شازیہ عندلیب
ادھر چھوٹے ماموں نے موبائل میں ایک وڈیو ایک بھتیجے کو دکھائی تو وہ حیران ہو کر بولا اوہ چچا یہ یہ واقعہ کب پیش آیا۔باقی سب بھی چونک گئے۔شہر یار نے وڈیو دوبارہ دکھائی تو سب بہت حیران ہوئے کیونکہ وڈیو میں شہر یار اور مہک سر عام ایک دوسرے کی تعریف کر رہے تھے وہ بھی آمنے سامنے۔جبکہ شادی کے چند برسوں بعد ہی اکثر جوڑے ایک دوسرے خامیاں گنوانا شروع کر دیتے ہیں۔یہ بہت عجیب بات تھی۔اس طرح کی خلاف روائیت باتیں سب کو پسند نہیں آتیں۔اس لیے کچھ لوگوں کے چہرے پر ناگواری بھی تھی۔
خیر اسی طرح سب رات گئے گپ شپ کے بعد رات ڈھلے نیند سے بوجھل آنکھوں کے ساتھ اپنی خواب گاہوں کی جانب چل دیے۔ایک بھرپور پر لطف محفل گزارنے کے بعد سب بہت گہری اور خوشگوار نیند کے مزے لوٹے۔دوسری صبح اپنے دامن میں ڈھیروں مسرتوں کے ساتھ چمکیلے سورج کے جلو میں طلوع ہوئی۔
دوسری صبح سب ناشتے سے فارغ ہوئے اور خاندان میں شادیوں کا موضوع چل نکلاادھر چھوٹے ماموں نے موبائل میں ایک وڈیو ایک بھتیجے کو دکھائی تو وہ حیران ہو کر بولا اوہ چچا یہ یہ واقعہ کب پیش آیا۔باقی سب بھی چونک گئے۔شہر یار نے وڈیو دوبارہ دکھائی تو سب بہت حیران ہوئے کیونکہ وڈیو میں شہر یار اور مہک سر عام ایک دوسرے کی تعریف کر رہے تھے وہ بھی آمنے سامنے۔جبکہ شادی کے چند برسوں بعد ہی اکثر جوڑے ایک دوسرے خامیاں گنوانا شروع کر دیتے ہیں۔یہ بہت عجیب بات تھی۔اس طرح کی خلاف روائیت باتیں سب کو پسند نہیں آتیں۔اس لیے کچھ لوگوں کے چہرے پر ناگواری بھی تھی۔۔ممانی نے پوچھا کہ کیا بات ہے یہ چھوٹی بھابی کی بیٹی کی پیدائش پر آپ لوگ اسے دیکھنے کیوں نہیں گئے۔یہ سن کر ایک بھتیجے نے کہا کہ اصل میں ان سے خاندان میں کوئی ملتا ہی نہیں۔ وہ کیوں ممانی نے حیرانی سے پوچھا۔
فہد نے بتایا اس لیے کہ اسکی شادی پسند کی ہوئی تھی اور ہمارے خاندان میں پسند کی شادی کو اچھا نہیں سمجھا جاتا۔
کیا کہا تم نے ہمارے خاندان میں پسندکی شادی کو اچھا کیوں نہیں سمجھا جاتا؟ اس بات کی تو ہمارا مزہب اسلام اجازت دیتا ہے پھر اس بات کو اچھا کیوں نہیں سمجھا جاتا؟
بس لوگ پسند نہیں کرتے فہد منہ بنا کے بولا۔
اچھا تو لوگوں کا ڈر ہے اللہ کا ڈر نہیں ہم کیسے مسلمان ہیں کہ جس چیز کا حق ہارا اللہ ہمارا دین دیتا ہے وہ بات ہمیں پسند نہیں۔یعنی لوگ اللہ سے نہیں دوسرے لوگوں سے ڈرتے ہیں۔ کیا کہنے بھئی اچھا تو میری اور تمہارے انکل کی شادی پسند کی ہوئے ہے پھر کیا اسی لیے مجھے بھی خاندان میں اچھا نہیں سمجھا جاتا۔
جی ہاں۔فہد کے منہ سے بے ساختہ یہ جواب نکلا جسے سن کر مہک ہکا بکا رہ گئی۔ وہ اسکا منہ ہی دیکھتی رہ گئی اور وہ بڑی بے نیازی سے چائے کے گھونٹ بھرنے لگا۔یہ بات سن کر مہک کو بہت دکھ ہوا۔ وہ سوچ میں پڑ گئی کہ یہ ہمارا معاشرہ کیسا ہے جو ایک جائز کام کو برا سمجھتا ہے۔نہ جانے کتنے لوگ اپنی مرضی کے خلاف شادیاں کر کے اپنی زندگیاں جہنم بنا دیتے ہیں۔لوگ جھوٹی انا کی خاطر دوسروں کی زندگیاں برباد کر دیتے ہیں۔اور ایسے لوگوں کے لیے آگے بھی جنت ملنے کی امید بہت کم ہے جو اس دنیا میں اس کائنات کے مالک کے حکموں کو جھٹلاتے ہیں اور زمینی خداؤں اور جھوٹی اناؤ کی ذیادہ پرواہ کرتے ہیں۔پھر ان کی اس نا پسندیدگی اور جبری شادی کا خمیازہ کون بھگتتا ہے؟ کسے یہ حساب چکانا پڑتا ہے؟ معاشرے پر اسکے کیا اثرات پڑتے ہیں؟ یہ کون بتائے گا؟ کون سوچے گا؟ کس کا فرض ہے ان سب سے آگاہی دینا؟ یہ ہمارے علماء، ہمارے معاشرے کے تعلیم یافتہ لوگ اور رہبر اس زبردستی کی اور نا پسند کی
شادی کے رجحان پر لوگوں کو اسلام اور انسانیت کی رو سے آگاہ کریں۔یہ انکا فرض ہے۔کہ وہ معاشرے کے پسماندہ طبقات کو آگاہی دیں کہ ہمارا دین کیا کہتا ہے؟
آج کے معاشرتی تقاضے کیا ہیں؟
پھر لوگوں کو شعور دیں کہ جبری شادی کا خمیازہ کسے بھگتنا پڑتا ہے؟
ہماری آنے والی نسلوں کو، جب ایک ماں اپنے دل دماغ میں کسی اور کی محبت بسا کر پرورش کسی اور کے بچے کی کرتی ہے اس وقت وہ معاشرے کو ٹوٹے ہوئے دل کے ساتھ ایک ناکام شخصیت والے بچے فراہم کرتی ہے۔ایسی ماں اپنے بچوں کی نہ صرف اچھی تربیت نہیں کرتی بلکہ وہ دوسرے ہنستے مسکراتے جوڑوں خاص طور سے اپنی ایسی بھابھیوں اور بہوؤں کو خوش نہیں دیکھ سکتی جن کی شادی پسند کی ہوئی ہو۔اسے ایسی عورتوں سے نفرت ہوتی ہے جو اپنے شوہروں کے ساتھ خوشحال زندگیاں گزارتی ہیں۔اسکا دماغ ہر وقت دوسروں میں فساد ڈالنے میں مصروف رہتا ہے۔آپ کو ایسی مثالیں ہر خاندان میں ملیں گی۔
اس طرح یہ فارمولہ سامنے آتا ہے۔
جبری شادی جمع خراب ازدواجی تعلقات جمع بچوں کی خراب تربیت برابر ہے معاشرتی بگاڑ
جبری شادی + خراب ازدواجی زندگی+ ساس بہو کا جھگڑا + بدتمیز بچے = خراب معاشرہ
جبکہ پسند کی شادی جمع پر سکون ازدواجی زندگی جمع خوشگوار گھریلو ماحول برابرفلاحی معاشرہ
لیکن سب خواتین اور مرد ایسی منفی سوچ نہیں رکھتے۔ بلکہ کچھ لوگ شادی بیاہ کو تقدیر کا لکھا سمجھ کر دل و جان سے اپنے جیون ساتھی کو قبول کرتے ہیں اور اپنے فرائض ہر طرح سے نبھاتے ہیں اس طرح انکی زندگی کا سفر خوشگوار گزرتا ہے اور ایسے لوگوں پر اللہ کی رحمت بھی خوب برستی ہے۔اب یہ ہر کسی کا زاتی فعل ہے کہ وہ اپنے مثبت روئے سے اپنے رب کو راضی کرے یا پھر منفی سوچ اور گھٹیا رویوں سے شیطان کو راضی کرے اور حسد کی آگ میں جل کر اپنی نیکیوں سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے
جبکہ اسلام نے واضع طور پر پسند کی شادی کی اجازت دی ہے جیسا کہ اس حدیث نبوی سے
بات واضع طور پر سمجھی جا سکتی ہے جس میں نبی پاک کا فرمان ہے کہ
کنواری عورت سے اپنے نفس کے معاملے میں اجازت لی جائے
اور اسکی اجازت اسکا خاموش رہنا ہے۔
جاری ہے۔۔۔۔۔
ماشاءالّلہ بہت احسن انداز میں شادی جیسے اہم موضوع کی اہمیت کو واضح کیا گیا ہے ۔خاص کر پسند کی شادی کے بارے میں ہماری سوسائٹی کی سوچ کی نشاندہی کرنا
طاہرہ فردوس صاحبہ
تحریر سراہنے کے لیے ۤآپ کا بہت شکریہ یہ ۤپ کا ذوق نظر ہے جو حوصلہ افزائی کا باعث ہے۔
جزاک اللہ