اور گلاب خون میں نہا گئے
عابدہ رحمانی
میں پسینے میں شرابور تھی ، دل بری طرح دھڑک تھا اچانک میری آنکھ کھلی -عجیب ڈراؤنا بلکہ دل دہلانے والا خواب تھا –میں ایک خوبصورت گلابوں سے بھرے باغ میں کھڑی ہوں ایسا حسین منظر ہے کہ میری نظر نہیں ہٹتی -اچانک سارے گلابوں سے خون بہنے لگا ایسا جیسے کہ خون کے فوارے ابل پڑے– خون سے میں بھی بری طرح نہا گئی —
میں اٹھ کر بیٹھ گئی صفدر بے خبر سورہے تھے –میں نے تین مرتبہ اعوذباللہ پڑھا اور بائیں جانب تین مرتبہ تھوکا — آیت الکرسی پڑھی رات کے تین بجے تھے–بجلی چلی گئی تھی بجلی سے چلنے والا ہیٹر بند ہو گیا تھا ، یو پی ایس چل رہاتھا – میں خاموشی سے بچوں کے کمرے میں گئی اقراء اور اسد سے لحاف سرک گیا تھا –میں نے دونوں کو لحاف اوڑھا دی –سردی آجکل بڑھ گئی ہے کمرے کافی ٹھنڈے ہوتے ہیں — شام کو کچھ دیر کیلئے ہیٹر جلادیا تھا –پھر اظہر کے کمرے میں دیکھا اسکا لحاف بھی درست کیا عجیب آڑا ترچھا لیٹا ہواتھا – اقراء کو دو روز سے بخار آرہاتھا اسکا ماتھا چھوا پسینہ آیا تھا اور بخار اتر گیا تھا– اسے تو صبح اسکول نہیں بھیجنا تھا –
بچوں کےیونیفارم استری کرکے لٹکے ہوئے تھے دونوں کیلئے دو روز پہلے ہی سویٹر اور بلیزر خرید کر لے آئی تھی- بچے تیزی سے بڑے ہورہے تھے پچھلے سال والے چھوٹے ہوگئے دکان میں اسٹاک ختم ہوگیا تھاغنیمت ہے کہ ممیں نے پہلے سے آرڈر دیا تھا–بوٹ پا لش ہو چکے تھے فوجی زندگی کے یہی تو مزے ہوتے ہیں –کپڑے استری ، جوتے پالش–
بابا کے کمرے کی لائٹ جل رہی تھی وہ تہجد کیلئے اٹھے ہونگے – کل رات وہ کھانے کے بعد سقوط ڈھاکہ کی باتیں کرتے رہے انکا تو چشم دید تبصرہ تھاڈھاکہ کے پلٹن میدان میں جنرل نیازی نے جب جنرل ارورہ کے سامنے ہتھیار ڈالے بابا کی آنکھوں میں آنسو آگئے آواز میں رقت تھی- پاکستان اور پاکستانی فوج کیلئےانتہائی ہزیمت اور ایک عظیم ترین المیہ تھا -یہ سب المیے بھلائے نہیں جاسکتے- موجودہ پاکستان کی آزمائشیں کب ختم ھونگی ایک نہ ایک سلسلہ چلتا رہتا ہے — جب مکتی باہنی تھی اب طالبان ہیں– بابا جنگی قیدی بن گئے تھے دو سوا دو سال بھارت کے فوجی کیمپ میں رہے–
بچوں کو میں نے سو نے بھیج دیا صبح اسکول جلدی جانا ہوتا ہے –ٹی وی پر سڈنی میں چاکلیٹ کیفے کا معرکہ چل رہاتھا- آئے دن ایک سے ایک قتل و غارتگری کی خبریں ، طبیعت اور مضمحل ہوجاتی ہے-
کوشش کے باوجود مجھے نیند نہیں آرہی تھی طبیعت عجیب پریشان سی تھی شاید اس خواب کا اثر تھا -میں خاموشی سے لیٹ گئی ڈیڑھ سال پہلے ہی کھاریاں سے ہمارا تبادلہ پشاور ہوا تھا –صفدر کو وزیرستان میں پوسٹ کردیا تھا ہر وقت جان پر بنی رہتی اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ادا کیا کہ واپس اپنے یونٹ میں آگئے– اقراء اسدن میرے ساتھ بیٹھی خبریں دیکھ رہی تھی ،” مما یہ دہشت گرد کیا ہوتا ہے –اور یہ خود کش بمبار- یہ کیسا monsterہوتا ہے ؟” میں اسے سمجھانے کی کوشش کرنے لگی اور میں نے چینل بدل دیا – ہمارے بچے اسی ماحول میں بڑے ہو رہے تھے – صفدر کہتے ،” فوجی کے بچے ہیں انکو سب کچھ معلوم ہو نا چاہئے – لیکن مجھے گھبراہٹ ہوتی -شاید میں اتنی بہادرنہیں تھی–
فجر کیلئے بچوں کو جگا دیا ، یوں بھی انکی اسکول روانگی کا وقت ہونے والا تھا -سردیوں میں یہی تو فائدہ ہے فجر دیر تک ہوتی ہے- صفدر بھی تیار ہورہے تھے- اظہر اور اسد بھی تیار ہورہے تھے– ملازم کو ناشتے کی ہدایات دیکر میں انکے بیگ درست کرنے لگی آج اظہر کی فرسٹ ایڈ کی کلاس تھی پھر ٹیسٹ تھا – اسد بیٹا تمہاری maths کی کاپی کہاں ہے ؟
تینوں باپ بیٹا تیار ہوکر ناشتے کی میز پر آئے اظہر ماشاءاللہ قد میں باپ کو پہنچنے والاتھا-بابا دیر سے ناشتہ کرتے ہیں -میں انکے ساتھ چائے کی پیالی لیکر بیٹھ گئی -اقراء اٹھے گی تو اسے دوائی پلاکر ناشتہ ساتھ کرلینگے–
ایک مرتبہ میرے دل میں ایا کہ صفدر کو اپنا خواب بتا دوں -لیکن انہیں پریشان کرنیسے کیا فائدہ –
صفدر بچوں کو ہدایات دینے لگے –بیٹا چھٹی کے بعد جلدی باہر آجایا کرو مجھے گاڑی اور ڈرائیور کی ضرورت ہوتی ہے — اظہر کہنے لگا مما آج چاکلیٹ پڈنگ بنایئے گا اسد کی فرمایش چکن کارن سوپ اور فرائیڈ رائس کی تھی- میں نے دونوں بچوں کو پیار کیا صفدر آواز دے رہے تھے
اسد کی ٹائی درست کی– شال لپیٹی اور انکو خدا حافظ کہنے باہر آئی –بچوں کا سکول ہماری پچھلی روڈ پر تھا -اکثر تو انکی اسمبلی کی آواز بھی آجاتی —
اس روز صفدر بابا سے کہنے لگے” بابا اللہ نے چاہا تو بچوں کو اعلٰے تعلیم دلانے باہر بھیجونگا -” مجھے تو سنکر عجیب گھبراہٹ ہونے لگی-
اقراء جاگ گئی ، اسے دوائی پلائی اور ہم دونوں ناشتہ کرنے لگے اسکے گلے میں کافی درد تھا -بمشکل اسنے دو چار نوالے کھائے، میں نے اسے دوبارہ لٹایا اور خود بھی اسکے پاس لیٹ کر اخبار پڑھنے لگی–اکرم کچن میں کام کر رہاتھا —
یہ آوازیں ، شور یہ دھماکے ، تڑ تڑ فائرنگ شاید میں کوئی خواب دیکھ رہی ہوں –رابعہ رابعہ اٹھو بیٹا یہ بابا کی آوازتھی رابعہ یہ تو پچھلی گلی سے آواز آرہی ہے اللہ خیر کرے —
میں چیخ مار کر آٹھی فون کی گھنٹی بجی جارہی ہےمیرا موبایل بھی بج رہاہے– بابا کہہ رہے ہیں اسکول پر حملہ ہو گیا ہے — ” بابا میرے گلاب ، میرے بچے مجھے ہوش نہیں میں سر پٹ بھاگتی جا رہی ہوں –خون خون میرے چاروں طرف خون -خون کے فوارے اور میرے گلاب خون میں نہاگئے —-
ALLAH aasani kare humein aainda aise halaat se bachae,,,,,,,,, lawahiqeen ko maun ko sabar de, WO har cheez par QADIR hai, dil hila dya is tehreer ne