از
راجہ محمد عتیق افسر
28 مئی 1998ء ایک یادگار دن تھا جب پاکستان نے اقوام عالم میں اپنی طاقت کا لوہا منوا یا۔تکبیر کی صدائیںبلند ہو رہی تھیں اور چاغی کے پہاڑ جوہری دھماکوں سے گونج رہے تھے ۔ ہر طرف خوشی کی لہر تھی چہروں پہ ایک دھمک تھی یہاں تک کہ جیلوں میں محبوس قیدیوں نے بھی اپنی خوشی کا بھرپور اظہار کیا۔ خوشی کی اس لہر کو اہل پاکستان نے ہی نہیں بلکہ چاردانگ عالم میں موجود مسلمانوں نے محسوس کیا۔ کرتے بھی کیوں نہ !پاکستان مسلم دنیا کی واحد اور پہلی جوہری قوت بن گیا تھا۔ جب ان خوشگوار لمحات کی یاد آتی ہے تو تاریخ دو صدیاں قبل کے ماضی کو بھی سامنے لے آتی ہے جب انگریز سامراج کے سامنے آخری چٹان بنے شیر میسور سلطان فتح علی خان ٹیپو اپنی سپاہ کے روبرو جلوہ افروز ہیں اور تکبیر کی گونج میں ایک غیر مانوس سی آواز(کشوں۔۔۔۔) آتی ہے ایک آگ کا گولہ ہوا میں بلند ہوتا ہے اور اپنے ساتھ ایک آہنی تلوار کو لیے دو تین میل دور جا گرتا ہے اور تلوار زمین میں پیوست ہو جاتی ہے ۔ یہ آہنی تلوار دنیا کا پہلا راکٹ(میزائل) تھا جو سلطان ٹیپو نے ایجاد کیا تھا۔اسکا نام کشون رکھا گیا اور جلد ہی اسے فوج کے سپرد کیا گیا ۔ اس کے چلانے کی تربیت دی گئی اور اسکے ماہر فوجیوں پہ مشتمل رجمنٹ تیار کر لی گئی ۔ سلطان کی دھاک انگریز سامراج پہ بیٹھ چکی تھی اور سلطان کی شہادت کے بعد بھی انگریزوں کے دلوں پہ قائم رہی ۔ 28مئی کے ایٹمی دھماکوں سے یوں لگا جیسے ٹیپو سلطان کا ادھورا مشن پایۂ تکمیل کو پہنچ گیا ہو ۔اس وقت کے پاکستانی حکمران نے خود انحصاری کا نعرہ لگایا تو قوم اس کی پشت پہ کھڑی ہو گئی ۔ اس موقع پہ وزیر اعظم پاکستان نے علامہ اقبال کا شعر پڑھا تو الفاظ و معانی دل میں اتر گئے اور کیوں نہ اترتے جب تلوار ہاتھ میں تھام کر خود انحصاری کی بات کی جائے تو ناسمجھ بھی سمجھ جاتے ہیں اقبال کا وہ شعر یہ تھا :
اے طائر لاہوتی اس رزق سے موت اچھی
جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی
ابھی دل ودماغ ماضی کو خوشگوار لمحات کو یاد کر رہے تھے کہ تاریخ کے ورق الٹے ہیں اور 4مئی 1799ء کا سیاہ دن سامنے آجا تا ہے ۔ سرنگا پٹم کا شکستہ قلعہ ہے اور گھمسان کی جنگ ہے سلطان کے قلعے میں اندر سے شگاف ڈالا جا چکا ہے توپوں کی گھن گرج ہے اور سلطان اپنی تلوار تھامے انگریز سامراج سے محو جنگ ہے ۔ سلطان کے غلام کی صدا آتی ہے حضور آپ ہتھیار ڈال دیجیئے آپ کی جان بچ جائے گی لیکن جواب آتا ہے “شیر کے ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے ” بظاہر سلطان کے یہ آخری کلمات کسی فلم یا ڈرامے کے ڈائیلاگ معلوم ہوتے ہیں لیکن یہ اخلاق کا مظہر اور مقصد حیات کو بیان کرتے انمول موتی ہیں ۔ سلطان کا معاصر نیپولین بوناپارٹ بھی انگریز کے لیے خار گلو تھا مگر جب قید کی زندگی یاموت میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنے کو اسے کہا گیا تو اس نے قید کی زندگی گوارا کی اور انگریز کی قید میں اپنی بقیا زندگی گزاری جبکہ سلطان تو آزاد پیدا ہوا تھا اور آزاد ہی اس دنیا سے رخصت ہوا۔
جس کی کرنو ںنے کئی مردے جِلائے تھے وہ مہ بام ِ خودی اپنے ہی خوں میں نہا کر ہمیشہ کے لیے امر ہو گیا ۔ لیکن برصغیر پاک و ہند دو سو سال تک انگریز کی غلامی میں پستے رہے دو صدیوں کی غلامی اور ذلت کے بعد اب 28مئی 1998ء کو ہم دوبارہ سر اٹھانے کے قابل ہو ئے ۔ تاریخ کے ان دو سو برسوں نے یہ سبق دیا کہ :
اکیلے پنکھ ہی کافی نہیں پرواز کی حد کے لیے
بھرا ہو حوصلوں سے عقابی اک جگر بھی چاہیے
آپ دنیا کی جدید سے جدید ٹیکنالوجی کے مالک بھی کیوں نہ بن جائیں ، آپ کے حکمران کتنے ہی صاحب تدبر اور صاحب فہم کیوں نہ ہوں ، آپ کو تمام عالم پہ اخلاقی برتری کیوں نہ حاصل ہو لیکن اگر آپ کی صفوں میں ایک بھی میر صادق ہو تو قوم خود کو ذلت اور رسوائی سے نہیں بچا سکتی ۔ آستین کے سانپوں کا قلع قمع انتہائی ضروری ہے ۔ انگریز کو اپنا جبری تسلط قائم رکھنے کے لیے میر صادق کی طرز کے افراد کی ضرورت تھی لہذا انہوں نے میر صادق اور میر جعفر کی پنیریاں لگانا شروع کر دیں اور ایسا نظام تعلیم وضع کیا جو مطلوبہ افراد بہم پہنچا سکے ۔ ہماری بدقسمتی یہی رہی ہے کہ ہم گزشتہ سات دہائیوں سے اس پنیری کوختم نہ کر سکے اور نہ ہی اس نظام تعلیم سے چھٹکارا پا سکے ۔ اسی لیے یہ میر صادق اور میر جعفر ہر ادارے پہ براجمان نظر آتے ہیں ۔ تاریخ کے اوراق پلٹتے ہیں اور ہم واپس اپنے دور میں آ جا تے ہیں ۔ ایک شخص فوجی وردی میں ابھرتا ہے اور منتخب وزیر اعظم کا تختہ الٹ کر اسے قید کر کے خود اس ملک کے سیا ہ و سفید کا مالک بن جاتا ہے ۔ پھر امریکی سامراج ہمارے برادر پڑوسی ملک افغانستان پہ حملہ آور ہوتا ہے تو یہ حکمران ایک فون کال پہ ڈھیر ہو جاتا ہے ۔ اپنے ملک کی سرزمیں اپنے ہی مسلمان بھائیوں کے قتل عام کے لیے سامراج کے حوالے کر دیتا ہے ۔ ہم جو عزت و وقار کے طالب تھے ایک بار پھر بے وقار ہو جاتے ہیں ۔ ہم جوہری طاقت کے ہوتے ہوئے اپنی عفت مآب بہنوں تک کو دشمن کے حوالے کر دیتے ہیں ۔ دانۂ گندم کی خاطر اپنے مسلمان بھائیوں کو نیلام کر دیتے ہیں اور وہ گوانتاناموبے میں رب کے سامنے فریاد کر رہے ہیں ۔ہم اپنی ہی مسجدوں میں قتل عام کر کے اپنے امریکی آقاؤں کو خوس کرتے ہیں ۔ اب وہی شخص عدالت میں سنگین غداری کے مقدمات بھگت رہا ہے اور تاریخ کے اوراق ایک اور میر صادق کے نام کا اندراج کرنے کے لیے عدالت کے فیصلے کے منتظر ہیں ۔
٤ مئی یوم شہادت ٹیپو سلطان اور 28 مئی یوم تکبیر کے ایام ہمیں یہ سوچنے کی دعوت دے رہے ہیں کہ کس طرح ان پنیریوں کو تلف کیا جائے اور ایسا نظام وضع کیا جائے جو ٹیپو سلطان جیسے بطل جلیل پیدا کر سکے ۔ہمیں ااجڑے چمن کو دوبارہ آباد کرنا ہے اور ایسا نظام وضع کرنا ہے جو ٹیپو سلطان جیسے شاہیں پیدا کرے نہ کہ بربادی ٔ چمن کے لیے ہر شاخ پہ الو صفت میر صادق بٹھا دے ۔ اگر ہم جوان نسل کوخود انحصاری اور خودداری پہ مبنی تعلیم و تربیت دینے میں کامیاب ہو گئے تو مستقبل میں ہم تمام تر اقوام عالم میں نمایاں ہوں گے اور اگر ہم نے اس میں غفلت کا مظاہرہ کیا تو ہماری داستان تک نہ ہو گی داستانوں میں ۔ تو پھر آئیے مل کر تعمیر کریں اجڑے گلستان کی ۔
Good effort to drive the direction of thinking in a rightway. I suggest write another column that cover how we change this education system which fullfil our desires as a muslim.