پر اسراربوڑھا

قسط نمبر تین
تحریرشازیہ عندلیب
گھرپہنچتے پہنچتے رخشی کو بخار نے آن گھیرا ۔وہ کئی دن تک ملازمت پہ بھی نہ جا سکی۔اس دوران جاڑے کی رت بدلی نومبر کی گلابی رت نے سفید برف کی اوڑہنی اوڑہی۔ہر جانب برف کی سفیدچادر اور طویل ٹھٹھرتی شاموں نے ناروے کی سرزمین کو اپنی آغوش میں لے لیا۔شام ڈھلتے ہی آسمان پر ستارے اور زمین پر برف کی چادر میں کرسمس کی شمعیں دیے اور گھروں کی کھڑکیوں سے جھانکتے دلکش برقی قمقمے ایک دلکش سماں پیدا کر رہے تھے۔کرسمس کی چھٹیاں ہونے والی تھیں۔وہ اس معمر جوڑے کو تقریباً بھول چکی تھی۔۔۔۔۔ مگر اس عمر رسیدہ جوڑے کی جوانی بھری شخصیتوں نے اس کے لا شعور میں ایسی چنگاریاں سی بھر دی تھیں کہ وہ اب اپنی ماں جی کے سر ہوئی رہتی۔اس کا جی چاہتا کہ وہ بھی ستر سالہ بوڑہے کی چاک و چوبند بیوی کی طرح چست ہو جائیں۔لان میں قلانچیں بھرتی پھریں سائیکلنگ اور سومنگ کریں۔
سب سے پہلے تو اس نے ماں جی کے بالوں میں اورنج مہندی کے بجائے گہری براؤن مہندی سے رنگ کیا تو ماں جی جی اپنی عمر سے دس برس کم نظر آنے لگیں یعنی پیچھترکے بجائے پینسٹھ برس کی ۔اب مسلہء تھا انکے چہرے کے فیشل کا ۔جس کے لیے انہیں بیوٹی پارلر لے جانا ضروری تھا مگر وہ اس کے لیے کسی قیمت پر راضی نہ تھیں۔آخر اس نے اپنی ایک ترکش بیوٹیشن دوست کو گھربلایا اس کی خاطر تواضع پاکستانی ڈشز سے کرنے کے بعد ماں جی کو سر میں مالش کی پیشکش کی جو وہ نہائیت استعجاب آمیز خوشی کے ساتھ مان گئیں۔ ہاں ماسک سے پہلے اپنے باغ کے قندھاری سیبوں کا جوس بھی پلایا۔یہ سیبوں کی بہت عجیب قسم ہے جس میں سیب کے اندرخون کے چھینٹوں کی مانند گودا ہوتا ہے۔یہ سیبوں کی نہائیت نایاب قسم ہے۔جو صرف قندھار میں پائی جاتی ہے۔قندھارتو وقت کے ہاتھوں برباد ہو گیا مگر اس کے قیمتی بیج وہاں سے آنے والے پناہ گزین ساتھ لے آئے۔اس طرح سیب کی یہ نایاب قسم ناروے کی سرزمین پر بھی پھل دینے لگی۔اسکی خاصیت جس سے بہت کم لوگ واقف ہیں یہ ہے کہ اس خاص سیب کو صبح خالی پیٹ کھانے سے انجائنا بلڈ پریشر اور دل کے جملہ امراض سے افاقہ ہوتا ہے اور اگر یہ مرض نہ ہوں تو اسکا جوس دل کو طاقت دینے کے ساتھ جگر کو مضبوط کرتا ہے اور جسم میں تازہ خون بناتا ہے جس کی وجہ سے انسان ایسی توانائی محسوس کرتا ہے جیسے خون کی بوتل لگانے سے محسوس ہوتی ہے۔ اب رخشی کی چھوٹی بہن فریحہ سے غلطی یہ ہوئی کہ اس نے سیب کے ساتھ اس کے پتوں کا بھی جوس نکال دیا جو اسے پتہ نہیں چلا۔
سیب کے جوس کا گلاس پلاتے ہی رخشی کی دوست ہالہ نے ماں جی کے چہرے کی مالش شروع کر دی۔۔۔
۔۔سر پر زیتون کے تیل کی مالش کے بعد ان کے چہرے پر پسے ہوئے شہد کے چھتے کا ماسک لگایا اور انہیں پندرہ منٹ سونے کی تلقین کی گئی تو ماں جی فوراً لمبے خراٹے بھرنے لگیں کیونکہ تیل کی مالش کے ساتھ ساتھ رخشی نے ماں جی کے ہاتھوں اور پاؤں پر ہلکے گرم زیتون کے تیل کی مالش بھی کر دی تھی۔ باہر درجہ حرات نقطہ انجماد سے بیس سیٹی گریڈ نیچے تھا۔اندر آتش دان میں شعلے بھڑکاتی لکڑیاں گھر کو گرم کیے ہوئے تھیں۔ایسے مین دونوں سہیلیاں کریم کافی کی چسکیاں لیتی ہوئی مزے سے خوش گپیوں میں مصروف ہو گئیں۔رخشی سبز مخملیں لانگ شرٹ میں ملبوس اوپر ہلکا سبز اسکارف میں تھوڑی تھوڑی دیربعدماں جی کو دیکھ لیتی جو آرام کرسی پر برفانی بھالو کی کھال کا بناقیمتی گرم کمبل اوڑھے مزے سے سو رہی تھیں۔ ماں جی بیس منٹ کے بجائے پون گھنٹے تک سوتی رہیں۔مگر جب اٹھ کر انہوں نے منہ دھویا تو حیرت انگیز نتائج دیکھنے کو ملے ماں جی کا چہرہ بالکل کھلا کھلا اور ایسے فریش لگ رہا تھا جیسے کوئی پچھترسالہ نہیں بلکہ پنتالیس سالہ صحت مند عورت ہو۔
رخشی ہنس کر بولی ماں جی آپ نے زلیخا کی بڑھاپے میں جوان ہونے کی کہانی تو سنی ہو گی نا۔۔۔یہ دیکھیں۔۔اس نے آئینہ آگے کر کے کہا
دیکھیں آپ چہرے کی مالش سے کتنی جوان ہو گئی ہیں۔یہ زیتون کے تیل کی مالش تھی۔۔ماں جی نے حیرت سے استفار کیا ۔۔۔جی جی بلکل۔۔۔۔ ہاں یہ تو ہے ہی نری شفاء جی جی ۔جو بھی ماں جی کو دیکھتا حیران رہ جاتا ماں جی آپ کتنی جوان لگ رہی ہیں ۔۔۔ہاں بیٹا یہ سب زیتون کے تیل کا کمال ہے۔۔۔۔
ماں جی اب چلیں آپ سائیکل چلائیں گی ۔۔۔ رخشی بڑے لاڈ سے ماں جی کے گلے میں بانہیں حمائل کرتے ہوئے بولی۔۔۔۔اری چل کیا میری ہڈیاں تڑوانی ہیں وہ غصے سے بولیں ۔۔مجھے کب آتی ہے ۔۔۔۔اچھا تو پھر سومنگ ہی کر لیں وہ بڑے دلارسے بولی۔۔۔وہ تو آتی ہے نا۔۔۔آپ ہی نے تو بتایا تھا کہ آپ کا گھر دریا کے کنارے تھا۔۔ہاں وہ تو میں بچپن سے ہی تیرتی تھی انہوں نے وفور شوق سے بتایا۔پھر پرانی یادوں کو تازہ کرتے ہوئے بتانے لگیں کہ جب میں سات آٹھ سال کی تھی میری اما جی دریا پہ پانی بھرنے جایا کرتی تھیں تب میں اپنی سہیلیوں کے ساتھ کمر کے بل دریا میں تیرتی اور اماں جی کے دوپٹے میں مچھلیاں پکڑا کرتی تھی۔رخشی نے فوراً سیلفی بنا کر اپنی بہن کو بھیجی اور فون پر پوچھا یدکھی ماں جی کی تصویر۔۔۔اس کی بہن کہنے لگی ہاں یہ کب کھینچی مجھے تو یاد نہیں چلیں اندازہ لگائیں ۔۔۔۔
میرے خیال سے تمہاری شادی پہ لی ہو گی مگر میں نے نہیں دیکھی۔۔۔اچھا ٹھیک ہے پھر رخشی ادھر ادھر کی باتیں کرنا شروع ہو گئی۔فون رکھ کر واپس آئی تو اسکی ترکش دوست حیرت میں بھری بیٹھی ماں جی کو دیکھے جا رہی تھی۔ساتھ ساتھ کہتی جاتی حیرت انگیز۔۔۔۔ ناممکن ۔۔۔۔کیا ہوا ؟؟رخشی نے استفار کیا ۔۔۔۔یہ دیکھو رخشی تمہاری ماں جی میں کیا زبردست تبدیلی آئی ہے۔میں نے آج تک صر ف ماسک لگانے سے ایسی تبدیلی نہیں دیکھی۔مجھے ایسا لگتا ہے کہ پچھلے دو گھنٹوں میں تمہاری ماں جی کے جسم میں ایک زبردست تبدیلی آئی ہے جس کا تعلق ماسک اورمالش سے نہیں۔ہاں میرا تو کام ہی یہی ہے تم یہ بتاؤ تم نے ماں جی کو آج کون کون سی دوا کھلائی ہے۔اس نے ماں جی کے بیگ سے ساری دوائیں نکالیں اس میں ملٹی وٹامن اور بلڈ پریشر کی دوا تھی جو انہوں نے لی تھی۔نیند کی دواء وہ کبھی کبھی رات کو لیتی تھیں۔رخشی کی دوست مطمئن نہ ہوئی کہنے لگی ماں جی سے پوچھو اور انہوں نے کیا کھایا تھا۔ماں جی نے بتایامیں روز صبح پانی پہ اللہ کی کلام دم کر کے پیتی ہوں۔ترکش دوست ہالہ پھر بھی مطمئن نہ ہوئی۔گوری چٹی ہالہ اپنی بھوری آنکھوں میں حیرتیں سمیٹے ماں جی کو دیکھ رہی تھی۔جن کی آنکھوں کے گرد ڈھیلی جلد اب تن چکی تھی اور آنکھوں میں چمک بڑھ گئی تھی۔سفید رنگت والی جلد اب تن کر جھریوں سے آزاد ہو چکی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہالہ کہنے لگی میں سات سال سے بیوٹی پارلر چلا رہی ہوں اگر لوگ صرف ایک مرتبہ ماسک لگانے سے اس درجہ تک جوان نظر آنے لگیں تو پھر تو میں چلا چکی پارلر۔۔۔پھر ہمارے پاس کوئی کیوں آئے گا دوبارہ۔۔۔تم بتاؤ اس کے علاوہ کیاکھلایا تم نے اپنی ماما کو۔۔ذرا ذہن پہ زوردو۔۔۔۔مارے تجسس کے ہالہ کی دودھیاء رنگت سرخ ہوتی جا رہی تھی جیسے آج اس پر بہت بڑا انکشاف ہونے والا ہے جسی وہ ضرور کھوج نکالے گی۔۔اچانک اسکی نظر ماں جی کی سائڈ ٹیبل پر پڑی اس نے رخشی سے پوچھا اس میں کیا تھا؟؟یہ تو جوس تھا سیب کا۔۔۔اس نے بے دلی سے کہا۔۔۔ہوں مجھے جوس کی مشین دکھا سکتی ہو۔ہالہ نے پر خیال انداز میں کہا۔۔۔ہاں دیکھ لو رخشی قدرے بیزاری سے بولی۔۔۔۔ہالہ کچن میں گئی سیب کی مشین کا پھوک دیکھا کچھ خاص نہیں بس چھلکے اور برادا سا تھا۔اتنے میں اسے وہاں ایک عدسہ نظر آیا جو رخشی اکثر مصالحے چیک کرنے کے لیے استعمال کرتی تھی۔ہالہ نے جلدی سے وہ عدسہ اٹھا کر سیب کے جوس نکلے چھلکوں کو دیکھا تو اسے اس میں سبز پتوں کے ذرات بھی نظر آئے،پھر اسکی ٹوکری میں رکھے سیبوں پر بھی نظر پڑ گئی۔آن واحد میں ذہن میں ایک جھماکا سا ہوا اور معمہ حل ہو گیا۔۔ماں جی کے چہرے کی شادابی کا اصل راز نہ تو ماسک میں تھا نہ خالی سیب کے جوس میں بلکہ ان پتوں میں جو غلطی سے سیبوں کے ساتھ پس گئے تھے۔ایک حیرت انگیز دریافت بلکل پنسلین کی طرح جو اچانک لیبارٹری میں دریافت ہو گئی تھی۔
پھر رخشی کی دوست ہالہ کو یہ جان کر خوشی کی انتہاء نہ رہی کہ وہ سیب کا نایاب درخت اس کی دوست کے باغ میں لگا ہے۔مگر رخشی کو وہ درخت بچانے کی فکر پڑگئی کیونکہ اسکی دوست اس کے سیب پروفیشنل مقاصدکے لیے استعمال کرنا چاہتی تھی ۔جس کی وہ اسے اجازت نہیں دے سکتی تھی۔اس لیے کہ اس طرح تو مقامی معاشرے کے سارے بوڑھے جوان ہو جاتے اور اولڈ ہاؤسز کا کاروبار ہی ٹھپ ہو جاتا۔وہ اپنے ملک کو اتنا بڑا نقصان نہیں پہنچا سکتی تھی جس کی آمدن کا بڑا حصہ انہی اولڈہاؤسزکے مرہون منت تھا۔اس لیے وہ ہالہ کا منہ بند کرنے کی ترکیبوں پر غور کرنے لگی۔۔۔۔۔۔۔۔بلکہ ابھی تک کر رہی ہے۔۔۔۔کیا خیال ہے ؟؟آپ کے پاس ہے کوئی ترکیب تو پلیز اس بیچاری کی مدد کر دیں ۔۔ورنہ ورنہ ۔۔۔پتہ نہیں کیا ہو جائے۔۔۔۔رخشی نے بڑی مشکل سے ہالہ سے جان چھڑائی۔اور خوشی خوشی اپنے بچوں کو اکٹھا کر لیا۔ماں جی کو جو بھی دیکھتا حیرت زدہ رہ جاتا۔ہر ایک کی خواہش تھی کہ ماں جی اس کے ساتھ کھیلیں کوئی بیڈ منٹن کی دعوت دیتا کوئی سومنگ پہ چلنے کو کہتا ۔۔۔تو کوئی شاپنگ کی دعوت دے رہا تھا۔رخشی کی سب سے چھوٹی بیٹی نے جلدی سے چچا کو فون کیا۔۔۔اس کی سانس خوشی کے مارے پھول رہی تھی۔ فون چچی نے اٹھایاوہ بولی چ۔۔۔ چچ۔۔۔چچی وہ ماں جی ۔۔۔۔ہائے کک کیا ہوا ۔۔۔ماں جی کو ۔۔مم میرا تو دل آگے ہی ۔۔۔چچی کا دل دھک سے رہ گیا۔چچی ۔۔۔۔ ماں جی جوان ہو گئیں۔۔۔۔ہیں کیا ؟؟چچی کو ایک اور دھچکا لگا۔۔۔۔شرم نہیں آتی بڑوں سے مذاق کرتے ہوئے۔۔۔۔۔آپ خود آ کے دیکھ لیں۔۔۔۔شام تک تمام رشتہ دار رخشی کے گھر میں یوں اکٹھے ہو گئے لگ رہا تھا جیسے پارٹی پہ آئے ہوں۔۔۔۔۔جودیکھتا حیران ہی رہ جاتا۔۔۔۔طرح طرح کے تبصرے ہو رہے تھے۔ماں جی کے چھوٹے بیٹے نے کہا اگر ابا اس وقت زندہ ہوتے تو کیاکہتے ۔۔۔ارے کیا کہتے کہتے چلو صفو چلیں ہنی مون پہ۔۔۔۔ دوسرا بولا۔ہیں یہ کون سی جگہ ہے؟؟ماں جی حیرت سے بولیں۔۔کیا تم یہاں گئے ہوئے ہو؟؟؟ہاں ہانگ کانگ میں تو تمہارے ابا گئے تھے کیا یہ بھی وہیں کہیں۔۔۔بس یہ سننا تھا تو سب کھلکھلا کے ہنس پڑے۔بڑا پوتا دونوں بازو پھیلا کے بولا اگر ابا زندہ ہو گئے تو وہ یوں کہتے۔۔۔۔اس نے بازو پھیلاتے ہوئے ایک گھٹنا زمین پہ ٹیکتے ہوئے لہک لہک کر گانا شروع کیا۔۔۔
دنیا میں پیار کرنے ہم آ گئے دوبارہ۔۔۔۔۔ماں جی غصہ میں آ گئیں جلدی سے بولیں ۔۔ذرا جوتا پکڑا میں اسے ٹھیک تو کروں شرم نہیں
آتی۔۔۔یہ سن کر سات سالہ مائرہ بھاگ کر شوز ریک پر سے ایک سینڈل اٹھا کر ماں جی کو پکڑانے لگی۔۔۔۔جتنی دیر اس نے جوتا ڈھونڈنے میں لگائی ماں جی نے حلوہ کھانا شروع کر دیا۔۔۔
گھر بھر میں خوب رونق تھی۔۔۔ماں جی کی اولاد تو بہت خوش تھی اس حیرت انگیز کرشمے پر مگر بہوئیں اور داماد کچھ پریشان سے ادھر ادھر چہ مگوئیاں کرتے پھر رہے تھے۔ادھر رخشی کو فکر ستا رہی تھی کہ وہ یہ خبر اخباری نمائندوں سے کیسے چھپائے مگر اس سے بھی بڑا ایک مسلہء اوربھی درپیش تھا۔۔۔۔فکر کے مارے اس کے رخسا دہکنے لگے تھے۔۔
جاری ہےپراسراربوڑھا
قسط نمبر ۴
شازیہ عندلیب
ڈرائنگ روم کے کونے والے صوفے پر ماں جی کے چاروں بہوئیں اور بیٹے سر جوڑے دھیمی آواز میں گفتگو کر رہے تھے۔موضوع سخن ماں جی کی نا گہانی جوانی تھی۔جس سے بہوئیں اتنی خوش نہ تھیں مگر بیٹوں کے چہرے پر ایک حیران کن سی خوشی پھیلی تھی۔گفتگو کے ساتھ ساتھ گرما گرم چائے کا دور بھی چل رہا تھا۔چوکور شیشے کی میز پر خشک میوے چاکلیٹ کیک سموسے پڑے تھے ۔جبکہ ایک باؤل میں ماں جی کے ہاتھ کا بنایا ہوا گرما گرم سوجی کا حلوہ بھاپ دے رہا تھا۔ڈرائنگ روم کے وسط میں عین فانوس کے نیچے قالین پر بیٹے ٹی وی پر کوئی گیم کھیل رہے تھے۔ساتھ ہی پیالوں میں رکھے پاپ کورن اور چاکلیٹس کھا رہے تھے۔لڑکیاں کچن میں آئس کافی تیار کر رہی تھیں جس کی رومانوعی مک پورے گھر کو مہکا رہی تھی۔
صوفے پر بیٹھی بڑی بہو بڑ بڑائی آگے ہماری ساس کیا کم جوان تھیں جو ماں جی بھی اس مقابلے میں شریک ہو گئیں۔اب یہ نئی خاتون بھی جوانی چڑہنے لگی ہیں۔اب ان کے نخرے کون اٹھائے گا؟ایک ہماری ساس ہیں ہر کام میں جوانوں سے بھی آگے ہیں۔شادی ہماری وئی ہنی مون پہ لندن یہ چل پڑیں۔کسی فنکشن پہ جانا و سجنے سنورنے میں یہ سب سے آگے۔۔کوئی نیا فیشن آیا انہوں نے سب سے پہلے کرنا ہے ۔۔بس کسی دوڑ میں پیچھے نہ رہ جائی کہیں۔۔۔اونہہ۔۔۔۔۔ میرا تو اسی لیے اب ذیادہ سجنے سنورنے کا دل ہی نہیں کرتا۔ارے بھئی دل جوان ہونا چاہیے دل۔۔۔چھوٹے بھیاء چلغوزہ چھیلتے ہوئے بولے۔۔۔
ارے چھوڑیں بھی آپ بھی کیا ساس بہو کی آؤت آف ڈیٹ باتیں لے بیٹھیں۔۔۔۔۔اب تو نئے زمانے میں ساس بہو تو سہیلیوں کی طرح رہتی ہیں۔۔۔اور کیا ۔۔۔اب تو سائنس دانوں نے بھی یہ تحقیق کر لی ہے کہ وہی شادی شدہ عورتیں خوش رہ کتی ہیں جو اپنی ساسوں سے دوستی کر کے رکھیں۔۔فیروزی ریشمی لبا س میں ملبوس درمیانی بہونے چہک کر کہا تو سب مسکرا ٹھے۔
ہاں یہ ہوئی نا بات بڑے بھیا مسکرا کر بولے۔بس اب تم ماں جی کو ہ رروز اپنے ساتھ شاپنگ پر اور ویک اینڈ پہ گھمانے لے جایا کرنا۔۔۔۔اور رہ گئی بات جوانی اور صحت کی تو یہ کسی کی میراث نہیں۔۔۔یہ اللہ کی دین ہے جب چاہے جسے چاہے دے۔۔۔۔۔پاس بیتھی رخشی جو ادھر ہی کان لگائے بیٹھی تھی چمک کر بولی۔
ہاں مگر گئی جوانی اور حسن لوٹ کر نہیں آتا۔بڑی بہو بدستور سنجیدی سے بولی۔۔۔۔جی ہاں ویسی جوانی اور حسن تو شائید نہ آ سکے مگر پہلے سے ذیادہ حسن تو آ سکتا ہے ۔۔۔۔۔اب یہی دیکھ لیں جتنی بھی پرانی انڈئن فلماسٹارز بلکہ پاکستانی فنکار بھی ہیں شو بز کیاب اپنی جوانی سے ذیادہ خوبصورت نظر آتے ہی۔مثلاً مسرت نذیر بابرہ شریف اور بشریٰ انساری۔ادھر انڈینفنکاروں کو دیکھو تو شبانہ اعظمی اور زینت امان کے حسن تو جوانوں کو بھی پیچھے چھوڑدیا۔۔۔۔
اونہ بڈھی ماسیاں کہیں کی۔۔ یہ سب سرجری کی وجہ سے ہے ۔۔۔۔بڑی بہو منہ ہی منہ میں بڑ بڑائی۔۔۔بھئی ہمیں کیا جوانی چاہے سرجری سے آئے یا جادو سے بس آگئی اسب قبول کرو اسے اللہ اللہ تو خیر صلا۔۔
ہاں بئی ہماری ماں جی جوان ہو گئیں ہمارے لیے تو یہی خوشی کی بات ہے۔دوسرے نمبر کا بیٹا ہنس کر بولا اور تیسرے نے ماں جی کے گلے میں بانہیں حمائل کر دیں۔ہماری اماں کی جوانی کو نظر نہ لگے۔۔۔۔بس بیٹا یہ سب دم والا پانی پینے سے ہوا ہے۔۔۔۔ارے نہیں ماں جی یہ دم والے پانی سے نہیں فیشل سے ہوا ہے۔۔۔۔ماں جی پہ جوانی آ گئی پر سمجھ نہیں آئی۔چھوٹے بھیا نے ہنس کر کا تو چھوٹی آپا بولیں ارے ماں جی نے فیشل کیا ہے پی ایچ ڈی نہیں کی ۔۔۔تم تو ایسے کہہ رہے و جیسے یہ سب تمہاہی تو کمال ہے نا۔۔۔تمہیں سیر سپاٹوں سے فرصت ملے تو تب نا۔ارے آپا چھوڑیں آپ بھی کیا لے بیٹھیں۔چھوٹے بھیا گردن کھجلاتے ہوئے بولے۔ہاں پی ایچ ڈی تو اب آپ کریں۔بلکہ تھیسس لکھیں ستر سال کی عمر میں سترہ سال کی صحت اور جوانی کے نسخے۔۔۔ٹھہر جا میں بتاتی ہوں آپی نے اسے کشن مارنا چاہا تو اس نے سرنیچے کر لیا۔سب ہنس پڑے
سر دبرفیلی شام ڈھل کر طویل رات میں داخل ہو رہی تھی۔سب پنچھی اپنے اپنے گھونسلوں کو لوٹ گئے تھے۔رخشی نے برتن سمیٹ کر مشین میں لگائے اور سب مہمان ایک ایک کر کے جانے لگے۔سب کو رخصت کر کے ماں جی نے نماز پڑہی اور جلد ی نیند کی آغوش میں چلی گئیں۔آج بہت عرصے بعد انوں نے بہت طویل اور میٹھی نیند لی۔
دوسری صبح رخشی جاب کے لیے بس اسٹاپ کی جانب روانہ ہوئی۔ابھی وہ وہاں پہنچ کر رکی ہی تھی کہ دور سے اسے وہی پر اسرار بوڑھا نظر آیا۔۔۔۔سخت سردیکے باوجود رخشی کے جسم سے پسینہ پھوٹ پڑا۔۔۔پچھلی ملاقات اور اسکا ایڈرس یاد کر کے اس کے جسم میں ایک خوف کی لہر سرائیت کر گئی۔اس نے دوسری جانب دیکھا تو بس آ چکی تھی وہ جلدی سے بس میں بیٹھ گئی اور اسٹاپ پہ کھڑے بوڑھے کی جانب دیکھنے لگی۔

اپنا تبصرہ لکھیں