قسط نمبر ۔۔ 5
شازیہ عندلیب
یہ ماہ مئی کا ایک چمکدار دن تھا۔کئی روز کے دھندزدہ آسمان سے آج سورج نے منہ نکالا تھا۔ناروے میں ایسا موسم کسی نعمت سے کم نہیں سمجھا جاتا۔جس روز ناروے کے آسمان پر سورج پوری آب و تاب سے چمکے لوگ ایسے نہال ہوتے ہیں جیسے کسی بھی خوشی کے تہوار پر۔اس خوشی میں یہ لوگ اپنے گھروں سے باہر نکل آتے ہیں۔بازار اور مارکیٹیں ویران ساحل اور ریستوران آبادہو جاتے ہیں۔کچھ مہم جو لوگ تو سورج سے روشن دن میں پہاڑوں پر مہم جوئی کے لیے نکل پڑتے ہیں۔غرض یہ کہ یہاں مقامی لوگ سورج نکلنے کی خوشی ایسے مناتے ہیں جیسے پاکستان میں لوگ بجلی آنے کی خوشی مناتے ہیں۔خیر اپنا اپنا دیس اپنی اپنی خوشیاں۔۔۔۔۔۔
مئی کے اس چمکدار دن میں صبح کے نو بجے ہی سورج نکلنے کی وجہ سے بھری دوپہر کا سماں بندھا تھا ۔کیونکہ دنیا کے اس خطے میں دن طویل اور شامیں طویل ترین اور رات انتہائی مختصر ہو جاتی ہے۔ یہاں سورج آدھی رات کے کچھ بعد یعنی سوا چاربجے کے قریب نکل آتا ہے اور رات کے دس سے گیارہ بجے تک غروب ہوتا ہے۔ایک ایسے ہی سنہرے دن میں رخشی حسب معمول اپنے ریسرچ پراجیکٹ کی تکمیل کے لیے ایک دورافتادہ قصبے کمبو کی جانب ٹرین میں عازم سفر ہوئی۔اس نے اپنی گاڑی ریلوے اسٹیشن کی پارکنگ میں کھڑی کی اور خود اسٹیشن پر ٹرین کا انتظار کرنے لگی۔ اسٹیشن پر لگی اسکرین پر ٹرین کی آمد کا ٹائم لکھا تھا۔ابھی ٹرین کی آمد میں چھ سات منٹ باقی تھے۔اس نے اپنے آس پاس کھڑے مسافروں پر طائرانہ نظر ڈالی۔رخشی کے بائیں جانب کھڑی ایک چائنز عورت جس کے سیاہ کالے بال دھوپ میں خوب چمک رہے تھے۔اس پر اس کا آف وائٹ ٹراؤزر اور پیور وائٹ شرٹ خوب موسم گرماء میں خوب بہار دے رہا تھا۔وہ اپنے ساتھ اچھلتی کھیلتی چار سالہ چائنز گڑیا جیسی بچی کو نو نو کر کے شرارتوں سے باز رکھنے کی کوشش کر رہی تھی۔ہلکے گرین پھولدار ٹرائزر اور شیفون کی شرٹ میں ملبوس رخشی کو یہ منظر بہت اچھا لگ رہا تھا۔وہ بڑی محویت سے چائنز ماں بیٹی کو سن گلاسز کی اوٹ سے دیکھ رہی تھی۔اسکی محویت اس وقت ٹوٹی جب تین سو میل فی گھنٹہ کی رفتار سے چلنے والی ببجلی کی ٹرین نہائیت خاموشی سے پلیٹ فارم پر رکی ۔تمام مسافر میکانکی انداز میں ٹرین کی جانب بڑھنے لگے۔اس سے پہلے کہ ٹرین کے خودکار دروازے بند ہو جاتے رخشی لپک کر ٹرین کے اندر داخل ہو گئی۔
ٹرین پر روانگی کا پیغام نشر ہو چکا تھا ۔اس نے اپنی بے ترتیب سانسیں درست کیں۔ٹرین کی دیوار سے منسلک پلاسٹک کی ٹرے کھولی تو وہ ایک میز بن گئی۔اس نے اپنا کمپیوٹراس پہ رکھا اور آج کے لیے سروے اسائنمنٹ چیک کرنے کے بعد اپنا ای میل باکس کھولا۔انٹر نیٹ پر اس کے پاس کئی نارویجن اور اردو ریسرچ اور ادبی فارمز کی ممبر شپ تھی۔اردو فورم میں کچھ لوگ بہت ایکٹو اور خوش اخلاق تھے
وہ ایسے ممبرز کی تحریریں ضرور پڑہتی تھی۔مگر تنگ نظر لوگوں کی نہیں۔۔
کیونکہ اس کے نزدیک قلم تو ایک امانت ہے۔اس لیے اپنی تحریریں بلا وجہ کسی کی تضحیک اڑانے کے لیے یا دل آزاری کے لیے استعمال کرنا اس کے نزدیک انتہائی گھٹیا فعل تھا۔البتہ امریکہ اور آسٹریلیا اور دوبئی کی کچھ خواتین اور دوسرے لکھاریوں کی تحریریں بہت متاثر کن تھیں جو کہ ان کی روشن خیالی اعلیٰ تعلیم و تربیت اور خلااقی ماحول سے تعلق کی عکاسی کرتی تھیں۔اپنا ان باکس چیک کرنے کے بعد اس نے نارویجن اخبار پڑھنا شروع کیا۔اس سے فارغ ہو کر رخشی نے کمپیوٹر بند کیا اور اپنے آس پاس کا جائزہ لیا تو وہ یہ دیکھ کر ٹھٹھک گئی کہ وہی پر اسرار بوڑھا اپنی بیوی کے ساتھ سامنے والی سیٹ پر براجمان تھا۔بوڑھا اخبار پڑھنے میں مصروف تھا۔ نیلی اسکرٹ اور ریشمی گلابی بلاؤز میں ملبوس اس کی بیوی نے بڑی خوش مزاجی سے رخشی کو ہیلو کہا ۔تھوڑی دیر بعد بوڑھے نے بھی اخبار سے نظریں ہٹا کر اسے ہائے کہا۔بوڑھے سے منسوب پر اسرار خیالات و واقعات یاد کر کے رخشی کی پیشانی عرق آلود ہو گئی۔اس نے گھبرا کر ٹرین کی کھڑکی سے باہر سبزاہ زاروں کے بھاگتے نظاروں میں پناہ ڈھونڈنی چاہی۔ٹرین شہر کی سرحدیں پار کر کے نفاست سے تراشے ہوئے کھیتوں کھلیانوں اور شاداب ہرے بھرے جنگلوں میں سے گزر رہی تھی۔
بوڑھے کی بیوی رخشی سے مخاطب ہوتے ہوئے اس کے لباس کی تعریف کرنے لگی۔جواب میں رخشی نے بھی اس کی آسمانی اسکرٹ اور پنک بلاؤز کی تعریف کی۔پھر اخلاقاً اس سے پوچھا کہ آج کہاں کے ارادے ہیں تو وہ بڑی خوشی سے بولی کل میرے پاپا کی پچانویں سالگرہ ہے اسی کی تیاری کے سلسلے میں ہم لوگ شاپنگ کرنے جا رہے ہیں۔سالگرہ منانے کے سوا تو انہیں کوئی کام ہی نہیں رخشی نے کھڑکی سے باہر دیکھتے ہوئے سوچا۔پھر جلدی سے مسکرا کر خوشی کا اظہار کیا۔اس نے خوش اخلاقی کا مطاہرہ کرتے ہوئے پوچھا کہاں منا رہے ہیں آپ یہ سالگرہ؟تو بوڑہی عورت جیسے ا سکے خیالات بھانپ گئی تھی بولی ہمارا خاندان بہت بڑا ہے ہر دوسرے روز کوئی نہ کوئی سالگرہ کی یا شادی وغیرہ کی تقریبات ہوتی رہتی ہیں۔ہم لوگ اپنے ابا کی سالگرہ بحری جہاز پہ منائیں گے۔سب اپنی اپنی گاڑیاں بحری جہاز کی پارکنگ میں کھڑی کر کے جرمنی جانے والے جہاز میں سوار ہوں گے۔وہاں رات کے بارہ بجے فنکشن ہال میں پورا خاندان جو کہ نوے افراد پر مشتمل ہے جمع ہو کر کیک کاٹے گا۔اس وقت بحری جہاز کی ساتوں منزلوں پر ہمارے باپ کی سالگرہ کی خبر سنائی جائے گی اور سب مبارکباد کہیں گے۔۔۔اوہ۔۔۔کیا شاندار سالگرہ ہے۔۔۔۔۔ یہ تو لگتا ہے بڑے میاں کی بارات یا ولیمہ ہے ۔۔۔۔۔رخشی نے زچ ہو کر سوچا۔رخشی نے اس خیال سے کہ اس کی ماں تو چل بسی ہو گی اس عورت سے اس کے بارے میں پوچھا تو وہ عورت چہکتے ہوئے بولی میری ماں کے گھٹنوں میں بہت عرصے سے تکلیف تھی۔ڈاکٹر نے اسے تیراکی کا مشورہ دیا۔تیراکی کے ایک برس بعد نہ صرف اسکے گھٹنوں کا درد غائب ہو گیا بلکہ اسی سال اس کی ماں نے بڑی عمر کے لوگوں کی اولمپک گیمز میں تیزدوڑ کا مقابلہ بھی جیت لیا۔۔۔اچھا تو وہ عورت اسکی ماں تھی ۔۔رخشی اسکاجواب سن کر ہکا بکا رہ گئی۔رخشی جلدی سے سنبھل کر بولی ہاں وہ میں نے ٹی وی پہ دیکھا تھا اچھا تو وہ آپ کی مما تھیں۔۔ہاں ہاں وہی لمبی سی اورتم نے میرے پاپا کا ہائی جمپ کا مقابلہ دیکھا؟؟اس نے استفار کیا ۔۔۔نن ۔۔نہیں۔۔یہ دیکھو اس نے جلدی سے موبائل کی اسکرین اس کے آگے کر دی جس میں ایک بوڑھا آدمی ہائی جمپ لگا رہا تھا۔۔۔جمپ لگانے کے بعد وہ گدے پر یوں چاروں شانے چت گر پڑا جیسے اب نہیں اٹھے گا۔۔۔۔مگر وہ چند لمحوں بعد ہی کشتی والے پہلوان کی طرح اٹھ کھڑا ہوا۔اس عمر میں بھی انہیں یہ کھیل کود سوجھتے رہتے ہیں ۔۔رخشی سوچنے لگی۔ہم بوڑھے لوگ اسی میں خوش رہتے ہیں اس بوڑھے نے اخبار سمیٹتے ہوئے یوں کہا۔جیسے اس نے اس کے خیالات پڑھ لیے ہوں۔رخشی دل ہی دل میں شرمندہ سی ہو گئی۔اس کی بیوی نے مزید کہا گرمیوں میں ہم لوگ گرل پارٹی پر سب دوستوں کو بلاتے ہیں بہت مزہ آتا ہے۔ہمارے چیری کے کھیت ہیں۔جب فصل پکتی ہے ہم دوستوں کی پارٹی کرتے ہیں اور مل کر چیریز توڑتے ہیں بہت مزہ آتا ہے۔یہ سن کر رخشی کے منہ میں پانی بھر آیا ۔۔تم بھی آنا اس نے اسے دعوت دے ڈالی۔۔ہاں ہاں کیوں نہیں رخشی نے وعدہ کر لیا۔محض اس کا دل رکھنے کے لیے کیونکہ وہ دل میں اس پر اسرار بوڑھے سے بہت ڈری ہوئی تھی۔۔۔۔
جاری ہے
دلوں کو گرما دینے والی دلچسپ روداد۔۔
پر اسرار بوڑھا