بھارت میں بندر کو پکڑنا انتہائی سادگی سے کیا جاتا ہے۔
وہ زمین میں ایک گڑھا کھودتے ہیں اور اس میں تنگ گردن والی مٹی کی مٹی کی ہنڈیا رکھتے ہیں، پھر اس میں اخروٹ بھر دیتے ہیں۔
بندر آتا ہے، اور جب وہ گڑھا دیکھتا ہے اور اس میں اخروٹ نظر آتے ہیں، تو وہ اپنا ہاتھ اندر ڈالتا ہے اور جتنی زیادہ مقدار میں اخروٹ لے سکتا ہے، اُتنا لے لیتا ہے۔ پھر وہ اپنا ہاتھ کھینچتا ہے لیکن وہ نہیں نکال پاتا، کیونکہ اس کا ہاتھ جتنا بھرا ہوتا ہے، وہ اتنا ہی تنگ مٹی کے منہ میں پھنس جاتا ہے۔
شروع میں وہ غصے میں آ کر اچھلتا ہے، چلاتا ہے اور اپنی پوری طاقت سے اپنی مٹھی کھینچتا ہے، لیکن بے فائدہ۔ اسے کبھی یہ خیال نہیں آتا کہ وہ اپنی مٹھی کو ڈھیلا کر دے اور اخروٹ چھوڑ دے۔ ایک گھنٹے بعد، وہ سکون پاتا ہے، اور پھر شکاری آ کر اسے پکڑ لیتے ہیں۔
*سبق…*
کسی بھی چیز کو پکڑے رکھنے کے بجائے، جب تمہیں یہ سمجھ آجائے کہ تم نے غلط اندازہ لگایا ہے، تو اپنی گرفت کو ڈھیلا کر دینا بہتر ہے۔ زیادہ جکڑنا، زیادہ نقصان کا باعث بنتا ہے۔”
یہ کہانی ہمیں سکھاتی ہے کہ کبھی کبھار زندگی میں کچھ چیزوں کو چھوڑ دینا یا چھوڑ دینے کا فیصلہ کرنا بہتر ہوتا ہے، بجائے اس کے کہ ہم اپنی غلطیوں پر اصرار کرتے رہیں اور ان میں پھنسے رہیں۔