شازیہ عندلیب
ارے یہ دودھ پر سے بالائی ہر روز کہاں چلی جاتی ہے۔روزی نے کچن سے اپنی ملازمہ کو پکارتے ہوئے پوچھا جو سٹنگ روم کی جھاڑ پونچھ میں مصروف تھی۔
سانولی اور بھاری بھرکم رجو جلدی سے کام چھوڑ کر روزی کے پاس آتے ہوئے بولی باجی میں تو ابھی آئی ہوں آتے ہی صفائی شروع کر دی ۔ابھی تو کچن میں آئی نہیں۔میں نے تو کسی کو نہیں دیکھا ۔۔آپ شمامہ آپی سے پوچھ لیں۔
اچھا ۔۔۔شمامہ آپی میں نے بریڈ پہ بالائی لگانی تھی اوریہ دیکھیں دودھ پر بالائی ہی نہیں ہے۔ آپ نے تو اتار کر فرج میں نہیں رکھی مجھے مل نہیں رہی۔۔۔
یہ جو رجو ہے نا شمامہ نے اچک کر کچن سے باہر دیکھتے ہوئے سرگوشی کی۔۔۔ اورعینک کے پیچھے سے نظریں گھماتی ہاتھ کے اشارے سے بولی یہ اسی کا کام ہے۔۔۔تم نے اسے بہت سر پہ چڑھا کے رکھا ہوا ہے۔۔۔
ارے نہیں آپی یہ ایسی نہیں اسے تو یہاں کام کرتے ہوئے چھ سات سال ہو گئے ہیں اس نے کبھی ایسی حرکت نہیں کی۔بلکہ یہ تو اکثر مجھے گرے ہوئے پیسے بھی اٹھا کر لا دیتی ہے۔۔۔۔۔۔۔
تم نہیں جانتی یہ جو نوکرانیاں ہوتی ہیں یہ ایسی ہی بے ایمان ہوتی ہیں ۔یہ سب تم پراعتبارجمانے کے لیے کرتی ہیں۔تم بھی بڑی ہی بھولی ہو۔۔۔۔۔مگر آپی اس کا تو بھائی بھی میرے پاس ڈرائیور ہے مجھے تو کبھی ان دونوں سے شکائیت نہیں ہوئی۔۔۔
بس بس رہنے دو آجکل کا زمانہ نہیں کسی پر اعتبار کا ۔تم دیکھ لینا کسی دن یہ گل کھلائے گی۔۔۔۔مگر آپی سب ایک جیسے نہیں ہوتے۔۔۔۔۔
ہاں ہاں تم بس آنکھیں بند کیے رکھنا دیکھ لینا آج بالائی کھا گئی کل پوری پتیلی کا دودھ ہی پی جائے گی۔۔۔۔۔
ار ے چھوڑیں جانے بھی دیں۔۔۔۔۔روزی بے اختیار ہنس دی ۔۔۔
شمامہ روزی کی نند تھیں جو کچھ روز کے لیے پشاور سے اس کے گھر رہنے آئی ہوئی تھیں۔روزی کو ان سے بہت پیار تھا۔ تھی۔ایک ہی بیٹا تھا۔ شادی کے بہت عرصے بعد ملا تھا۔جسے بڑے لاڈسے رکھا ہوا تھا۔وہی ان کی زندگی تھا۔ورنہ اس سے پہلے وہ بڑی دکھی رہتی تھیں۔انکا بیٹا سات سال کا تھا۔کچھ شرارتی بھی تھا ۔مگر خیر بچے شرارتی تو ہوتے ہی ہیں۔
رجنی جسے سب رجو کہتے تھے روزی کے بچوں کی آیا بھی تھی اور بوقت ضرورت گھر کی جھاڑ پونچھ بھی کر دیتی تھی۔وہ گھر کی فرد کی طرح ہی تھی۔روزی کو کبھی شکائیت کا موقعہ نہیں دیا۔
مگرشمامہ کو وہ ایک آنکھ نہیں بھاتی تھی۔ رجوکہتی تھی باجی میرے گھر میں اللہ کا دیا سب کچھ ہے۔میاں سرکاری دفتر میں کلرک ہے اور مجھے جو تنخواہ ملتی ہے میں اسکی کمیٹیاں ڈال کر سب کچھ بنا لیتی ہوں۔لو بھلا ایک نوکرانی اور یہ ٹھاٹھ باٹھ کہ گھر میں فرج ٹی وی سے لے کر قالین صوفے سب کچھ۔۔۔۔ہو نہ ہو یہ ضرور روزی کوئی بے ایمانی کرتی ہو گی۔۔۔وہ اکثر روزی کو اسکے خلاف بھڑکاتی رہتی تھیں۔
آپی چھوڑیں نا اتنی تو اچھی ہے اتنا آرام ہے اسکی وجہ سے ۔اگر کام چھوڑ کر چلی گئی تو کیا کروں گی میں۔ہاں ہاں تم آرام کرتی رہنا وہ چاہے گھر لوٹ کر چلتی بنے۔۔۔۔
آجکل کے ملازموں پر اتنا بھروسہ اچھا نہیں ہوتا۔۔۔روزی یہ سن کر پریشان ہو جاتی۔۔آجکل اسکی طبیعت کچھ گری گری سی رہتی تھی۔۔ا ۔روزی کے لیے ذیادہ ہلنا جلنا دن بدن مشکل ہو رہا تھا اوپرسے آپا ایسی باتیں کر کے اسکا دل ہولائے دیتیں اگر یہ بھاگ گئی تو گھر کے کام کون کرے گا؟؟؟وہ یہ سوچ کر پریشان ہو جاتی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک روز وہ کام سے کہیں باہرجانے لگی۔ میک اپ باکس میں سے ٹاپس نکال کر پہننے لگی تو سفید زرقون اور زمرد کے ٹاپس کا دوسرا حصہ غائب تھا۔اس نے آپی سے پوچھا ۔آپی آپ نے تو نہیں دیکھے شائید میں باتھ روم میں اتار کر بھول گئی ہوں گی۔
نہیں تو میں نے نہیں دیکھا یہ تمہاری اسی چہیتی نے لیا ہوگا۔۔۔۔
آپی رہنے بھی دیں وہ بیچاری ایک ٹاپس لے کر کیا کرے گی ۔چرانا ہوتا تو دونوں چراتی۔۔۔۔
تمہیں تو سمجھانا ہی فضول ہے وہ ماتھے پر انگوٹھیوں بھرا ہاتھ مارتے ہوئے بولیں۔۔۔۔۔
دوسرے روز رجو کام پر آئی تو روزی نے اس سے پوچھا ۔۔۔
آپی اس وقت اپنی بڑی بہن کے گھر ملنے گئی ہوئی تھیں۔۔۔
رجنی کہنے لگی باجی آپ کمرے میں ہی ڈھونڈیں آگے پیچھے ہوں گے کہیں۔دراصل شمامہ آپی کا بچہ بڑا شرارتی ہے ہر چیز میں ہاتھ مارتا ہے منع کرتی ہوں تو باجی ناراض ہو جاتی ہیں۔آپ جب چلی گئی تھیں تو ماجد ایک دم کمرے سے باہر نکلا اسکا منہ بالکل لال سرخ ہو رہا تھا۔میں ڈر گئی دیکھ کے ۔۔۔کہ کہیں چوٹ تو نہیں لگی۔۔۔مگر اس نے آپ کے بیوٹی باکس سے آپکا میک اپ کیا ہوا تھا۔آپی شمامہ بجائے ڈانٹنے کے اسے دیکھ کر ہنسنے لگ گئی۔میں نے کہا باجی ایسے نہ کریں ۔۔۔۔تب وہ برا مان گئی۔کہنے لگی باجی کو اس بات کا پتہ نہ چلے۔پھر میں نے آپ کی ساری چیزیں سنبھال دیں اسی میں آپ کے کانٹے بھی تھے۔مجھے ایک ہی ملا میں نے وہ رکھ دیا۔
روزی نے کمرے میں ڈریسنگ ٹیبل کھسکا کر دیکھا تو وہاں سے کانٹے کی دوسری جوڑی مل گئی۔۔۔۔
دوسرے روز میز پرسودا سلف سے بچے ہوئے کچھ پیسے میز پہ رکھے تھے وہ نہیں مل رہے تھے۔
شمامہ آپی کی تو ایک ہی رٹ تھی یہ جو گھرمیں آتی ہے نا مہارانی یہ اسی کا کام ہے۔ایک روز تو حد ہی ہو گئی کسی دینے کے لیے ایک خوبصورت ایرانی کمبل کا گفٹ پیک رکھا ا ور وہ غائب ہو گیا۔
شمامہ آپی نے اب روزی کے بجائے اس کے شوہر کو سمجھاینا شروع کر دیاکہ اس ملازمہ سے پیچھاچھڑاؤ بھیا ورنہ یہ توتمہارے گھر کی صفائی کے ساتھ ساتھ یک دن پورے گھر کا صفایا کرجائے گی۔اور تم دیکھتے ہی رہنا۔اب تو روزی کو بھی شک سا رہنے لگا تھا۔اس نے فیصلہ کر لیا کہ بس جیسے ہی اسکی طبیعت سنبھلتی ہے وہ اس ے فارغ کر دے گی۔
ایک شام کو ان کے گھر کچھ مہمان آئے۔بازار سے گرما گرم سموسے منگوا کر چائے بنوائی۔کافی دیر ہو گئی ملازمہ چائے نہیں لائی تھی۔آپی ڈرائنگ روم میں مہمانوں کے ساتھ گپ شپ لگا رہی تھیں۔ ملازمہ رجنی واش روم میں تھی۔مگر کچن سے بدستور کھٹ پٹ کی آوازیں آ رہی تھیں۔روزی نے تھوڑا سا آگے ہو کر دیکھا کچن میں دس سالہ ماجد دونوں ہاتھوں سے سموسے کھائے چلا جا رہا تھا۔روزی کو دیکھتے ہی پچھلے دروازے سے بھاگ گیا۔
روزی ٹوٹے ہوئے سموسے نکال کر چائےء سموسے بسکٹ اور نمکو کے ساتھ مہمانوں کے سامنے لے گئی۔چار مہمانوں کے سامنے چار سمومے رکھتے کچھ شرمندگی بھی ہو رہی تھی مگر اب کیا کرتی۔۔۔۔۔
شمو آپی بولیں آٹھ سموسے منگوائے تھے ۔۔۔باقی کہاں گئے کھا گئی ہو گی تمہاری چہیتی انہوں نے دھیرے سے کہا۔۔۔
اس کے ساتھ ہی ٹی وی پر مولانا صاحب کی آواز آئی
اے اہل ایمان بہتان تراشی بہت بڑا گناہ ہے اور بہتان کی سزاء اسی کوڑے ہے۔
til BAZMeQALAM
ہو جوش قلم اور زیادہ، بہت خوبصورت تحریر ہے بلکہ تحریر کہاں ایک درس ہے جو بیٹھا کردیتے تو لوگ شاید سنتے بھی نہیں اور اگر سن بھی لیتے تو کہتے یہ تو ہمیں بھی پتہ ہے، شازیہ بی بی نے جس انداز سے اللہ کا پیغام پہنچایا ہے اہل ذوق کو اچھا افسانہ ہی بہیں دیا بلکہ عامتہ الناس تک اللہ کا حکم پہنچا کر اجر و ثواب کی مستحق بھی ٹھیریں۔
جزاک اللہ خیر شازیہ عندلیب بی بی۔
S. Y. A. Husaini
P.O. BOX. NO. 52267.
JEDDAH 21563.
MOB NO. +966 50 834 7618
RES NO. +966 012 673 9607
محترمہ شازیہ عندلیب صاحبہ سلامِ مسنون
بہت خوب! گھریلو زندگی پر آپ کی کہانی بہت خوبصورت لگی، احقر کے خیال میں کہانی لکھنے کے جو مقاصد ہوا کرتے ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ کہانی سبق آموز ہو، اس لئے کہانی کی ستائش کے ساتھ ساتھ آپ اس حیثیت سے بھی دوہری مبارکبادی کی مستحق ہیں کہ آپ وطنِ اردو سے دُور رہ کر، اردو کی خدمت میں منہمک رہتی ہیں، خدا قبول فرمائے، آمین.
مجھے کچھ ادبی وعلمی قسم کی معلومات کی ضرورت ہے اگر مناسب معلوم ہو تو اپنا نجی ایمیل ایڈرس ارسال کرکے شکریہ کا موقع دیں.
والسلام
سید احمد
۲
السلام علیکم
شمامہ کا کردار ….اا
شاذیہ عندلیب صاحبہ آپ نے اپنے مختصر افسانے میں کںُی زاویے سے سبق آموز بات کہی ہے خاص طور سے بچوں کی تربیت کے معاملے میں زیادہ تر والدین خود ذمدار ہوتے ہیں جو اپنے بچوں کی معمولی غلطیوں پر پردہ ڈال کر انہیں عادی مجرم بنا دیتے ہیں اور اکثر بدگمانی بھی نہ صرف نقصان دہ ثابت ہوتی ہے کبھی کبھی ایک شریف اور عزت دار آدمی کو عام آدمی کے سامنے شرمندہ ہونا پڑ جاتا ہے جیسا کہ روزی نے اگر شمامہ کی باتوں پر اعتبار کرتے ہوےُ رجنی پر چوری کا الزام لگا دیا ہوتا اور اگر یہ راز اسے نوکری سے نکالنے کے بعد فاش ہوجاتا تو شاید روزی اور ان کے شوہر اپنے آپ کو کبھی معاف نہیں کر پاتے اور نند کے رشتے میں بھی دراڑ ضرور پڑ جاتی – جو ہمارے معاشرے کی حقیقت بھی ہے اس لیںے کسی پر کوئ الزام لگانے یا تعلقات کو ترک کرنے سے پہلے معاملات کی تحقیق بہت ضروری ہے جو اکثر عام طورپر ہم نہیں کرتے- تقریباً یہی معاملہ عالم اسلام کے موجودہ حالات کے تعلق سے بھی ہے جہاں شمامہ کا کردار ہمارا جدید میڈیا کر رہا ہے جو اپنی نالاںُق اولاد لبرل جمہوریت کی ہر غلطیوں پر پردہ ڈال کر سماج کے ایک مہذب اور باوصول طبقے کو ہی بدنام کرنے پر آمادہ ہے اور بے چارہ عام مسلمان روزی اور اس کے شوہر کی طرح شک و شبہات میں مبتلا ہے اور یہ فیصلہ کرنے سے قاصر ہے کہ کیا صحیح ہے اور کیا غلط – یہ کہانی بھی پچھلی کںُی دہاںُیوں سیے قسطوں میں جاری ہے دیکھںُیے اس کہانی کا انجام کب اور کہاں اپنے اختتام کو پہنچتا ہے -جزاک اللہ
عمر فراہی