تحریر شازیہ عندلیب
گو کہ انداز بیاں بات بدل دیتا ہے ورنہ
دنیا میں کوئی بات نئی بات نہیں ہے
چاند کی سیر تو پرانی بات ہو گئی ہے مگر کچھ دنوں سے چاند کے پار واقع سیارے مارس کی سیر کے چرچے سنے ہیں۔گو کہ یہ چرچا ذرا پرانا ہے مگر خرچہ بڑا ذیادہ ہے۔چند روز میںکرہء ارض کے مشرقی اور شمالی حصہ کے ممالک میں گرمیوں کی چھٹیوں کی آمد آمد ہے۔سیر سپاٹوں کے شوقین حضرات سیر کے لیے نت نئی اسپاٹس دھوند تے ہیں تو سیرو سیاحت کی کمپنیاں اور ٹریول ایجنسیاں بھی سیاحوں کے لیے نئی نئی لوکیشنز دریافت کرنے میں مصروف نظر آتی ہیں۔ایسے میں مہم جوسیاحوں کے لیے مارس کے سیارے کی سیر کا آئیڈیا بڑا ہی امنفرد اور چونکا دینے والا تھا۔ یہ آئیڈیا ایک ڈنمارک کی کمپنی کا تھا اور اس کے لیے شوقین سیلانی افراد کے لیے بکنگ بھی شروع کر دی گئی ہے۔جبکہ اس مہنگی سیر جس کا کرایہ کئی ملین ڈالر زپر مشتمل ہے کے لیے مخیر حضرات نے درخواستیں بھی جمع کرا دی ہیں۔
مارس زمین کاہمسایہ سیارہ ہے اور چاند سے ذرا ہٹ کر ہے۔تاہم شنید ہے کہ مارس کے راکٹ میں سوار ہونے والے مسافر راستے میں راکٹ کی کھڑکی سے چاند پر تو جھانک ہی سکتے ہوں گے یا نہیں۔اس بارے میں کوئی حتمی رپورٹ تاحال سامنے نہیں آئی۔البتہ خلائی ادارے ناسا نے انتباہ کیا ہے کہ فی الحال مارس کی جانب سفر کرنا مناسب نہیں کیونکہ انہوں نے ابھی تک وہاں اپنا تعمیراتی منصوبہ شروع نہیں کیا۔یہ تو تعمیراتی کمپنیوں کی سستی ہے ۔انہیں جلدی کرنی چاہیے ورنہ کوئی قبضہ گروپ مارس کے پلاٹوں پہ قبضہ ہی نہ کر لے۔امریکہ اور ناسا کو چاند سر کرنے کے واقعہ سے سبق حاصل کرنا چاہیے۔وہاں بھی وہ اگر بھاگم بھاگ نہ جاتے تو روس وہاں امریکہ سے پہلے جھنڈا گاڑنے میں کامیاب ہو جاتا اور چاند پہ ناجائز قبضہ کرلیتا ۔اب جبکہ مارس پر سیر کی بکنگ شروع ہو چکی ہے تو تعمیراتی کمپنیوں کو ہوش کے ناخن لینے چاہیئیں اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے اس شعر کے مصداق
بہت دیر کی مہرباں آتے آتے
ابھی تک تو تعمیراتی کام کے آثار نظر نہیں آتے اس لیے مناسب تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ مسافر اپنا بندوبست خود کر کے جائیں اور مارس کے سیارے پر جانے کے لیے اپنے اپنے خیمے ساتھ لے جائیں اور ساتھ سونے کے لیے ڈندا بھی لیتے جائیں۔ جس کے ساتھ وہ الٹے لٹک کر سو جایا کریں۔کیونکہ اگر چاند پہ چہل قدمی کی تصاویر اور فلمیں ملاحظہ کی جائیں تو اس میں خلا نورد الٹے سیدھے تیرتے نظر آتے ہیں اس طرح یہ چہل قدمی کم اور تیراکی ذیادہ معلوم ہو تی ہے۔زمین پر تو کشش ثقل کی وجہ سے قدم جمے رہتے ہیں وہاں کشش ثقل ایسی نہیں ہے لہٰذاعین ممکن ہے کہ وہاں سر کے بل گھومنا پڑے۔باقی رہ گیا سانس کا معاملہ تو اس کے لیے اوکسیجن گیس کے ماسک اور سلنڈر ہی کام آئیں گے۔پھر گیس سلنڈر پھٹنے کی صورت میںایمرجنسی اسکواڈ بھی ہونا چاہیے۔
مارس ایک ایساسیارہ ہے جہاں ابھی تک کسی انسان کے جانے کی مصدقہ اطلاع موصول؛ نہیں ہوئی۔البتہ آخری اطلاعات کے مطابق مذکورہ بالا سیارے کی جانب جانے والے راکٹ ڈسکوری کی تباہی کی اطلاع آئی تھی جسے پوری دنیا میں نہائیت غم سے سنا گیا۔اتفاق سے ہمارے ایک قریبی ہونہار عزیز بھی اس پراجیکٹ پر کام کر رہے تھے مگر پراجیکٹ میں ناکامی کی وجہ سے انکا نام روشن نہ ہو سکا ۔ویسے بھی اگر کوئی پاکستانی اچھا کام کر بھی دے تو اسے بین لاقوامی میڈیا اتنا نام نہیں دیتا۔گو کہ امریکہ اور دنیا کے بیشتر ترقی یافتہ ممالک میں پاکستانی اور انڈین ذہن ہی کام کر رہے ہیں۔اس سے پہلے امریکہ چاند کو سر کر چکا ہے جس کے نتیجے میں پہلے امریکہ اور پھر اس کے حریف روس نے چاند پر جھنڈے گاڑے۔اس طرح دونوں عالمی طاقتوں نے اپنا سکہّ جمانے کے لیے چاند پہ جھنڈے گاڑے۔کافی عرصہ بعد امریکیوں نے ہی یہ انکشاف کیا کہ چاند پر چہل قدمی سب ڈرامہ بازی تھی۔ یہ تو امریکہ کے دور افتادہ صحراء ایری زونا میں کی گئی فلمبندی تھی۔معلو م نہیں کہ یہ بیان رقابت میں دیا گیا تھا یہ پھر یہی حقیقت تھی۔ لیکن امریکہ جو کہتا ہے اسے تو ماننا پڑے گا اس لیے کہ اسی میں سب کی بہتری ہے۔دنیا میں اسی کا سکہ چلتا ہے جس کی طاقت ہو ۔آج تک ہوش سنبھالتے ہی چشم تماشا نے یہی دستور زمانہ دیکھا کہ جس کا حال اچھا وہی سب سے سچا جو کمزور وہ کم تر ہے اس لیے آج تک دنیا میں عالمی طاقتوں نے جو کہا سب نے اسے ہی بلا چوں چراں مانا۔خواہ سچ کتنا ہی واضع کیوں نہ ہو جھوٹ کس قدر بھونڈا ہو مگر سب جھوٹے طاقت ور اور ظالم کا ساتھ دیتے ہیں۔جب کوئی ظالم لیڈر گرفت میں آتا ہے تو اسکے ساتھی اس کے لیے تڑپنے لگتے ہیں جب کسی غریب مظلوم پرظلم ہوتا ہے تو اس کے چند لواحقین رو پیٹ کر صبر کر لیتے ہیں۔
مگر سوال تو یہ ہے کہ امریکہ نے ابھی چاند پر تعمیراتی منصوبے مکمل نہیں کیے کہ مارس پر قلانچیں بھرنے کا سوچ رہے ہیں اور پھر ٹریول ایجنسیں کی پھرتیاں بھی قابل دید ہیںجن سے اتنا صبر بھی نہیں ہو رہا کہ مارس پر تعمیراتی کام ہی ہو جانے دیں کوئی ہوٹل موٹل بن جائے تو تھکے ماندے مسافر وہاںسستا ہی لیں۔امریکہ نے تو اس پڑوسی سیارچے پر اپنا منصوبہ مکمل نہیں کیا مگر چاند بدستور شاعروں کی رومان پرور شاعری کا موضوع بنا ہوا ہے جیسے یہ گیت آج بھی رومانٹک لوگوں اور رکشہ ٹیکسی ڈرائیوروں کے فیورٹ ہیںجیسے
چاندنی راتیں،
چلو دلدار چلو
چاند کے پا ر چلو
چندا توری چاندنی رے جیا جلا جائے رے
،او مکھڑا چاند سا نینوں پہ چھایا ای اوئے اور ون وے ٹکٹ ٹو دی مون وغیرہ۔
ویسے ایک تجزیہ نگار کے مطابق مارس کا ٹکٹ بھی ون وے ہی و گا۔اس لیے یہ گیت اب یوں ہونا چاہیے
ون وے ٹکٹ ٹو دی مارس ۔کیو نکہ تضزیہ نگاروں کے مطابق مارس کی سیر کا ٹکٹ مسافروں کو مار ڈالنے کا ٹکٹ ہے یہ محض لوٹ مار پراجیکٹ ہے۔مذکورہ بالا چاند مارکہ گیت آج بھی دلوں کو گرماتے ہیں مگر چاند سر کرنے والے تو اب تک ٹھنڈے ٹھار ہو کے بیٹھے ہیں۔نہ تو انہوں نے وہاں کوئی بستیاں حسب وعدہ تعمیر کیں اور نہ ہی امریکی اور روسی حکمرانوں نے وہاں کا کوئی دورہ کیا۔اس چھوٹے سے محض چند قطر کے سیارچے سے تو نبٹ نہیں سکے تو مارس جیسے بڑے قطر کے سیارے پر تعمیراتی منصوبہ کیسے مکمل کریں گے ۔جبکہ ایک اطلاع کے مطابق مارس پر تعمیر کے لیے چاند پر سیڑھیاںبنائی جائیں گی۔اس معاملے میں بھی کافی ہشیاری کی ضرورت ہے کہ ایسا نہ ہوکہ امریکہ سیڑھی بنائے اور روس اور چائنا مل کر سیڑھی کھینچ لیں یا پھر کوئی پاکستانی سیڑھی پہ چڑھے اور دوسرا پاکستانی سیڑھی کھینچ لے کیونکہ پاکستانی اس کام میں خاصے ماہر ہیں۔
۔اس کھینچا تانی مین انتظار گاہ میںبیٹھے خلائی مسافر سب سے ذیادہ پریشان ہوں گے۔جو مارس پہ جانے کی ٹکٹ کٹا کے بیٹھے ہیں ۔بہرحال شنید ہے کہ مارس کی سیر تو اک بہانہ ہے اصل مقصد تو مال بنانا ہے۔وہاں جا کے کس نے واپس آنا ہے۔جو دنیا سے تنگ آیا ہوا ہے وہی وہاں جائے گا۔
سیر کا مقصد نظاروں اور بہاروں کے ساتھ ساتھ نئے لوگوں سے ملنا بھی ہوتا ہے محض گڑہوں اور پہاڑون کو سر کرنا نہیں۔پھر زمین کے مدار سے باہر ہوا کے دبائو کا مسلئہ اوزون کے معاملات کاسمک ریز اور دیگر آسمانی سسٹمز سے نبٹنے کے لیے ٹریننگ کی ضرورت ہے ۔اس طرح یہ سفر مسافروں ک لیے مشن نا ممکن ہو گا اسک حقیقت سے دور کا بھی تعلق نہیں۔لیکن امید ہے کہ جھوٹ پر مبنی فلم دو ہزار بارہ کی طرح یہ پراجیکٹ بھی کئی ملین ڈالر بنائے گا۔