مظفر اعجاز
چند برس پیش تر جماعت اسلامی پاکستان کے سابق امیر قاضی حسین احمد مرحوم نے میڈیا پر بے ہودگی کے خلاف ایک مقدمہ عدالت میں دائر کیا تھا۔ اس وقت اتفاق سے یا اس مقدمہ کی وجہ سے بہرحال دینی جذبے کے تحت انصار عباسی نے بھی ایک کالم ایسے لوگوں کے نام لکھ دیا جو بے ہودگی اور فحاشی پھیلا رہے تھے انصار عباسی کے ساتھ یہ ہوا کہ ان کے کالم ان ہی کے اخبار میں چھپنے سے روکے جانے لگے اور قاضی حسین احمد کا مقدمہ عدالتی نظام کی بھول بھلیوں میں گم ہوگیا ہے۔ ایک آدھ دفعہ بازگشت سنائی دی تھی اس کے بعد ٹی وی اخبارات اور سائن بورڈ پر بے ہودگی پھیلانے والوں کی گویا چاندی ہوگئی اور وہ شتر بے مہار کی طرح سرپٹ دوڑنے لگے ان کو گزشتہ سے پیوستہ برس جماعت اسلامی کی خواتین نے لگام ڈالی اور نہایت دل سوز اور پر اثر طریقے سے جارحانہ مگر نرم گفتگو والی مہم چلائی۔ ان کے بینرز پر یہ عبارت درج تھی کہ
ہم ان تاجروں کو سلام کرتے ہیں جو اپنی پروڈکٹ بیچنے کے لیے اپنی ماں، بہن، بیٹی کو نہیں بیچتے
اس مہم نے وہ اثر ڈالا بہت تیزی سے بے ہودہ سائن بورڈ اترنے لگے ان کی جگہ کچھ بہتر بورڈز نے لے لی اور اب وہ لوگ واضح نظر آنے لگے جو عورت کی تصویر کے بغیر کاروبار کرتے ہیں۔ اگر ہم یہاں کسی کا نام لے لیں تو مناسب نہیں لیکن سب اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں کہ کئی تاجر جو کپڑے بیچتے ہیں کسی تصویر کے بغیر بھی بہت اچھا بزنس کررہے ہیں۔
ایک مرتبہ پھر وہی بے ہودہ سائن بورڈ نظر آنے لگے ہیں۔ لگتا ہے پھر ایسی ہی ایک مہم کی ضرورت پڑے گی۔ حالاں کہ یہ جوابی مہم خاصی مہنگی پڑتی ہے لیکن اسی زبان میں جواب دیا جانا چاہیے جس زبان میں جس ذریعہ سے حملہ کیا جارہا ہے۔ ہم ٹی وی پر بے حیائی کی شکایت کرتے ہیں لیکن کوئی ایک ایسا ٹی وی چینل نہیں لاسکے جو اس سے پاک ہو ٹی وی کا حل بھی یہی ہے۔ بہرحال ہماری ایک تجویز ہے خصوصا خواتین کے لیے مشورہ ہے انہوں نے فیس بک اور انٹرنیٹ پر مہم شروع کی ہے کہ بے ہودہ سائن بورڈز ہٹائے جائیں۔ شاید وہ سائن بورڈز بھی لگادیں۔ لیکن اگر خواتین بڑی دکانوں اور ایسے سائن بورڈز والی پروڈکٹ کی دکانوں پر جائیں کپڑا پسند کریں اور یہ کہہ کر اسے خریدنے سے انکار کردیں کہ یہ تو بے ہودہ اشہار والی کمپنی کا ہے۔ ایسا کپڑا ہم نہیں خریدیں گے۔ اس جارحانہ مہم کے اثرات سائن بورڈز مہم سے زیادہ ہوں گے۔ یہ بات اپنی جگہ اہم ہے کہ یہ کام حکومت کو خود کرنا چاہیے تھا کہ کسی قسم کی بے ہودگی کا پرچار نہ ہونے پائے۔ آخر حکومت کی اجازت کے بغیر جس ملک میں شراب کا لائسنس اور دکان نہیں چل سکتی۔ اسلحہ نہیں مل سکتا ایک دکان کے دو سائن بورڈ لگ جائیں تو انسپکٹر ٹیکس لینے آجاتا ہے۔ کسی جگہ حکومت کی اطلاع کے بغیر سائن بورڈ لگا دیا جائے یا حکومت کے ٹھیکیدار کو ادائیگی کے بغیر لگا دیا جائے تو وہ توڑ یا گرا دیا جاتا ہے اس ملک میں حکومت ہی یہ سارا نظام کنٹرول کرسکتی ہے لہذا اس سے مطالبہ کرنا بالکل درست ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا ہماری حکومت (کوئی بھی ہو) یہ کام کرسکتی ہے؟ اگر ملک میں شراب کی عام فروخت کے لیے حکومت لائسنس دیتی ہے، بھارتی فلموں کی نمائش کی عام اجازت حکومت دیتی ہے۔ یوٹیوب اور فیس بک کھولنے اور بند کرنے کا اختیار حکومت پاکستان رکھتی ہے اور ہر کام کرنے کے لیے کوئی نہ کوئی قانون بنایا جاتا ہے تو پھر سائن بورڈ لگانے کا بھی کوئی قانون تو ہوگا۔ دنیا بھر میں پروڈکٹ اور اس کے ساتھ ماڈل کی تصویر کی شرح بھی متعین ہے پاکستان میں بھی کوئی نہ کوئی قانون تو ہوگا۔ سنا ہے اطلاعات تک رسائی کا بھی کوئی قانون ہے۔ عام شہری افسوس کر کے اور پریشانی کا ذکر کر کے اگر گھر بیٹھ جائے تو کچھ نہیں ہوگا جن لوگوں کے پاس کچھ وسائل ہیں کچھ وقت رکھتے ہیں وہ یہ قانون معلوم کریں کہ سائن بورڈ کس طرح کے بننے چاہئیں؟ یہ کیا کہ سڑک پر 60 فٹ طویل ایک بورڈ پر ایک عورت کی تصویر ہے اس کے جسم کے 30 فی صد حصے پر کوئی کپڑا بے ڈھب انداز میں پھیلا ہوا ہے اور یہ کسی لان کا اشتہار ہے۔ کسی جگہ بڑے بورڈ پر عورت کا بڑا سا چہرہ اور بازو کھلے ہوئے دکھائے جاتے ہیں اور کہیں کپڑے اور کسی معروف خاتون ماڈل کا نام لکھا ہوا ہوتا ہے ڈیزائنر کا بھی نام کہیں کہیں مل جاتا ہے۔ آخر اس کا جواز اشتہار بنانے والے اجازت دینے والے کیسے پیش کرسکتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اس حوالے سے ہمہ جہت مہم چلنی چاہیے سائن بورڈز پر کالک پھیرنے کا زمانہ گیا۔ اب تو اس میڈیا پر جواب دینے کا زمانہ ہے جس میڈیا پر حملہ ہورہا ہے۔ خریداری کا بائیکاٹ بھی ہونا چاہیے قانون معلوم کرکے قانون شکنی کرنے والوں کے خلاف قانونی کارروائی بھی ہونی چاہیے اور ملی بھگت کرنے والوں کو بھی قانون کے شکنجے میں لانا چاہیے۔ ذرا جارمانہ مہم چلے تو پھر شیونگ کریم، موٹرسائیکل، بلیڈ، کرکٹ میچ وغیرہ سے متعلق اشتہاروں سے تو عورت کو الگ کر ہی دیا جائے گا اور جہاں تک بے ہودگی کا تعلق ہے تو جب عوام چاہیں گے تو یہ بے ہودگی بھی ختم ہوجائے گی ورنہ سب یوں ہی چلتا رہے گا۔ اکثر رکشے کے پیچھے لکھا ہوتا ہے۔ تپڑ ہے تو پاس کر ورنہ برداشت کر یہ معاملہ صرف اشتہاروں کا نہیں ہے ہمارے آپ کے گھروں کے بگاڑ کا ہے۔ اگلی نسلیں خطرے میں ہیں۔