آج کے دور میں کانا پھوسی کرنا معمولی بات ہے اورکوئی اس کا ایسا برا بھی نہیں مانتا لیکن قرون وسطیٰ میں خواتین کو کانا پھوسی کرنے پر ایسی کڑی سزا ملتی تھی کہ سن کر آج کی خواتین سجدہ شکر بجا لائیں کہ اس دور میں پیدا نہ ہوئیں۔ ویب سائٹ allthatsinteresting.com کے مطابق قرون وسطیٰ میں اگر کسی شوہر کو پتا چل جاتا کہ اس کی بیوی دوسری خواتین کے ساتھ مل کر کانا پھوسی کرتی رہی ہے تو وہ اس کے سر پر لوہے کا بنا ایک خول چڑھا دیتا تھا۔
اس خول کو ’چغل خور عورت کی لگام‘(Scold’s Bridle)کہا جاتا تھا۔ اس خول پر سر کی طرف لوہے کی کچھ پٹیاں لگی ہوتی تھیں اور سامنے کی طرف ایک نوکیلاحصہ ہوتا تھا جو عورت کے منہ میں ڈال دیا جاتا تھا۔ جونہی عورت بولنے کی کوشش کرتی یہ نوکیلا حصہ اس کی زبان میں چبھ جاتا۔قرون وسطیٰ کے شوہر اسی پر اکتفا نہ کرتے بلکہ اس خول کو پیچھے کی طرف گھوڑے کی لگام کی طرح ایک رسی ڈال کر پکڑ لیتے اور خواتین کو جانور کی طرح بازاروں میں گھماتے اور بازار میں موجود لوگوں کو ترغیب دیتے کہ وہ اس عورت کی تضحیک کریں اور اس پر تھوکیں۔
لوگوں کی توجہ حاصل کرنے کے لیے وہ عورت کے سر پر چڑھائے گئے خول کے ساتھ ایک گھنٹی بھی باندھ دیا کرتے تھے۔ اسی نوعیت کے خول غلاموں کو قابو کرنے کے لیے صدیوں تک استعمال کیے جاتے رہے۔بیویوں کے لیے اس خول کا استعمال 16صدی عیسوی کے اختتام کے بعد کم ہوتا چلا گیا اور اگلی صدی کے اختتام تک بالکل متروک ہو گیا تاہم غلاموں کے لیے یہ آہنی خول 19ویں صدی تک استعمال ہوتے رہے۔