آپ سوچ رہے ہوں گے یہ کیا عنوان ہے ۔ جی ہاں یہ میری اپنی ایک کہانی ہے ۔ آج سے تقریباؑؑ پچیس سال قبل 1990 میں جب میں پہلی دفعہ حج بیت اللہ کی
سعادت حاصل کرنے کے لئے مکہ المکرمہ گیا ، فجر کی نماز پڑھنے کے بعد مسجد حرام خانہ کعبہ کے باب العمرہ کی سیڑھیوں پر اپنی خالہ اور بیگم کے انتظار میں بیٹھا تھا ۔ سامنے ایک خوانچے والا چائے اور کیک رس بیچ رہا تھا سوچا جب تک انتظار کر نا ہے ہلکا سا ناشتہ ہی کر لیتے ہیں سو اس سے ایک ریال میں ایک کاغزی کپ چائے کا اور ایک کیک پیس لے کر کھانا شروع کر دیا ۔ ابھی ایک نوالہ ہی لیا تھا تو سامنے کھڑاخاکی وردی والا سیکورٹی پر مامور ایک شرطہ میری جانب آیا اور عربی میں یا صدیق کہ کرمجھ سے مخاطب ہو اور پوچھنے لگا یہ کیا کررہے ہو میں نے جواب دیا ناشتہ بولا کس ہاتھ سے ؟ میں کہا میرے دائیں ہاتھ میں چائے کا کپ ہے تو کیک تو بائیں ہاتھ میں پکڑ کر کھانا پڑے گا ۔ وہ بولا نہیں تم چائے کو نیچے رکھو دائیں ہاتھ سے کھاوٗ اور پھر دائیں ہاتھ سے چائے بھی پیو چنانچہ ایسا ہی کیا ۔ واپس گھر آ کرپہلے تو سال دو سال کافی مشکل پیش آئ جونہی کبھی کوئ چیزالٹے (بائیں) ہاتھ سے کھانے یا پینے لگا تو ایسا لگا وہی شرطہ اپنی خاکی وردی پہنے سامنے کھڑا ہے- ربع صدی ہو چکی ہے اس واقعہ کو کہ یہ اب عادت اتنی پکی ہو چکی کہ کبھی بھی بائیں ہاتھ سے نہ کھایا نہ پیا ۔ اس واقعہ کا میری زندگی میں اتنا اثر ہوا کہ الحمدو للہ بیسیوں لوگوں کو اس کی ترغیب دے چکا ہوں اور بلا شبہ اس کا کریڈٹ اس خاکی وردی والے نا معلوم شرطے کو جاتا ہے جس نے میری اصلاح کی ۔ آپ بھی ایسے ہی اس طرح کی چھوٹی چھوٹی نیکی سمجھ کر کسی نہ
کسی کی اصلاح کر سکتے ہیں جو کہ صدقہ جاریہ ہے ۔
سادہ الفاظ میں اچھی بات سمجھا دی آپ نے