کالے چور کی کارستانی

نا قابل یقین سچی کہانی
نانی اماں کی زبانی
حصہ اول
شازیہ عندلیب


یہ کہانی صبرینہ کی نانی اماں نے سنائی ۔آپ بھی انہی کی زبانی سنیں۔بچپن میں ہم لوگ اپنے گھر سے کچھ دور بہنے والے دریا میں تیرنے جایا کرتے تھے اور مچھلیاں بھی پکڑ ا کرتے تھے۔دریا کے دونوں طرف مردوں اور عورتوں کے تیرنے کے لیے الگ الگ کنارے مخصوص ہوتے تھے ۔جنہیں مقامی زبان میں بیلا کہا جاتا تھا۔یہاں پر عورتیں کپڑے بھی دھوتی تھیں اور پینے کا پانی گاگروں صراحیوں اور گھڑوں میں بھر کر لے جایا کرتی تھیں۔عورتوں کے بیلے کی طرف درختوں کا ایک جھنڈ تھا۔بچے اور عورتیں دریا میں نہانے اور تیرنے سے پہلے اور بعد میں اسی جھنڈ میں اپنے فالتو کپڑے اور زیور اتارا اور پہنا کرتے تھے۔بڑی عمر کی عورتیں اپنے سونے کے قیمتی زیورات جن میں سونے کی زنجیریں چوڑیاں اور ہار وغیرہ ہوتے تھے وہ بھی کپڑوں کے ساتھ اتار کر رکھ دیا کرتی تھیں۔ اس زمانے میں ہم لوگ تیراکی کا خاص لباس استعمال نہیں کرتے تھے بلکہ صرف شلوار اور شمیض پہن کر ہی تیر لیتے تھے دوپٹے اور زیورات اتار کر رکھ دیتے تاکہ وہ پانی میں بہہ نہ جائیں۔عورتوں والی سائڈ پر کسی مرد کو آنے کی اجازت نہیں ہوتی تھی۔
ہمارا یہ قصبہ پنجاب کے مشہور دریائے جہلم کے کنارے واقع ہے۔اس زمانے میں دریا میں تیرنے کے لیے قصبے کی سب امیر غریب عورتیں جایا کرتی تھیں۔سب لوگ مل جل کر ہنسی خوشی رہتے تھے۔امیر غریب کی کوئی تفریق نہ تھی۔گرمیوں کے موسم میں قصبے میں خوب چہل پہل ہوتی تھی۔ہمارے گاؤں میں تقسیم ہند سے پہلے ہندو بھی آباد تھے۔جبکہ کچھ خاندان لکھنؤ اور آگرہ سے چھٹیاں گزارنے یہاں آیا کرتے تھے۔ہمارے کچھ رشتہ دار لکھنؤ میں آباد تھے وہ اکثر موسم گرماء کی چھٹیوں میں ہمارے قصبے میں آتے۔انکی حویلی دریا کے کنارے تھی۔اس کے ساتھ انکی کئی مربعہ ایکڑ زرعی زمینیں بھی تھیں۔انکی زمینوں پر ایک کنواں بھی تھا۔اس خاندان کے بزرگ اپنی نیکی اور انصاف پسندی کی وجہ سے مشہور تھے۔لکھنؤ میں انکی صابن کی فیکٹریاں تھیں۔ان کے بارے میں مشہور تھا کہ کوئی چور انکی چوری نہیں کر سکتا۔کیونکہ یہ خاندان رزق حلال پر یقین رکھتا تھا۔جب وہ لوگ لکھنؤ جاتے تو پیچھے سے انکا گھر خالی پڑا رہتا تھا۔ایک مرتبہ ایک چور نے انکے ہاں چوری کی کوشش کی تو وہ اندھا ہو گیا تھا۔یہ قصہ پورے قصبے میں مشہور تھا۔اس کے علاوہ ان کے ایک بزرگ اذان دیا کرتے تھے۔جس کی آواز میلوں دور تک سنی جا سکتی تھی۔اپنی وفات سے دو روز پہلے انہوں نے اپنی بیوی سے کہا کہ میں نے اذان کے دوران ایک ایسا خوبصورت گھر دیکھا جو اس سے پہلے نہیں دیکھا تھا۔یہ سن کر انہوں نے کہا کہ آپ نے تو جنت دیکھ لی ہے۔اس کے دو روز بعد انکا انتقال ہو گیا۔بعد میں میری شادی بھی اسی خاندان میں ہوئی تھی۔عورتوں کا بیلا اسی حویلی کے پاس تھا۔ہم لوگ موسم گرماء میں آتے جاتے اس حویلی کے پا س سے گزرا کرتے تھے اور اس خوبصورت اور وسیع حویلی کو دیکھنا بہت کے اچھا لگتا تھا۔اس وقت میں نہیں جانتی تھی کہ میری قسمت اسی حویلی کےکے ساتھ جڑ جائے گی۔

میں اوقت آٹھ برس کی تھی جب ماں جی سمیت پانچ عورتیں جو کہ آپس میں سہیلیاں تھیں دریا پر آئیں۔ یہ سب عورتیں بہت صحتمند و توانا تھیں۔اس لیے کہ وہ ہر روز کئی کئی میل پیدل چل کر دریا سے پانی بھر کر لاتی تھیں۔پھر گھرکے سارے کام بھی خود ہی کرتی تھیں۔یہ محنتی اور جفاکش عورتیں کسی سے نہیں ڈرتی تھیں۔ وہ سب ایک ساتھ مل کر دریا پر پانی بھرنے اورکپڑے دھونے آئی تھیں۔ ماں جی کی ایک سہیلی خالہ تاجی کے سونے کی انگوٹھی گم ہو گئی۔یہ سونے کی انگوٹھی خالہ تاجی نے درختوں کے جھنڈ میں اپنی چادر کے ساتھ رکھی تھی تاکہ تیراکی کے دوران پانی میں نہ بہہ جائے۔۔انگوٹھی بہت تلاش کی مگر نہ ملی۔ماں جی کی سہیلی خالہ تاجی بہت پریشان ہوئی۔سب سے پوچھا مگر سونے کی انگوٹھی نہ ملی۔وہ سب چور کی تلاش میں تھیں کہ وہ ملے تو سب مل کر اسکی ٹھکائی کر دیں۔مگر کئی دنوں تک نہ تو انگوٹھی کا سراغ ملا اور نہ ہی چور کا کچھ پتہ چلا۔مگرجب پتہ بھی چلا تو وہ چور کی ٹھکائی تو دور کی بات اسے ہاتھ بھی نہیں لگا سکتی تھیں حالانکہ وہ انکے سامنے تھا۔۔۔۔۔۔۔
جاری ہے۔۔۔۔

اپنا تبصرہ لکھیں