صدف مرزا کے قلم سے. …
.
اس زمانے میں اہل مغرب کو مشرق کے اسرار اور سونے کی چمک ، مسالے کی مہک ، اور ریشم کی لپک میں ایسے ہی کشش دکهائی دیتی تهی جیسے آجکل نگاہ مشرق کو مغرب کی چکا چوند خیرہ کرتی ہے .
بادشاہ نے نہ صرف وہاں تجارت کا نیا راستہ کهولنے کی کوشش کی بلکہ اپنے مذہب کی تبلیغ و اشاعت کے لیے مبلغین بهی بهیجے
جہنوں نے طرح طرح کی مصیبتوں اور مشکلات کا سامنا کیا لیکن اپنے عزم و ارادے میں ثابت قدم رہے.
ان ہی تاریخی اقدامات کی وجہ سے
ڈنمارک کو صدیوں سے یہ فخر و امتیاز حاصل رہا کہ اس کی حکمت عملی میں لسانی تحقیق اور ثقافتی ہم آہنگی و انضمام شامل رہا.
.
ہندوستان میں 1620 تا 1845 میں کالونیوں کے قیام کے دوران بهی مقامی زبان کے فروغ و ترویج کے لیے نہ صرف بادشاہ نے اجازت دی بلکہ چهاپہ خانہ بهی مہیا کیا .
سرامپور کالج جسے
ایشیا میں سب سے پہلی مغربی یونیورسٹی سمجها جاتا ہے
اس کے لیے خصوصی اجازت نامہ بهی دنمارک کے بادشاہ نے عنایت کیا.
وہ دور ریفارمیشن کے بعد پروٹسٹنٹ مشن کے آغاز کا تها.
ہندوستان میں سب سے پہلا پروٹسٹنٹ مشن بهی ڈینش بادشاہ
کی خواہش و ایما پر بهیجا گیا.
آج بهی ترنگبار
اور سرامپور کی فضائوں میں ڈینش یادگاریں اور نشانیاں سانس لیتی ہیں
اور اس بات کا بین ثبوت ہیں کہ من حیث القوم ڈینش لسانی و تہذیبی و ثقافتی اقدار کی قدر کرتے ہیں اور
جہاں کہیں بهی ان کے قدم پہنچے انہوں نے اپنی قومی شناخت کے ساتھ ساتھ مقامی زبان کی ترویج میں بهی اہم کردار ادا کیا.
آج بهی ڈینش شاہی کتب خانے میں ہندوستان سے لائی جانے والی نشانیاں محفوظ ہیں.
پہلی تامل ناڈو لغت
پادریوں اور بحری جہازوں کے افسران کی تحریر کردہ یادداشتیں موجود ہیں جس کے ذریعے یہ تہذیبی و لسانی ورثہ محفوظ ہے.
آج بهی ڈنمارک اپنے قرنہا ہرانی اقدار کو زندہ رکهے ہوئے ہے.
ترقی پذیر ممالک میں جہاں بهی اس قوم نے سفارتوں کے سلسلے قائم کیے وہاں تعلیم و ترقی کی شمعیں روشن کرنے کی کوشش کی.
پاکستان میں ڈینش سفارت خانہ اس کہ واضح مثال ہے.
ییسپا مئولا سئونسن
Jesper Møller Sørensen
2013
کے بعد اچانک پاکستان کی فضاﺅں میں بهی ایک مستعد، متحرک اور … ہلچل ہوئی. ملکوں کے درمیان فاصلے کم کرنے اور روابط مستحکم کرنے کے لیے ایک آواز بلند ہوئی جس کی گونج
ڈنمارک میں مقیم پاکستانی کمیونٹی تک سنائی دی
پہلے کچھ چونک کر پهر متجسس ہو کر اس نئی آواز کو سنا گیا اور پهر مسرور اور متاثر ہو کر اس کے بسرے میں جاننے کی خواہش پیدا ہوئی.
یہ شاداب و تازہ صدا اسلام آباد پاکستان میں تعینات ہونے والے نئے ڈینش سفیر
ییسپا مئولا سئونسن کی تهی.
پاکستان میں بحیثیت سفیر تعینات ہونے سے قبل ییسپا مئولا سئونسن
امریکہ افغانستان اور ترکی جیسے بڑے اور صبر و حکمت آزما سر زمینوں میں اپنی پیشہ ورانہ جدمات انجام دے چکے تهے.
سفر در سفر اور دورانِ سفر اور قیام نئی سرزمینوں پر نئے حالات و خیالات سے واسطہ پڑنا ایک عام واقعہ ہے. سفارتوں کے سلسلے جب دو ممالک کے مابین مشترکہ مفادات و امکانات کے روزن کھولتے ہیں تو یہ تاریخ ساز اقدامات و فیصلے ہوتے ہیں
ییسپا مئولا سئونسن نے ترکی قیام کے دوران پورے ملک کا سفر کیا اور اپنے پیشے کو اور اپنی خداداد صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے ترکی کی تاریخ و ثقافت اور
جغرافیائی طور پر مکمل آگاہی و شعور کو مد نظر رکهتے ہوئے ایک کتاب
تحریر کی
اپنی پر جوش، متحرک ، فعال اور خوش گمان شخصیت کی وجہ سے ہی انہوں نے ترک شہریوں کے دلوں کو فتح کر لیا.
وہ ادائے دلبری ہو کہ نوائے عاشقانہ
جو دلوں کو فتح کر لے، وہی فاتحِ زمانہ
پاکستان میں اپنی تعیناتی کے فورا بعد اپنے مزاج اور ماضی کے معمول کے مطابق انہون نے مقامی حالات و واقعات میں بهرپور دلچسپی لی.
مقامی حکومت کے عہدیداروں سے ملاقاتیں کیں
ملک کے شرق و غرب میں سفر کیا . نوجوانوں سے رابطہ قائم کیا.
عوام تک خود پہنچنا اور ان کو خود اپنی ذات تک رسائی دینا اپنا نصب العین رکها
سادہ اور سہل زندگی کو جو ڈنمارک کا طرہ امتیاز ہے متعارف کرواہا .
بیرون ملک سفارت خانے قائم کرنے اور ان کو مثبت انداز میں کامیابی سے چلانے کے لیے بے شمار وسائل استعمال کیے جاتے ہیں. ملکی حالات کے مطابق ایسا سفیر منتخب کرنا جو اپنے پیشے کو ایمان سمجهتا ہو اور پهر اپنے عہدے اور وسائل کو بهرپور انداز میں بروئے کار لائے تا کہ جس ملک میں وہ تعینات ہو کر جائے اس کی سرزمین اور ہواؤں پر اپنے پائیدار نقوش ٹبت کر دے جو دو ممالک، دو معاشروں اقر دو تہذیبوں کے درمیان ایک ایسا خوش فکر اور خوش انداز سماجی و نظری مقام اتصال پیدا کرے جس کے اٹرات آئندہ زمانوں میں بهی محسوس کیے جائیں.
سفیر ڈنمارک ییسپا نے اپنے بچپن کے خوشگوار دنوں کو یاد کرتے ہوئے بتایا کہ ان کا بچپن اپنے دو بهائیوں اور گلی کے دوسرے بچوں کے ساتھ بے فکری سے کهیلتے کودتے گزرا.
کهیلتا … ہنستا مسکراتا اور زقندیں بهرتا بچپن
ان کو دستی بال کهیلتے کی خوب مشق و مہارت تهی جو کہ تیس برس تک جاری رہا
“”فٹ بال مین میری مہارت بس واجبی تھی اس لیے چودہ
برس تک کهیلا””
البتہ عمر روان کی تیسری دہائی میں سکواش اور پیراکی سے شغف ہو گیا
اپنے بچپن کے اوراق الٹتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ وہ ایک بالکل عام.. معتدل متوازن اور متوسط گهر میں پیدا ہوئے
ان کی والدہ سیکرٹری اور والد پلمبر تهے
وہ اکثر اپنی ویک ایند اور چھٹیوں میں والد کی مدد کیا کرتے تهے.
ان کے گهرانے میں کبهی سیاست
کو موضوعِ سخن نہیں بنایا گیا تھا اور نہ ہی انہوں نے کبهی یہ خواب سجایا کہ وہ کسی ملک کے سفیر بنیں گے. البتہ جب یونیورسٹی میں سیاسیات کے مضمون میں داخلہ لیا اور اپنی خصوصی توجہ عالمی تعلقات پر مرکوز کی تو ذہن کے کسی نہاں حصے مین یہ خیال کروٹ لے اٹها کہ
کہ ان کا مستقبل اور پیشہ دنیا دیکهنے اور اور دریافت کرنے کے شعبے میں ہی ہو گا.
1995
میں برسلز میں نیٹو
NATO
کے دوران انہیں اپنے مزاج کا بہتر اندازہ ہوا کہ ترک اور اطالوی دوستوں کے ساتھ بہترین اور دیر پا تعلقات نے یہ راستہ واضح کر دیا تها کہ انہیں مستقبل میں ایسے ہی کثیر الثقافتی ماحول میں کام کرنا ہی پسند ہے.
چند برس بعد بیرون ملک ملازمت کے لیے ایک درخواست دی جو کی منظور کر لی گئی اور 1997 میں وزارتِ امور خارجہ میں ڈپلو میٹ کے طور پر ملازمت کی ابتدا کی.
یہ محض ایک ملازمت نہیں تهی بلکہ بیرونی دنیا کے ساتھ ایک ہم آہنگی ، باہمی افہام و تفہیم اور جستجو و شوق کے ایک مسلسل سفر کا نقطۂ آغاز تها
2000
تا 2003 ان کو ترکی جیسے بڑے اسلامی ملک میں اپنی خدمات انجام دینے کا موقع ملا.
ان تین سالوں مین ییسپا نے نہ صرف اپنی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کے جهنڈے گاڑے بلکہ انہوں نے ایک ایک لمحے سے آگہی و تجربہ کشید کیا.
عظیم ڈینش مصنف Hans Christian Andersen
ہینس کرسچن آنا سن )
نے ایک صدی قبل ڈینش قوم کو کہا کہ
“” At rejse er at leve””
سفر کرنا زندگی کرنے کے مترادف ہے.
اس ڈینش سفیر نے اس قول کے مطابق ترکی جیسے بڑے ملک کے کونے کونے کی سیاحت کی.
صرف ایک نئے ملک میں سفارتوں کے سلسلے کو استحکام نہیں دیا بلکہ اپنے ذاتی علم و دانش میں اور شعور و آ گہی میں اضافے کے عملی اقدامات کئے
یہی وجہ تهی کہ جب وطن واپسی پر ایک مسلسل قومی بحث کی ابتدا ہوئی کہ ترکی کو یورپین یونین میں شرکت کی اجازت ہونی چاہئے یا نہیں .. کیونکہ وہ ایک بڑا ملک ہے…. کیونکہ وہ ایک مسلمان اکثریت والا ملک ہے وغیرہ
تو اس پس منظر میں ترکی کے ایک گزشتہ سفیر کی حیثیت سے 2005 میں ییسپا کی 390 صفحات کی کتاب
Tyrkiet – på vej gennem EUs nåleøje
منظر عام پر آئی. اگرچہ یہ کتاب ایک معاون مصنف کے ساتھ لکهی گئی ہے لیکن اس میں ییسپا کے ترکی میں گزارے گئے ماہ و سال کی واضح جهلک ہے .
یہ ہوتا ہے ایک سفیر کا کردار کہ وہ قومی وسائل و اخراجات کی بلند کرسی پر عظیم چار دیواری میں بیٹھ کر محض کاغذات پر سفارت کے گهوڑے نہیں دوڑاتا
بلکہ وہ اس ملک کی تاریخی، سیاسی، سماجی اور ثقافتی صورتِ حال پر ایک گہری نطر رکهتا ہے اس کا قیام و تجربہ اس کے الفاظ کو معتبر بناتا ہے
اور ضرورت پڑنے پر وہ قلم اٹها کر اسی سفارت کو کتاب کی صورت میں بهی پیش کر سکتا ہے.
سفیر ییسپا نے نہ صرف ترکی میں رہ کر لوگوں کو اپنا گرویدہ بنایا ڈنمارک میں مقیم ترک کمیونٹی کو بهی اپنا مداح بنا لیا
انہوں نے واشگاف الفاظ میں کہا کہ کوئی بهی ملک اپنے عقیدے اور مذہب کی وجہ سے رد نہیں کیا جا سکتا بلکہ اس ملک میں اقلیتوں کے ساتھ حسنِ سلوک اور برتاﺅ اہم ہے.
ملک میں لوگوں کو مکمل و مساوی حقوق حاچل ہیں کہ نہیں اور یہ کہ بلا امتیاز عمر اور صنف سب کو یکساں حقوق و مساوی مواقع دیئے گئے ہیں یا نہیں.
ایک سوال کس جواب دیتے ہوئے انہوں نے بہت سادہ الفاظ کہے
“” ترکی میں قیام و سفر کے دوران میں اس ملک کی محبت میں
مبتلا ہو گیا “”
جب اپنے پیشے اور ملازمت کے ساتھ والہانہ پن اور زوق و شوق کا یہ عالم ہو تو ایسے اذہان کے لیے کوئی افق آخری افق نہیں ہے.
2005 تا 2009
ان کا قیام امریکہ میں رہا.
امریکہ عالمی طاقت ہونے کے ناطے بہرحال اپنی خصوصی اہمیت رکهتا ہے. وہ بتاتے ہیں کہ
“” اس ملک میں قیام کے دوران بهی میں نے زندگی سے بہت حظ اٹهایا اور اکثر میں سائکل پر میٹنگ میں جایا کرتا تها “”
2010
تا 2011
انہیں افغانستان جیسے ملک میں تعینات کیا گیا. امریکہ کے بعد اس سنگلاخ ملک کے انتشار اور غیر منظم حالات سے بهی مشاہدے اور تجربے کے موتی جمع کیے اور
2013 تا حال پاکستان میں بطور سفیر بهیجے گئے.
اس ملک خداداد میں قدم رکهتے ہی انہوں نے حسبِ سابق دونوں ممالک میں تجارتی و کاروباری پیمانے پر رابطے کی سنہری و طلسمی ڈوری باندهی.
قلیل مدت میں ہی ڈنمارک میں بسنے والی پاکستانی کمیونٹی اور پاکستان میں رہنے والے اہل نظر نے اس بات کا اندازہ کر لیا کہ بے پناہ مثبت اندازِ فکر اور بے انتہا فعال اور متحرک زہن کے حامل ایک سفیر نے اپنی ذمہ دارانہ صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا ہے.
بلوچستان ، خیبر پختون خواہ
جیسے علاقوں میں ابتدائی تعلیم پر بهر پور توجہ ان ہی ڈینش اقدار و روایات کا اعادہ ہے جو 1620 عیسوی میں ترنگبار اور سرامپور میں تعلیم کی بنیاد رکهنے اور مقامی زبان کو فروغ دینے کی تاریخ میں ایک روشن باب ہیں.
ڈنمارک اور پاکستان کے باہمی تعلقات پاکستان میں افات ارضی و سماوی کے دوران مزید مستحکم ہوئے.
2007 کے سیلاب کے دوران ڈنمارک نے نہ صرف مالی معاونت میں فیاضی کا مظاہرہ کیا
بلکہ طبی سہولتوں، ادویات کی فراہمی اور عارضی ہسپتال بهی قائم کیے جس میں ڈینش رضاکاروں اور ڈاکٹروں نے بهی بهرپور حصہ لیا.
سفیر محترم کے زیر اہتمام دونوں ممالک میں ثقافتی بنیادوں پر بهی ادغام و انضمام کی کاوشیں کی گئیں.
اکتوبر 2014 میں موسیقی کا پروگرام ترتیب دیا گیا جس میں ڈینش پاکستانی مشترکہ گروپ کو مدعو کیا گیا.
Rocqawali’
راک قوالی گروپ کے تعاون سے
پاکستانی کلاسیکل قوالی کو پس منظر میں مغربی دهنوں راک اینڈ رول میں پرو کر ایک دلکش امتزاج پیش کیا گیا . گٹار کی پر سوز جهنکار کے ساتھ صوفی کلام کی آمیزش نے ایک نئے ماحول کی بنیاد رکھی. پروگرام کا اختتام روائتی مست قلندر قوالی کے ساتھ کیا گیا جس نے حاضرین کو مسحور کر دیا.
ڈنمارک سے بطور خاص ڈینش پکوان متعارف کروانے کے لیے ماہرین کو بلوایا گیا تا کہ اہل پاکستان کو ڈینش لذتِ کام و دہن کی جھلکیاں پیش کی جا سکیں.
تجارتی بنیادوں پر دونوں ممالک کے مابین کاروباری افراد کے دورے ترتیب دئیے گئے. ییسپا کا کہنا ہے کہ پاکستان ایک اہم اور بڑی منڈی ہے اور انہیں قوی امید ہے کہ دونوں ممالک ایک دوسرے کے تعاون و اشتراک سے خوش ائند تجارتی تعلقات قائم کر سکتے ہین.
پاکستان کو توانائی کے میدان میں بہتر اور مناسب ذرائع و وسائل کی ضرورت ہے اس ضمن میں ڈنمارک کے تجربے و مہارت سے فائدہ اٹهایا جا سکتا ہے.