ڈاکٹر آر اے امتیاز
دوسری جنگ عظیم کے دوران برطانیہ کے وزیر اعظم چرچل سے کسی نے پوچھا آپ اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے کام کرتے رہتے ہیں اتنا ذیادہ کام کرنے سے آپ پریشن نہیں ہوتے؟
مسٹر چرچل نے جواب دیا میں اتنا مصروف رہتا ہوں کہ میرے پاس پریشان ہونے کے لیے وقت ہی نہیں بچتا۔ایک کہاوت ہے کہ
فارغ نہ بیٹھ کچھ کیا کر
کپڑے ہی پھاڑ پھاڑ کر سیا کر
جنگ کے میدان میں اکثر ایسا کیا جاتا ہے کہ جو فوجی جنگ سے واپس آتے ہیں انہیں ڈاکٹر کسی نہ کسی کام میں مصروف رکھتے ہیں۔کچھ کو علاج معالجہ کی سورت میں اور کچھ کو کھیل اور تفریح میں اور کچھ کو شکار میں ۔
ایسا اس لیے کیا جاتا ہے کہ فوجی جوان کسی نہ کسی کام میں مصروف ہو جائیں اور جنگ کی ہولناکیاں ان کے اعصاب پر سوار نہ ہوں۔
موجودہ میڈیکل سائینس اسے آپشنل تھراپی کا نام دیتی ہے۔یہ نیا طریقہ نہیں بلکہ صدیوں پرانا ہے۔پانچ سو قبل مسیح بھی لوگ اس سے مستفید ہوتے تھے۔
ماہرین نفسیات بھی مریضوں کو مصروف رہنے کی نصیحت کرتے ہیں ایک مقولہ ہے بیکار سے بیگار بھلی ۔یعنی کچھ نہ کچھ کرنا بہتر ہے۔بیکار انسان کے دماغ میں سوچوں کی بھرمار ہوتی ہے۔اور سوچیں جسم انسانی کو گھائل کر دیتی ہیں۔
پنجابی میں کہتے ہیں کہ
سوچی پیا تے بندہ گیا۔
ذیادہ سوچنے والا اپنا ہی نقصان کرتا ہے ۔وقت کا بھی اور صحت کا بھی۔اسلام میں فکر و ذکر کی جو تاکید کی گئی ہے وہ بھی انسان کو فارغ نہیں بیٹھے دیتی۔اس کائنات میں ہر حرکت اپنے اثرات مرتب کرتی ہے اور ہر بولا ہوا مصرعہ اپنے اثرات دیتا ہے۔
ہاتھ میں تسبیح رکھنے والا فضولیات سے بچا رہتا ہے اسی لیے تسبیح کو شیطان کو کوڑہ کہا جاتا ہے۔خالی ذہم طاغوتی قوتوں کا گھر ہوتا ہے۔خالی ذہن کو شیطان کی ورکشاپ کہا جاتا ہے۔یہ بات سب جانتے ہیں کہ خالی سوچیں سوائے پریشانی کے کوئی حل نہیں دیتیں۔ویسے جو جس کا کام ہے وہ اپنا اپنا کام سر انجام دیتا رہے و بھی پریشانی نہیں ہوتی۔جب کوئی اپنا کام چھوڑ کر کسی دوسرے کا کام سنبھالنے کی کوشش کرتا ہے پریشانی بنتی ہے۔
ا8کلوق جب تک مخلوق رہی خوشحال رہی خلاق بنی تو بن نہ پائی ۔آپ نے یہ فقرہ اکثر سنا ہو گا۔میں نہ کماؤں تو بچے بھوکے مر جائیں۔یہ ایسا فقرہ ہے جو خالق کو نا گوار گزرتا ہے۔بندہ بندگی تک محدود رہے تو جچتا ہے۔
اسلام دین فطرت ہے جو اس پر چلے قدرت اسے کوئی پریشانی نہیں دیتی۔فطرت نظام ایثار پہ چل رہی ہے۔جو انسان اسی ایثار کو اپنی زندگی کا مقصد بنا لیتا ہے۔قدرت ہر کام مین اسکی معاون بن جاتی ہے۔اور سکون و خوشحالی کی زندگی اسے نصیب ہوتی ہے۔