مستقبل میں اپنی اولاد کی بہترین تربیت کی غرض سے بارہ سال قبل ساتویں پاس ارشد جس کی اپنی ذاتی دوکان تھی نے انگریزی میڈیم سے گریجویٹ سلطانہ کے والدین کی طرف سے آئے رشتے کے پیغام کو قبول کرلیاتھا،اور اسکی یہ غرض پوری بھی ہوئی۔اپنے دونوں بیٹوں نعیم جو پنجم اور کلیم جو چہارم جماعت میں تھاان کوسلطانہ روزانہ کی طرح اسکول کے بعد رات میں گھر پر پڑھارہی تھی ارشددوکان سے آکر کھانے وغیرہ سے فارغ ہوکر کرسی سے ٹیک لگائے بیٹھااخبار میں منہمک تھا۔اچانک نعیم اپنی ماں سے پوچھ بیٹھا،”ممی! یہ پیوند کیا ہوتا ہے؟۔“ارشد نے اخبار کنارے رکھ دیا اور بیٹے سے مخاطب ہوا۔”بیٹا! تمہاری ماں سے نہ پوچھو،میں بتاتا ہوں۔کیونکہ تونے مجھے میرا بچپن یاد دلا دیا۔تیری ماں تو بڑے گھر کی ہے اس نے ”پیوند“ کو قریب سے نہیں دیکھا ہوگا۔دونوں بیٹے پڑھائی روک کر باپ کو دیکھنے لگے اورپیوند کے بارے میں سننے کیلئے بیقرار ہوگئے۔ارشد نے کہنا شروع کیا۔”ہمارے بچپن میں نئے کپڑے صرف عید پر ہی نصیب ہوتے تھے،اگر ہماری پینٹ یا شرٹ پھٹ جاتی تو اس پھٹی ہوئی جگہ پر ہماری ماں دوسرے کپڑے کا ٹکڑالگا دیتیں۔“ اسے پیوند کہتے ہیں۔کلیم نے حیرت سے پوچھا۔”ابو! آپ وہی کپڑا پہن کر اسکول بھی جاتے تھے؟۔“ہاں بیٹا،ہمارے زمانے میں کہاں یونیفارم تھے۔تمہارے دادا کے پرانے کپڑے کاٹ کر چھوٹے کئے جاتے،ایک سال میں پہنتا اور پھر وہی کپڑے تیرے چاچا پہنتے۔اگر وہ پھٹ جاتے تو ان میں پیوند لگا کر ہم پہنتے۔دونوں بیٹے حیرت سے اپنے باپ کی آنکھوں میں تیر رہے آنسوو ¿ں کو دیکھ رہے تھے اور ارشد سوچ رہا تھا۔کہیں ایسا نہ ہو آنے والی نسلیں ”پیوند“اس لفظ کو ہی فراموش کردیں۔
تحریر:انصاری نفیس جلیل
چونابھٹی،مالیگاؤں،ضلع ناسک
مہاراشٹر(الہند)
919021360933+
چونابھٹی،مالیگاؤں،ضلع ناسک
مہاراشٹر(الہند)
919021360933+