تحریر شازیہ عندلیب
امبر پلیز بولو۔۔۔منہ کھولو امبر۔۔۔۔مگر امبر نے اپنا گورا گلابی منہ سختی سے بند کیا ہوا تھا۔شہزینہ کتنی دیر سے امبرکی منتیں کر رہی تھی کہ وہ بولے مگر امبر نے تو گویا نہ بولنے کی قسم کھا رکھی تھی۔شہزینہ کو سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ وہ امبر کا منہ کیسے کھلوائے۔معاً اسے خیال آیا کہ کہیں اس کے دانت تو نہیں بھنچ گئے مگر پھر یاد آیا کہ جب پڑوس کی خالہ خیرن کے دانت عین اس وقت بھنچ جایا کرتے تھے جب ان کے سسرالی رشتہ دار آتے تھے۔سب کہتے تھے کہ خالہ جی کو دندل پڑ گئے ہیںبلکہ دندلوں کا دورہ پڑ گیا ہے۔ اس دوران انکا چہرہ سختی سے بھنچ جاتا تھا مٹھیاں بھی بھنچ جاتی تھیں۔یہ دورہ اس وقت تک جاری رہتا جب تک انکاشوہر کسی حکیم یا پیر کو دم کے لیے نہ لاتا۔جیسے ہی ان کے سسرالی رشتہ دار جاتے انکی زبان قینچی کی طرح چلنے لگتی۔مگر امبر کا تو گورا گلابی چہرہ پچکنے کے بجائے پھولتا جا رہا تھا۔ اسلیے یہ جو کچھ بھی ہے دندل کا دورہ نہیں ہو سکتا۔خالہ خیرن ایک چالیس سالہ گھاگ عورت اور امبر ایک چار سالہ گول مٹول معصوم اور پر کشش بچی جو کہ کنڈر گارٹن میں پڑہتی تھی۔بہت ہنس مکھ اور خوش اخلاق بچی تھی۔کھیل کود اورنظمیں پڑھنے میں آگے آگے ہوتی تھی۔سب بچے اور ٹیچرز اس سے بہت پیارکرتے تھے۔مگر آج جانے وہ قائدے کے پہلے سبق میں الف مد آ سے آم کیوں نہیں پڑھ رہی تھی۔اس کی ٹیچرشہزینہ نے پوچھا،کہیں منہ میں چاکلیٹ تو نہیں۔امبر نے اپنی ریشمی پونی ٹیل زور سے ہلا کر انکار میں سر ہلایا ۔مگر منہ سے بولی نہیں۔شہزینہ نے اور بچوں کو بھی پڑہانا تھا وقت گزر رہا تھا۔مگر امبر نہیں بول رہی تھی۔بالآخر شہزینہ نے اسے ڈانٹ کر کہ ااگر بولو گی نہیں تو میں تمہیں پلے روم میں نہیں بھیجوں گی میں۔شہزینہ کی دھمکی کامیاب ہو گئی۔یہ سن کر بے اختیار امبر نے اپنامنہ کھول دیا اور بولی آم۔۔۔ مگر۔۔۔۔۔۔یہ کیا!!!! اس کے منہ میں بھرا پانی کتاب پر گر گیا جو آم کا نام سن کر بھر گیا تھا۔