چادر پوش

تحریر رابعہ سیماب روحی
مما آپ کو پاپا بلا رہے ہیں۔میرے چھوٹے بیٹے نے مردانے حصے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تو میں لمحہ بھر کو ٹھٹکی ۔پھر جلد ہی سنبھل کر کمرے کی جانب چل دی۔میں اس مہمان خانے میں داخل ہوئی جہاںمیرے شوہر براجمان تھے۔ابھی میری متلاشی نگاہیں صلاح الدین کو تلاش کر ہی رہی تھیں کہ اچانک ایک جانب سے ان کی آواز آئی اور میں اس جانب لپکی۔اپنے آس پاس ایک طائرانہ نگاہ ڈالی تو یہ دیکھ کر اطمینان ہوا کہ مہمان خانے میں تمام مردہمارے اپنے عزیز و اقارب اور رشتہ دارہی تھے۔صلاح الدین چند بزرگ رشتہ داروں اور ہم عمر کزنوں میں گھرے بیٹھے تھے۔ان کے پاس ہی ایک بزرگ چادرکی بکل مارے بیٹھے تھے۔میں نے صلاح الدین کی جانب استفہامیہ نظروں سے دیکھا تو انہوں نے انہی چادرپوش بزرگ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ تمہارے چچا شکائیت کر رہے تھے کہ تم بڑی مغرور ہو گئی ہو ۔میں نے ان سے کہاکہ نہیں ایسی کوئی بات نہیں ہے میں ابھی بلاتاہوں آپ خود بات کر کے دیکھ لیں۔میں صلاح الدین کے پاس ہی ایک خالی کرسی پر بڑے ادب سے ان کے پاس ہی بیٹھ گئی۔میں نے ایک دو بارنگاہیں اٹھ اکر انہیں دیکھنے کی کوشش کی جو ناکام ہو گئی ۔اس لیے کہ چادر کی بکل کے سائے میں ان کی خشخشی داڑھی سے آگے چہرے کے خدو خال اتنے نمایاں نہیں تھے۔لیکن خیر کوئی بات نہیں تھی۔اب یہ پہلے والے خوبصورت چچا یوسف نہیں رہے تھے۔بلکہ ایک بیمار بوڑہے بزرگ تھے۔مگر اس بات سے مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا ۔اس لیے کہ مجھے تو صرف ان کی شفقت بھری کمپنی چاہیے تھی جو میرے مرحوم ابو سے ملتی تھی۔
چچا یوسف کو میں بچپن سے ہی اپنے ابو کے ساتھ دیکھتی آئی تھی۔انکے والدین نے ان کا نام یوسف باکل ٹھیک رکھا تھا۔وہ بلا شبہ ایک بہت خوبصورت شخصیت اور خدو خال کے مالک خوش اخلاق اورملنسارانسان تھے۔ہمیشہ ہنستے مسکراتے نظر آتے۔خوش قسمتی سے ان کی بیگم یعنی چچی مستورا بھی اپنے حسن میں یکتا تھیں۔چچا یوسف نہ صرف میٹھی باتیں کرتے بلکہ مٹھائی بھی بہت کھاتے وہ اکثر ہی اپنے گھر مٹھائی کا ڈبہ لے جاتے نظر آیا کرتے تھے۔اس قدر مٹھائی کھانے کا یہ نتیجہ نکلا کہ چچی تو جلد ہی شوگر کے مرض کی وجہ سے چل بسیں مگرچچا جان گھومنے پھرنے کی وجہ سے شوگر کے حملے سے بچ گئے ۔مگر اس بڑہاپے میں کھانسی کی شکائیت بہت رہنے لگی تھی۔انہیں دیکھ کر مجھے اپنے بچپن کی بھولی بسری باتیں یاد آنے لگیں۔چچا جی بھی مجھے دیکھ کر میرے بچپن کی پرانی باتیں دہرانے لگے۔مجھے شروع سے برفی بہت پسند تھی۔چچا جی اکثرمجھے برفی کھلایا کرتے تھے۔یاد ہے ہم تمہیں برفی کھلایاکرتے تھے اور اب تم ہمیںپہچانتی ہی نہیں ۔وہی بزرگوں والے گلے شکوے۔پاکستان آتی ہو تو مل کر بھی نہیں جاتیں اپنے چچا کو ۔
نہیں چچا جی میں تو آپ کو ہمیشہ یاد کرتی ہوں اور تائی جی سے بھی ہمیشہ آپ کے بارے میں پوچھتی رہتی ہوں۔پتہ چلا تھا کہ آپ بہت بیمار رہے تھے پچھلے دنوں۔وہ مجھے میرے بچپن کے قصے سنانے لگے۔کہ میں کیسے شرارتیں کرتی تھی اور ابو سے ضد کر کر کے اپنی باتیں اور فرمائشیں منوایا کرتی تھی۔چچا جی بتا رہے تھے کہ میں شروع سے ہی بہت ضدی اور شرارتی واقع ہوئی تھی اور میرے ابو میری ہر فرمائش پوری کرتے تھے۔ دراصل چچا یوسف میرے سگے نہیں بلکہ دور کے چچا تھے۔اصل میںمیرے سگے چچا کوئی نہیں تھے۔ البتہ تائے قدرت نے بڑی فراوانی سے عطاء کیے تھے ۔اس کی وجہ یہ تھی کہ میرے ابو تیرہ بہن بھائیوں کے خاندان کے آخری چشم و چراغ تھے۔لہٰذا خاندان بھرکے لاڈلے ٹھہرے۔جبکہ قدرت نے ابو کو خوبصورتی اور ذہانت دینے میں بہت فیاضی دکھائی تھی۔ابو کھلتی رنگت ااور شربتی آنکھوں کے ساتھ ایک ہنس مکھ شخصیت کے مالک تھے۔ابو کی دلکش آنکھوں میں ہمیشہ ذہانت چمکتی تھی ۔اپنے دوستوں میں بہت ہردلعزیز شخصیت کے طور پر پہچانے جاتے تھے۔چچا یوسف کا شمار ان کے قریبی دوستوں میں ہوتا تھا ۔ان کا بچپن بھی ایک ساتھ گزراتھا۔ابو اب اس دنیا میں نہیں رہے لیکن ابو کے دوستوں سے بات کر کے میرے دل میں ہمیشہ ایک شفقت آمیز احساس سا جاں گزیں ہوجاتا۔یہی احساس آج چچا یوسف سے بات کر کے ہو رہا تھا۔میرا ذہن برسوں پیچھے میرے بچپن نٹ کھٹ دور میں چلا گیا۔مجھے جب بھی خاندان کے بزرگ ملتے ہیں اکثر انہیں میرا بچپن یاد آ جاتا ہے ۔چچا یوسف نے جب بات شروع کی تھی ان کے لحجے میں کچھ نقاہت اور کمزوری تھی۔چچا جی بڑی گھمبیر آواز میں میرے بچپن کی یادوں کودہرا رہے تھے۔مگر اب ان کے لحجے میں چند لمحوں پہلے والی نقاہت غائب ہو چکی تھی۔اب مجھے وہ بالکل پرانے والے ہنس مکھ اور صحت مند چچا یوسف لگ رہے تھے۔۔۔۔کتنی طاقت ہوتی ہے خوشگوار یادوں میں ۔۔۔میں یہ سوچ کر مسکرا دی۔میں اپنی کلائی کی چوڑیوں سے کھیل رہی تھی اور چچاجی کی باتوں سے لطف اندوز ہو رہی تھی۔ویسے بھی چچا جی کا چہرہ کمرے کی ملگجی لوڈ شیڈنگ زدہ روشنی اور چادر کی بکل کی وجہ سے صاف نظر نہیں آ رہاتھا۔سو میں ا س پرانی کہانی کے آڈیو تاثر سے ہی لطف اندوز ہو تی رہی۔ان لمحات میں مجھے یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے کو ئی مشتاق داستان گو مجھے میرے حال سے دھیرے دھیرے ماضی کے جھروکوں میں لے جا رہا ہو۔میری محویت تو اس وقت ٹوٹی جب کسی نے کمرے میں آ کر بتایا کہ کھانا لگ گیا ہے سب لوگ کھانا کھا لیں۔
آج دراصل میری بڑی تائی جی کا سوئم تھا۔ سب مہمان اسی سلسلے میں ان کے گھر میں جمع تھے۔بڑی تائی جی اپنی زندگی کی نویں بہاریں دیکھ کر اور تین جنریشنوں کی خوشیاں اٹینڈ کرنے کے بعد خالق حقیقی سے جا ملی تھیں۔چچا یوسف ان کے ہی بھائی تھے اور رشتے ناطوں کی کسی کڑی سے ہمارے چچا بھی لگتے تھے۔
کھانے کے اعلان کے ساتھ ہی مہمانوں میں ہل چل سی مچ گئی۔چچا یوسف بھی داستاں کہتے کہتے چونک اٹھے۔تب میری محویت بھی ٹوٹی اور میں معصوم یادوں کے ہجوم میں کمرے سے باہرنکل آئی۔
مجھے مردانہ حصے سے باہر نکلتے دیکھ کر فریدہ باجی نے ایک حیرت بھری نگاہ ڈالی اور استفار کیا کہ تم وہاں کیا کر رہی تھیں۔میں نے انہیں بڑے خوشگوار انداز میں بتایا کہ میں اندر چچا یوسف سے ملنے گئی تھی۔میرا جواب سن کر باجی کی حیرت دوگنی ہو گئی۔ ان کی مخمور سرمگیں آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں ابرو تن گئے اور ہونٹ سکڑ گئے۔نہوں نے نہائیت اچنبھے سے دوبارہ استفار کیا ۔۔۔کیا کہا چچا یوسف؟؟ جیسے انہیں میری بات کا یقین نہ آیا ہو۔۔
تم چچا یوسف سے مل کر آئی ہو انہوں نے الفاظ چباتے ہوئے یوں کہا جیسے میں جھوٹ بول رہی ہوں۔۔۔ مجھے لگا کہ باجی میری جانب مشکوک نگاہوں سے دیکھ رہی ہیں۔انہیں میری بات کا یقین نہیں آ رہا تھا۔میں گڑ بڑا گئی ۔۔۔وہ جانے کیا سمجھ رہی تھیں۔۔یا شائید میں انہیں سمجھا نہیں پا رہی تھی۔انہوں نے ایک بے یقین سی مشکوک نگاہ کمرے کی جانب اور دوسری میرے چہرے پر ڈالی جیسے۔۔۔
میں کچھ چھپا رہی ہوں۔۔ انہیں میری بات کا یقین نہیں آ رہا تھا۔
میںنے جلدی سے اپنی پوزیشن صاف کرنے کے لیے کہا اندر صلاح الدین بھی ہیں۔مجھے دراصل انہوں نے ہی بلایاتھا۔ چچا جی سے ملوانے کے لیے۔مجھے ڈر تھا کہ کہیں میری معصوم بچپن کی کہانی کا کوئی فسانہ ہی نہ بن جائے۔مگر یہ کیا باجی کا جواب سن کر اب حیران ہونے کی باری میری تھی۔مجھے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ وہ کیا کہہ رہی تھیں؟؟باجی نے بڑے کریدنے والے انداز میں چبھتی نگاہوں سے مجھے دیکھتے ہوئے ایک حیرت انگیز انکشاف کیا۔وہ بولیں مگر چچا یوسف تو بیمار ہیں ۔اور بستر سے اٹھ بھی نہیں سکتے تو پھر تم ان سے کیسے مل آئی ہو۔انہوں نے ہاتھ ہلا کر کہا تو میںا نکے اس چشم کشاء انکشا ف پربھونچکی سی رہ گئی ۔مم۔۔مگر ۔۔۔وہ ۔۔میں نے کمرے کی جانب ایسے دیکھاجیسے میں چچا یوسف سے نہیں بلکہ ان کے بھوت سے مل کے آئی ہوں۔۔۔میں بمشکل یہ ہی کہ پائی تو پھر وہ کون تھے؟؟؟ جن سے میں اتنی دیر باتیں کرتی رہی تھی۔میں ابھی اسی شش و پنج میں ہی تھی۔۔۔۔ کہ ایسے لمحات میں صلاح الدین کسی رحمت کے فرشتے کی طرح کمرے سے برآمد ہوئے۔ میںنے ان سے جلدی سے پوچھا کہ وہ اندر چچا
یوسف ہی تھے نا !!!صلاح الدین ہنس کر بولے لو وہ تو چچا عمر تھے جو ان سے چھوٹے ہیں۔اف۔۔۔بڑہاپے اور بیماری نے ان دونوں کو کتنا ہم شکل بنا دیا ہے میں یہ سوچ کر ہی رہ گئی۔

اپنا تبصرہ لکھیں