پرندہ لوٹ آنا چاہتا ہے
زمیں سے ایک رشتہ تو نہیں تھا
مگر دل آب و دانہ چاہتا ہے
سلاسل رزق کے پیروں سے باندھے
زمانہ آزمانا چاہتا ہے
بہت روتی ہے پرکھوں کی حویلی
وہیں دل لوٹ جا نا چاہتا ھے
تھکن پیروں سے اٹھ کردل سے لپٹی
سفر کوئی ٹھکانہ چاھتا ھے
یہ دل پچھلا خسارہ بھول بیٹھاٴ
پھر اس سے دوستانہ چاہتا ھے
وہ سب الزام میرے نام کر کے
بچھڑنے کا بہانہ چاھتا ھے
ناصر علی سید۔پشاور
—