھا۔اپنی مٹی سے محبت ایک قدرتی عمل ہے آپ کتنے ہی خوشحال ملک میں چلے جائے مگر اپنے وطن سے آپ کا تعلق اور محبت ان سب چیزوں سے کہی زیادہ ہے اس بات کا احساس بھی اپنی مٹی سے دور جاکر ہی ہوتا ہے شاید ٹھیک کہتے ہے محبت میں ہجر اس کے احساس کے لیے بہت ضروری ہے ۔کرونا کی خوف کے سائے میں خوابوں کی تعبیر کے سفر کا آغاز ہوا پہلا پڑاوں ترکی کے درالخلافہ استمبول تھا ارتغول ڈرامہ دیکھنے کے بعد ترکی سے بھی خاص سا تعلق لگ رہا تھا استمبول ائرپورٹ پر پہنچے تو اسکی شان و شوکت اورمصروفیت دیکھ کر جہاں ترکی کی ترقی اور خوشحالی کا اندازہ لگایا جاسکتا تھا وہی پر جدید اسلامی ریاست کو دیکھ فخر بھی ہورہا تھا ورنہ ہمیشہ مسلم ریاست کو جنگ اور دہشتگردی کی خبریں ہی پڑھی اور دیکھی تھی یہاں سے ہمارا سفر اپنی منزل اوسلو کی طرف تھا ہمارا سفر تقریب 3 گھنٹے کا تھا ہم اوسلو۔ایئرپورٹ پہنچے تو سب سے پہلے جو خوشگوار واقع پیش آیا جس سے اس معاشرے کی تعلیم تربیت کا نظر آئی وہ یہ تھا کہ میرے ساتھ میری بیوی اور بیٹا محمد شافع جو آٹھ ماہ کا تھا تو ایمیگرایشن کی لمبی لائن تھی ہمیں لگا کہ ہمیں کافی انتظار کرنا پڑئے گا مگر جو ہی ایمیگرایشن آفیسر نے ہمارے ساتھ بچے کو۔دیکھا تو وہ تمام رکاوٹیں ہٹاتا ہوا ہماری طرف آیا اور ہمیں اپنے ساتھ لے گیا کہ آپکو قطار میں نہیں لگنا کیونکہ آپکے ساتھ چھوٹا بچہ ہے اور ایک اہلکار کو ہمارے ساتھ بھجا گیا جس نے تمام ضروری ایئرپورٹ کلیرزس میں ہماری مدد کی اور ہمیں گاڈی تک چھوڈا ۔بچوں کے ساتھ ناروے کے معاشرہ کا خصوصی سلوک اس بات کی گواہی تھی کہ کوئی بھی معاشرہ اس وقت تک کامیاب نہیں ہوسکتا جب تک وہ اپنی آنے والی نسل کا خیال نہیں کرئے گا اسکا نہیں سوچئے گا۔دس دن ہوٹل میں کورنٹین کرنا پڑا جس مشکل ترین تھا آخری کار اب گھر پہنچ گئے۔یوں اس دیس میں سب کچھ بہت اچھا ہے ماحول سے لے کر مخلوق تک ۔انسان انسانوں کی قدر کرتے ہے ایک دوسرے کا احترام ہے لوگ خوش ہوکر ملتے ہے حال پوچھتے ہیں ۔ایک دوسرے کو راستہ دیا جاتا ہے قانون کا احترام ہے ۔یوں تو یہ اس معاشرے میں بہت سی اچھی باتیں ہیں مگر ایک عجیب بات جو مجھے لگی وہ یہ کہ انکی زندگیوں میں جلدی وہ قطار میں کھڑے ہوکر اپنی باری کا انتظار کرتے ہیں اور کوئی آپکو جلدی میں نظر نہیں آئے گا اور ہر طرف آپکو سکون نظر آئے گا
ناروے میں مجھے لگتا ہے کوئی جتنا کمزور ہوگا اس کے حقوق اتنے ہی زیادہ ہے اور اس کے ساتھ ریاست خود کھڑی نظر آئے گی بلکہ معاشرہ بھی کے ساتھ ہے۔یوں تو یہاں پر ایک صحت مند خوبصورت اور آسایشوں سے بھرپور زندگی ہے مگر اس کے بعد بھی اگر آپ اندر سے آداس ہے تو یقین مانے سہولتیں اور آسائشوں زندگی میں اگرچہ ضروری ہیں مگر سکون کے معنی ہی کچھ اور ہیں جن مسائل کو سر پر سوار رکھا تھا آج وہ بلکل بے معنی لگتے ہیں اپنوں سے دوری انسان کو اندر سے ہمیشہ کھاتی ہے اس بات پر اس وقت مجھے یقین ہوا جب میں اوسلو میں ایک 75 سالہ بزرگ سے ملا جو 50 سال سے اس ملک میں مگر آج جب اپنے وطن کی بات کرتا ہے تو آنکھیں نم ہوجاتی ہے پردیس کا دکھ اس کے چہرے سے نظر آرہا ہے انکی اس بات میں کس قدر درد اور کرب ہے کہ کیوں ہمارا ملک اس قابل نہیں ہوسکتا کہ ہم اپنے ملک میں اچھی زندگی گزار سکے ہمیں کیوں پردیس کا دکھ اٹھنا پڑتا ہے۔کرپشن اور بددیانتی نے جہاں ہمارے ملک کو بہت نقصان پہنچایا وہی پر لاکھوں پاکستانی پردیس کا دکھ برداشت کر رہے ہیں۔بہت آرام دہ زندگی بہت سی کامیابیاں ہر طرح کی سہولت مگر پردیس کا دکھ آج بھی ان پر حاوی نظر آتا ہے۔