کبھی ہم نے سوچا کہ ہمارے والدین خصوصا باپ نے ہمارے لئے کتنی قربانیاں دیںقربانیاں دیں؟
کالم نگار کالم نگار
قیصر محمود چوہدری
ان لوگوں نے کتنی محنت کی ، کتنی مشکل حالات سے انہوں نے زندگی گزاری
کبھی کبھی میرا دل کرتا ہے وقت اور حالات اجازت دیں تو ہم سب اکٹھے ہوں اور سب کو اکٹھا کرکے ایک سیمینار کی شکل میں سب اپنے اپنے والد کے بارے میں بتائیں ۔ خصوصی طور پر وہ بات جو کسی کو معلوم نہ ہو
وہ لمحہ جب آپ اور والد تھے اور کوئی دوسرا نہ تھا ۔ کوئی ایسی یاد جس کو سوچ کر آنکھیں نم ہو جاتی ہوں ۔
بھائی جانو؛
کبھی تنہائی کے لمحات میں والد کے ساتھ گزری وہ شام ،دن یا وقت جو اتنا یادگار ہو کہ اسے یاد کر کے دل پھٹا پھٹا جائے ۔ کاش کوئی ہو دل کا ہم راز جس کو اپنا حال دل سنا سکیں۔ اس سیمینار کے ذریعے ہم اپنے سے چھوٹوں کو بتا سکیں کہ تمہیں کیا معلوم مشکل وقت کیا ہوتا ، تمہیں کیا معلوم کہ جبر کا موسم کیا ہوتا ہے ۔ ہر کوئی اپنے اپنے والد کی وہ کہانی بیان کر سکے جو اس نے بچپن سے کر جوانی تک دیکھی ۔
قسم سے جب میں یاد کرتا ہوں تو اگر آنسو کی جگہ خون نکل سکتے تو خون کے آنسو نکل آئیں۔باپ کی کمی کو کوئ پورا نہئں کر سکتا۔جب مجھے میرے بابا جان اکثر یاد آتے ہیں اُن کی کمی کو بہت محسوس کرتا ہوں اور سوچتا ہوں” کاش وہ کچھ پل لوٹ آئیں جب میرے والد محترم کی محبتوں اورشفقتوں بھری آواز دل کو سکون سے بھر دیتی تھی۔اُن کی تھپکی ساری تھکاوٹیں اور پریشانیں دور کر دیتی تھی۔کاش وہ لمحے لوٹ آئیں!!
ذرا ہر کوئی چند لمحات کے لیے اپنے والد کو اپنے تخیل میں لائے ۔ ان کی چہرے پر اپنی نظریں جمائے ۔ چند لمحات کے لئے ایسے محسوس کرے کہ جیسے وہ سامنے ہیں اور ہم سے ہم کلام ہیں۔ کیا ہم ان کے چہرے کومحسوس کر سکیں گے؟ کیا اگر ہم ان سے ہم کلام ہوں تو پوچھ سکیں کہ ابا جی جیسے بھی انہیں پکارتے تھے پوچھیں کہ وہ سب آپ نے کیسےکر لیا تھا ۔ کیا کیا تکالیف اور مصیبتیں آپ نے برداشت کیں کتنے ہی جتن کیے اور اپنے کندھے پر کتنوں کا بوجھ اٹھایا ۔ جب میں اپنے والد سمیت ان تمام بزرگوں کو یاد کرتا ہوں اور ان کے بارے میں سوچتا ہوں تو دل کرتا ہے کہ “کاش اپنے والد سمیت ان سب کو اکٹھا کر کے ایسے سلامی دوں کہ تمام منصب تمام عزتیں شہرتیں ان کے قدموں پر نچھاور کر دوں ۔ کیا کبھی آپ سب بھی ایسا محسوس کیا ۔ کیا کبھی کسی رات رات والد کی یاد ستاتی ہے ۔ کہنے کو تو بہت کچھ کہہ سکتے ہیں ۔ بھا جانو
یارا! کیا آپ کا بھی دل تڑپتا ہے اور دل کرتا ہے کہ جب پاکستان جاؤں تو والد صاحب اپنی بانہوں میں کر پوچھیں پتر سفر کیسا رہا ۔ اپنے جزابات و احساسات سے آگاہ کریں ۔
بھائی جانو سیمینار تو شاہد نہ ہو سکے لیکن جہاں میسج کے ذریعے اپنی یاد شیئر کر سکتے ہیں
اے میرے باپ تیرے قدموں کی خاک پہ میرا سب کچھ قربان
اے میرے باپ تیرے قدموں پہ میری جان ،میری عزت ، میری آبرو ،میرا وقار ، میری آن شان میرا مان ،میرا دن میری رات
بس ابا جی ایک دفعہ کہہ دیں پتری آ سینے نال لگ جا
لو یو ٹو مچ۔
واقعی قیصر بھائی بہت ہارٹ ٹچنگ تحریر ہے۔ہم لوگ ہمیشہ ماں کی محبت کی ہی بات کرتے ہیں مگر باپ کی شفقت کے بغیر بھی زندگی ادھوری ہے۔یہ درست بات ہے ہمیں اپنے بچوں کو شفقت پدری کی اہیت کا بھی احساس دلانا چاہیے۔
میں نے آپ کی تحریر پہلی بار پڑہی ہے ما شااللہ بہت گہری باتیں لکھی ہیں آپ نے اپنی تحریر میں۔اللہ کرے زور قلم اور ذیادہ۔۔
آمین