پکا ایمان

حبیب اشرف صبوحی

 


 

پکا ایمان

میری والدہ صاحبہ بڑی عبادت گزار اور اللہ پر توکل کرنے والی، بڑی سلیقہ شعار اور با ہمت خاتون تھیں۔ والد صاحب کی تنخواہ بہت کم تھی، لیکن والدہ صاحبہ نے اس مختصر تنخواہ میں بھی ہم بہن بھائیوں کی تعلیم و تربیت کی اور کبھی اللہ سبحانہ‘ و تعالیٰ کی ناشکری نہیں کی۔ میں اپنی والدہ صاحبہ کے چند واقعات لکھ رہا ہوں، جن سے ان کی عظیم شخصیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ میرے والد صاحب ڈاک خانے میں ملازم تھے۔ بڑی قلیل تنخواہ تھی، بس گزر بسر کسی نہ کسی طریقے سے ہو رہی تھی۔ والدہ صاحبہ اکثر والد صاحب سے کہتی تھیںکہ اگر کسی مہینے گھر کے اخراجات سے کچھ پیسے بچ جائیںتو گھر کا فلاں فلاں کام ہو جائے، لیکن اخراجات ہر مہینے کسی نہ کسی وجہ سے بڑھ جاتے تھے۔

ایک روز والد صاحب شام کو دفتر سے گھر آئے اور والدہ صاحبہ کو خاموشی سے ایک بڑی رقم دی اور کہا ’’یہ رقم اپنے استعمال میں لائو اور جتنے بھی کام رکے ہوئے ہیں، کر لو۔ یہ سب رقم تمہاری ہے۔ ماضی کے جتنے بھی گلے شکوے ہیں اور خواہشات ہیں، اس سے پوری کر لو۔‘‘

والدہ صاحبہ نے خوشی سے پوچھا ’’اتنی بڑی رقم کہاں سے آئی ہے؟‘‘

والد صاحب نے بتایا ’’آج ایک صاحب آئے تھے، کافی دیر میرے پاس بیٹھے رہے، جب جانے لگے تو یہ رقم میرے پاس بھولے سے چھوڑ گئے۔ میں نے یہ رقم چھپا لی۔ کچھ دیر بعد وہ صاحب گھبرائے ہوئے میرے پاس آئے اور کہا ’’ میں اپنا ایک تھیلا جس میں کچھ رقم تھی، یہاں تو نہیں بھول گیا؟‘‘

میں نے کہا ’’آپ کہیں اور بھول آئے ہوں گے۔ تو وہ صاحب چلے گئے۔‘‘

والدہ صاحبہ کو جب یہ معلوم ہوا کہ یہ رقم اس طریقے سے آئی ہے تو ایک دم ان کا رنگ غم اور پریشانی سے سفید ہو گیا۔ وہ والد صاحب سے کہنے لگیں ’’تم نے اتنی بڑی بے ایمانی کیسے کی؟‘‘ یہ بات تمہیں زیب نہیں دیتی۔ میں یہ رقم نہیں لوں گی، اس رقم کو واپس کر کے آئو۔‘‘

والد صاحب نے کہا ’’اس عمل کا گناہ اور ثواب میرے ذمے ہے، بس تم اس رقم کو استعمال کرو۔‘‘

والدہ صاحبہ نے بڑی سختی سے انکار کیا اور کہا ’’میں یہ رقم استعمال نہیں کروں گی۔ میرا ضمیر گوارا نہیں کرتا۔‘‘

جب والد صاحب نے دیکھا کہ وہ بہت زیادہ پریشان ہو گئی ہیں توکہا ’’میں مذاق کر رہاتھا اور تمہیں آزمانا چاہتا تھا۔ دراصل آج ڈاک خانے کی گاڑی نقد رقم لینے نہیں آئی۔ اس وجہ سے میں یہ رقم گھر لے آیا کہ کہیں ڈاک خانے سے رقم چوری نہ ہو جائے۔ یہ سرکاری امانت ہے۔ صبح واپس لے جائوں گا۔‘‘ والدہ صاحبہ نے سنا تو سکھ کا سانس لیا اور رقم حفاظت سے رکھ لی۔

نانی کا اٹیچی کیس

دوسرا واقعہ یہ ہے کہ ایک بار والدہ صاحبہ ایک شادی میں شرکت کے لیے لاہور سے کراچی گئیں۔ اپنے کپڑے، شادی میں دینے کے لیے زیور اور پیسے ایک اٹیچی کیس میں رکھ لئے۔ جب کراچی کے ریلوے اسٹیشن پر پہنچیں تو دیکھا کہ اٹیچی کیس غائب ہے۔ وہ بڑی پریشان ہوئیں۔ معلوم یہ ہوا کہ جب صبح اذان کے وقت ٹرین حیدرآباد پہنچی تو ایک فیملی جو لاہور سے بیٹھی تھی، جلدی میں اپنے سامان کے ساتھ والدہ صاحبہ کا اٹیچی کیس بھی لے گئی۔

والدہ صاحبہ کہنے لگیں ’’مجھے اللہ پر بھروسا ہے کہ میرا سامان اِن شا ء اﷲ مل جائے گا۔‘‘

میرا بھانجا اسٹیشن پر والدہ صاحبہ کو لینے آیا ہوا تھا، اس نے کہا ’’میں حیدرآباد جاتا ہوں۔ آپ مجھے اٹیچی کیس کی چابی دے دیں۔ میں اِن شاء اﷲ آپ کا سامان واپس لے کر آتا ہوں۔‘‘ میری والدہ نے کہا کہ اس فیملی نے یہ بتایا تھا کہ اگلے روز ان کے بھائی کی شادی ہے۔ ان کا بھائی ڈاکٹر ہے اور لطیف آباد میں ان کی رہائش ہے۔

میرا بھانجا حیدر آباد دوسرے روز پہنچا اور اپنے ایک دوست کے گھر گیا اور اس سے کہا کہ ایک فیملی ہماری نانی کا اٹیچی کیس لے آئی ہے، میں وہ واپس لینے آیا ہوں، تم میری مدد کرو۔

دوست نے کہا ’’ہم صبح لطیف آباد میں تمام ڈیکوریشن والوں کے پاس جاتے اور ان سے پوچھتے ہیں کہ آپ نے کسی ڈاکٹر صاحب کے گھر دعوتی سامان پہنچایا ہے۔‘‘

صبح کو وہ دونوں اپنے مشن پر نکلے اور تمام ڈیکوریشن والوں سے معلوم کیا، لیکن کچھ معلوم نہ ہو سکا۔ دوسرے روز وہ لطیف آباد کے تمام نکاح خواہوں سے ملے اور پوچھا کہ آپ نے کسی ڈاکٹر صاحب کا نکاح پڑھایا ہے؟ آخر ایک نکاح خواں نے بتایا کہ میں نے فلاں پتے پر ایک نکاح پڑھایا اور لڑکا ڈاکٹر ہے۔ یہ لوگ نکاح خواں سے ڈاکٹر کا پتا لے کر اس کے گھر گئے اور پوچھا کہ کیا آپ کے کچھ رشتے دار لاہور سے فلاں ٹرین سے فلاں وقت پر آئے ہیں؟

ڈاکٹر صاحب نے بتایا ’’ہاں آئے ہیں۔‘‘

میرے بھانجے نے کہا کہ وہ غلطی سے اپنے سامان کے ساتھ میری نانی کا اٹیچی کیس بھی لے آئے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے چونک کر کہا ’’لائے تو ہیں، آپ کے پاس کیا ثبوت ہے کہ وہ اٹیچی کیس آپ ہی کا ہے؟‘‘

میرے بھانجے نے اٹیچی کیس کی چابی ان صاحب کو دی اور کہا ’’اسے لگا کر دیکھ لیں، اگر یہ چابی اٹیچی کیس کو لگ جاتی ہے تو وہ ہماری ہے اور اس میں فلاں فلاں سامان بھی ہے۔‘‘

ڈاکٹر صاحب نے اٹیچی کیس میں جب چابی لگائی تو وہ لگ گئی، اس لئے انھوں نے اٹیچی کیس میرے بھانجے کو دے دیا۔ اس طرح وہ اٹیچی کیس با حفاظت والدہ صاحبہ تک پہنچ گیا، یہ ان کا اللہ پر بھروسہ، نیک نیتی اور حق حلال کی کمائی کا نتیجہ تھا کہ سامان بخیریت مل گیا۔

والدہ، برقع اور پرس

ایک بار ایک عزیز کی شادی کے سلسلے میں والدہ صاحبہ کو لے کر پرل کانٹی نینٹل ہوٹل جانے کا اتفاق ہوا۔ وہاں ہمارے ایک قریبی عزیز ملنے آئے۔ انھوں نے والدہ کو ایک بڑی رقم دی اور کہا کہ یہ امانت ہے اور جب مجھے ضرورت ہو گی میں لے لوں گا۔ جب تقریب ختم ہوئی اور ہم واپسی کے لئے کار پارکنگ میں آئے تو والدہ صاحبہ گاڑی میں بیٹھنے سے پہلے اوڑھنے کے لئے برقع درست کرنے لگیں اور اپنا پرس جس میں کافی رقم تھی، ایک سکوٹر کی سیٹ پر رکھ دیا۔ برقع ٹھیک کرنے کے بعد انھیں پرس اٹھانا یاد نہ رہا اور وہ گاڑی میں بیٹھ گئیں۔ جب آدھا رستہ طے ہو گیا تو میں نے ایک جگہ پٹرول بھروانے کے لئے گاڑی روکی۔ پٹرول ڈلوایا تو میں نے والدہ صاحبہ سے کہا کہ آپ اپنے پرس میں سے کچھ پیسے دے دیں۔ اس پر انھیں یاد آیا کہ وہ اپنا پرس تو وہیں بھول آئی ہیں جہاں انھوں نے برقع درست کیا تھا۔

میں نے پریشانی سے کہا ’’اس میں تو کافی رقم تھی، اب وہ پرس کہاں ملے گا۔‘‘

وہ کہنے لگیں ’’مجھے اللہ کی ذات پر اُمید ہے کہ وہ پرس کہیں نہیں جائے گا۔‘‘  جب ہم آدھے گھنٹے بعد وہاں پہنچے تو دیکھا کہ پرس اسی جگہ اسکوٹر کی سیٹ پر رکھا ہوا تھا اور رقم بھی پوری تھی حالانکہ اس دوران بے شمار لوگ کار پارکنگ میں آئے ہوں گے، لیکن کسی کی پرس پر نظر نہیں پڑی۔ اسے اللہ تعالیٰ کی خاص مہربانی سمجھ لیں۔

مجھے کس بات کی فکر ہے؟

ایک اور کردار جس نے مجھے بہت متاثر کیا وہ میرے دفتر میں کام کرنے والے چاچا عزیز تھے۔ وہ گذشتہ چھ سات سال سے میرے آفس میں ایک چوکیدار کی حیثیت سے کام کر رہے تھے۔ ان کے ساتھ چار چوکیدار اور بھی تھے۔ یہ چوکیدار مجھ سے سفارشیں کراتے اور مجھ سے پوچھتے کہ صاحب! ہماری نوکری کب پکی ہو گی اور ہمارا مستقبل کیسے روشن ہو گا؟ لیکن چاچا عزیز نے نہ تو کبھی مجھ سے یہ بات پوچھی اور نہ کبھی سفارش کروائی۔

میں نے ایک دن چاچا عزیز سے پوچھا ’’آپ نے مجھ سے کبھی نوکری کے بارے میں نہیں پوچھا اور نہ اپنے پکے ہونے کی کبھی سفارش کروائی۔‘‘

اس سوال پر انھوں نے جو جواب دیاوہ میں کبھی نہیں بھولوں گا۔ انھوں نے کہا ’’صاحب! اللہ تعالیٰ جہاں رحیم و کریم ہے وہاں رزاق بھی ہے۔ رزق دینے کا کام اس نے اپنے ذمے لے رکھا ہے، لہٰذا ہم کون ہوتے ہیں کہ اس کے کام میں دخل دیں۔ اگر اس نے رزق میں کمی کرنی ہو گی تو کر دے گا اور اگر بڑھانا ہو گا تو بڑھا دے گا۔ میری عمر 50سال ہو گئی ہے۔ آج تک میں بھوکا نہیں سویا۔ میری ساری ضرورتیں پوری ہو جاتی ہیں۔ مجھے کس بات کی فکر ہے؟‘‘

چاچا عزیز کا یہ جواب سن کر میں اتنا متاثر ہوا کہ بتا نہیں سکتا۔ ایک غریب اور ان پڑھ شخص کا اللہ تعالیٰ پر اتنا بھروسا اور اتنا ایمان۔

اتنی زیادہ تنخواہ اور سہولتیں میسر ہونے کے باوجود ہم پریشان اور تنگ دست رہتے ہیں اور اضافے کی خواہش رہتی ہے۔ کتنے آسودہ ہیں وہ لوگ جو قناعت پسند ہیں اور اللہ سبحانہ‘ و تعالیٰ پر توکل رکھتے ہیں اور اللہ تعالیٰ بھی ان کو مایوس نہیں کرتے۔

اُس شخص کو کیسے بھول جائوں

کافی عرصے پہلے کی بات ہے کہ میں آٹا اور ضروریاتِ زندگی کی دیگر چیزیں خریدنے بازار گیا تو میں سوچنے لگا کہ اگر کوئی مزدور مل جائے اور یہ سامان اٹھا کر میرے گھر تک چھوڑ آئے تو مسئلہ حل ہو جائے۔ میں مزدور کو تلاش کرتا رہا۔ آخر میں ایک مزدور جیسے آدمی کو ایک دکان پر بیٹھا ہوا دیکھا۔ میں نے اسے بتایا کہ کچھ سامان اٹھا کر فلاں جگہ پہنچانا ہے اور سامان کی تفصیل بھی بتا ئی۔ وہ خاموشی سے اٹھ کر میرے ساتھ چل دیا اور سامان اٹھا کر میرے گھر چھوڑ دیا۔ میں نے اس کی مزدوری ادا کرنی چاہی تو اس نے پیسے لینے سے انکار کر دیا۔ میں نے یہ خیال کیا کہ شاید پیسے کم ہیں۔ اوپر سے گرمی کا موسم اور رمضان کا مہینا بھی ہے۔ میں نے اس کی مزدوری دگنی کر دی۔ اس بار بھی اس آدمی نے انکار میں سر ہلایا۔ تیسری بار  میں نے۳        ؍ گنا زیادہ پیسے دینے چاہے اور سوچا کہ یقینا اب وہ انھیں خوشی سے قبول کر لے گا، لیکن میری حیرت کی انتہا نہ رہی، جب اس نے تیسری بار بھی پیسے لینے سے انکار کر دیا۔

اب مجھے اس پر غصہ آگیا۔ میں نے کہا ’’بھائی! میں تمہاری اجرت   سے  3  گنا پیسے زیادہ دے رہا ہوں، لیکن تم پھر بھی خوش نہیں ہو۔ آخر تم چاہتے کیا ہو؟‘‘

اس آدمی نے جواب دیا ’’بھائی میں مزدور نہیں ہوں۔ میں تو صرف خدمتِ خلق کے ایک جذبے سے کام کرتا ہوں۔ آپ نے کہا کہ یہ سامان اٹھا لو، میں اٹھا لایا۔ یہ پیسے کسی حاجت مند کو دے دیجئے گا۔‘‘

دوسرے روز جب میں بازار گیا تو میں نے اس دکان دار سے پوچھا، جس کی دکان پر وہ مزدور بیٹھا ہوا ملا تھا کہ وہ شخص کون تھا۔ اس نے مجھ سے اجرت نہیں لی اور خدمتِ خلق کے جذبے کے تحت میرا کام کیا۔

دکان دار نے بتایا ’’وہ شخص ہمارے گائوں کا امیر ترین آدمی ہے۔ اس میں خدمتِ خلق کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے۔ وہ ہر شخص کے کام آتا ہے اور ضرورت مندوں کی مالی مدد بھی کرتا ہے۔ طبیعت میں انتہائی انکسار اور عاجزی ہے، اس لئے وہ کپڑے بھی بہت معمولی پہنتا ہے، تاکہ تکبر نہ آجائے۔ اس کے دروازے ہر ضرورت مند کے لئے ہمیشہ کھلے رہتے ہیں۔‘‘ دکان دار سے یہ باتیں سن کر میں بڑا حیران اور متاثر ہوا اور سوچتا رہا کہ اس نفسا نفسی کے دور میں ایسے انسان کا ہونا کسی نعمت سے کم نہیں ہے۔ میں اس شخص کو کبھی نہیں بھول سکتا۔

دہشت گرد عورت

یہ آج سے تقریباً سولہ سترہ سال پہلے کی بات ہے کہ میرے ایک عزیز نے امریکا سے میرے لیے ائیر فریشنر بھیجے۔ اس وقت تک پاکستان میں ائیر فریشنر کا رواج نہیں تھا اور نہ کوئی اسے جانتا تھا۔ ائیر فریشنرکے ڈبوں پر بڑے خوب صورت نقش نگار بنے ہوئے تھے۔ ہم نے انھیں اپنے گھر میں استعمال کیا اور ان کے ڈبے کچرے میں ڈال دیے۔ صبح ملازمہ آئی تو اس کوڑے کو باہر لے جا کربڑے کچرے کے ڈرم میں پھینکنے لگی تو اسے وہ نقش نگار والے ڈبے بہت پسند آئے۔ اس نے باقی کوڑا تو پھینک دیا، لیکن وہ ڈبے نہیں پھینکے اور انھیں ایک کالے پولی تھین بیگ میں لپیٹ لیا۔ پھر اس پیکٹ کو ہمارے گھر کے سامنے لگے ہوئے پودوں میں چھپا کر رکھ دیا۔

ہماری ایک پڑوسن جو کہ سامنے گھر میں رہتی تھی، اس نے جب دیکھاکہ ایک برقع پوش عورت نہایت تیزی سے آئی اور ایک کالے پولی تھین بیگ میں لپٹی ہوئی کوئی چیز ہمارے گھرکی کیاری میں رکھ کر چلی گئی تو فوراً اس کے ذہن میں خیال آیا کہ یہ کوئی دہشت گرد عورت ہے اور دہشت گردی کی نیت سے یہ پیکٹ رکھ کر گئی ہے۔ اس نے فوری طور پر ہمارے گھر آ کر اطلاع دی کہ فوراً گھر خالی کر دو اور آس پڑوس کے گھروں کو بھی کہا کہ سب لوگ اپنے گھر خالی کر دیں۔ پورے محلے میں دہشت پھیل گئی۔ ہر شخص پریشان ہو گیا۔ اس زمانے میں بم دھماکوں کے واقعات اکثر ہو رہے تھے۔ عوام کو مطلع کیا جا رہا تھا کہ اگر کوئی مشتبہ چیز یا کسی شخص کو دیکھیںتو فوری طور پر پولیس کو اطلاع کریں۔ ہماری پڑوسن نے پولیس کو فون کر دیا۔ پولیس نے سول ڈیفنس کے محکمے کو فون کر دیا اور وہاں سے اخبارات کے دفتروں تک یہ خبر پہنچ گئی۔

سول ڈیفنس والوں نے آتے ہی محلے کے تمام گھر خالی کر وا دیے اور کسی نا گہانی آفت اور تکلیف سے بچنے کے لیے سب انتظامات کر لیے۔ اسی دوران وہ عورت برقع پہنے ہوئے تیزی سے ایک گھر سے نکلی۔ اسے دیکھتے ہی ہماری پڑوسن نے نعرہ لگایا کہ یہی وہ عورت ہے، جس نے کیاری میں مشتبہ پیکٹ رکھا تھا۔ اس عورت کو پکڑ لیا گیا۔ اس بے چاری نے گھبرا کر کہا ’’صاحب جی میں تو کام کرنے والی ہوں اور گھروں میں کام کرتی ہوں۔ جب میں کوڑا پھینکنے لگی تو یہ رنگین ڈبے مجھے پسند آئے اور انھیں میں نے ہی بیگ میں لپیٹ کر رکھا تھا۔‘‘

اس بات پر تمام لوگوں پر ہنسی کا دورہ پڑ گیا اور وہ خاتون بہت شرمندہ ہوئیں کہ بغیر تحقیق کے سب کو تنگ کیا۔

آنکھوں پہ یقین نہیں آیا

بچپن کی بات ہے، ہمارے پڑوس میں ایک یتیم لڑکاصفدر اپنے چچا کے پاس رہتا تھا۔ پڑھنے لکھنے کا اسے بالکل شوق نہیں تھا۔ سارا دن پتنگ بازی اور دوسرے فضول کاموں میں گزارتا اور شرارتیں کرتا تھا۔ اس کے چچا اور ان کے گھر والے اس سے بہت پریشان رہتے تھے۔ میٹرک میں دو بار فیل ہونے کے بعد جب تیسری مرتبہ بڑی مشکل سے اس نے میٹرک پاس کیا تو اسے ایک دفتر میں نوکری دلوا دی گئی، چند سالوں کے بعد وہ اپنے چچا کے ہاں سے چلا گیا اور دوستوں کے ساتھ رہنے لگا۔ میری جب بھی اس سے ملاقات ہوتی تو وہ بڑی غیر سنجیدہ باتیں کرتا اور کوئی اچھا تاثر نہیں چھوڑتا تھا۔ پھر سنا کہ اس نے شادی کر لی ہے۔ بیوی بچوں کو لے کر کبھی وہ ہمارے گھر بھی آتا، کبھی کسی تقریب میں اس سے ملاقات ہو جاتی تھی، لیکن اس نے کبھی یہ نہیں بتایا کہ اس کا عہدہ کیا ہے اور وہ کہاں کام کرتا ہے۔ اس کے کپڑے نہایت سادہ اور باتیں بڑی مضحکہ خیز ہوتی تھیں۔ اس کے گھر جانے کا کبھی اتفاق نہیں ہوا۔ میرے علم میں یہی بات تھی کہ اس نے میٹرک سے زیادہ تعلیم حاصل نہیں کی، اس لیے یہی خیال تھا کہ وہ کہیں معمولی عہدے پر ملازم ہو گا۔

چند مہینے پہلے صفدر کی بہن کا راولپنڈی میں انتقال ہو گیا۔ میں نے سوچا صفدر سے تعزیت کی جائے۔ اس کے چچا سے گھر کا پتا معلوم کیا تو انھوں نے بتایا ’’جِم خانہ کلب کے سامنے واپڈا کے ملازمین کے گھر ہیں۔ وہیں جا کر کسی سے پوچھ لینا۔‘‘ جب میں وہاں پہنچا تو دیکھا کہ ایک طرف چھوٹے عملے کے کوارٹرز اور دوسری طرف اعلیٰ افسران کی کوٹھیاں تھیں۔ میں چھوٹے اسٹاف کے کوارٹرز کی طرف گیا اور استقبالیہ سے صفدر کے گھر کا پتا معلوم کیا تو مجھے بتایا گیا کہ وہ بڑی کوٹھیوں کی طرف رہتے ہیں۔ جب میں اس طرف گیا تو وہاں کے استقبالیہ کلرک سے صفدر صاحب کا پتا معلوم کیا۔

اس نے انٹر کام پر صفدر صاحب سے رابطہ کیا اور میرے بارے میں بتایا۔ وہاں سے جواب آیا ’’ان صاحب کو بھیج دو۔‘‘ جب میں اس کے گھر کے قریب پہنچا تودیکھا کہ مین گیٹ پر لگی ہوئی تختی پر ’’مرزا صفدر بیگ، ڈائریکٹر جنرل‘‘ لکھا ہوا ہے۔ مجھے اپنی آنکھوں پہ یقین نہیں آیا کہ جس شخص کو میں ایک معمولی ملازم سمجھ رہا تھا، وہ اتنا بڑا افسر نکلا اور طبیعت میں اتنی سادگی اور انکسار۔ جب میں نے اس سے پوچھا کہ تم اتنے بڑے عہدے تک کیسے پہنچے، کیوں کہ ہمارے زمانے میں آپ صرف میٹرک پاس تھے۔

صفدر نے بتایا ’’جب میں نے نوکری کی تو دفتر میں میرا ایک ساتھی تھا، جو دفتر کے کام سے جیسے ہی فارغ ہوتا تو کورس کی کتابیں پڑھنے لگ جاتا تھا۔ اس نے مجھے بتایا کہ وہ انٹر کا امتحان دے رہا ہے اور اس نے مجھ سے کچھ ایسی باتیں کیں کہ مجھے بھی پڑھائی سے دلچسپی ہو گئی۔ ہم دونوں نے ساتھ ہی انٹر کا امتحان دیا اور اچھے نمبروں سے پاس ہو گئے۔ اس کے بعد ہم مسلسل تعلیم حاصل کرتے رہے اور اللّٰہ کا شکر ہے کہ آج میں اس مقام پر پہنچ گیا ہوں۔‘‘

میں نے اس سے کہا ’’اتنے بڑے عہدے پر ہوتے ہوئے بھی تم نے کبھی تکبر نہیں کیا اور نہ اپنے عہدے کے بارے میں کسی کو بتایا۔‘‘

صفدر نے کہاـ ’’میں ڈائریکٹر جنرل اپنے دفتر میں ہوں اور دفتر سے باہر وہی پرانا صفدر، ایک عام سا شخص، انسان اپنے اخلاق اور کردار سے پہچانا جاتا ہے، عہدے سے نہیں۔‘‘

میں یہ سوچتا ہوں کہ تعلیم سے انسان میں کتنی تبدیلی آ جاتی ہے۔ اس کردار کو میں کبھی نہیں بھلا سکا


زبان اور ادب کی بے لوث خدمت میں مصروف چند ادارے
کسوٹی جد http://www.kasautijadeed.com/cms/
اردو آڈیو اور ویڈیوکا دنیا میں سب سے بڑا ذخیرہwww.urduaudio.com
سہ ماہی اثباتwww.esbaatpublications.com
کمپیوٹرانٹرنیٹ پر مائکروسوفٹ ورڈ میں اور ای میل میں اردو تحریر کے لیےwww.urdu.ca – www.mbilalm.com
http://www.wadi-e-urdu.com/urdu-autobiographies-part-1/
راشد اشرف کی تحریروں کے لیے
http://www.hamariweb.com/articles/userarticles.aspx?id=4760
To read the archiveshttps://groups.google.com/group/BAZMeQALAM/topics

بزم قلم گروپ میں شمولیت کے لیۓ یہاں کلک کیجے

To invite your friends to Bazm e Qalam group http://groups.google.com/group/BAZMeQALAM/members_invite

To UNSUBSCR

اپنا تبصرہ لکھیں