غزل
از ڈاکٹر جاوید جمیل
چپکے سے قریب آنا، پھر دور نکل جانا
ہر پل کا مقدّر ہے ماضی میں بدل جانا
کر کر کے تری باتیں، پڑھ پڑھ کے ترا چہرہ
ہر صنف_سخن سیکھی، ہر رنگ غزل جانا
اک فرض ہے ہستی پر ہر پل کی پذیرائی
تاریخ کا شیوہ ہے صدیوں کو نگل جانا
پڑتی ہیں پہاڑوں پرسورج کی شعاعیں جب
مشکل کہاں رہتا ہے پھر برف پگھل جانا
کردار ادا کرنا ہر شخص کو پڑتا ہے
آساں نہیں قوموں کی تقدیر بدل جانا
جاوید ضروری ہے دنیا میں اندھیرا بھی
ہے مصلحت_ یزداں یہ شام کا ڈھل جانا
—