کامیابی کی چابی

Waseem Hyder                                                         وسیم ساحل
نوجوانوں کا ایک گروپ ٹرنینگ کے لیے بیرون ملک جاتا ہے۔ گروپ  کو تین تین افراد میں بانٹ دیا جاتا ہے۔اس گروپ کو ایک ایسی عمارت میں ٹھہرنے کے لیےجگہ ملتی ہےجو75 منزلہ ہوتی ہے۔ان کو 75 ویں منزل پر کمرہ ملتا ھے.. ان کو عمارت کی انتظامیہ باخبر کرتی ھے کہ یہاں کے نظام کے مطابق رات کے 11 بجے کے بعد لفٹ کے دروازے بند کر دیے جاتے ھیں لھذا ھر صورت آپ کوشش کیجیے کہ دس بجے سے پہلے آپ کی واپسی ممکن ھو کیونکہ اگر دروازے بند ھوجائیں تو کسی بھی کوشش کے باوجود لفٹ کھلوانا ممکن نہ ھوگا..
پہلے دن گروپ کے تمام لڑکے سیر و سیاحت کے لیے نکلتے ھیں اور رات 11 بجے سے پہلے واپس لوٹ آتے ھیں مگر دوسرے دن گروپ کےتین لڑکے لیٹ ھوجاتے ھیںانتظامیہ کے نظام کے مطابق رات کے 11 بجے کے بعد لفٹ کے دروازے بند ھوچکے تھے.. ان تینوں کو اب کوئی راہ نظر نہ آئی کہ کیسے اپنے کمرے تک پہنچا جائے جبکہ کمرہ 75 منزل پر ھے.
تینوں نے فیصلہ کیا کہ سیڑھیوں کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ تو نہیں ھے تو یھاں سے ھی جانا پڑے گا..ان میں سے ایک نے کہا.. ” میرے پاس ایک تجویز ھے.. یہ سیڑھیاں ایسے چڑھتے ھوئے ھم سب تھک جائیں گے.. ایسا کرتے ھیں کہ اس طویل راستے میں ھم باری باری ایک دوسرے کو قصے سناتے ھوئے چلتے ھیں.. 25 ویں منزل تک میں کچھ قصے سناوں گا اس کے بعد باقی 25 منزل تک دوسرا ساتھی قصے سنائے گا اور پھر آخری 25 منزل تیسرا ساتھی.. اس طرح ھمیں تھکاوٹ کا زیادہ احساس نہیں ھوگا اور راستہ بھی کٹ جائے گا.. “اس پر تینوں متفق ھوگئے..
پہلے دوست نے کہا.. ” میں تمہیں لطیفے اور مذاحیہ قصے سناتا ھوں جسے تم سب بہت انجوائے کروگے.. ” اب تینوں ھنسی مذاق کرتے ھوئے چلتے رھے..جب 25 ویں منزل آگئی تو دوسرے ساتھی نے کہا.. ” اب میں تمہیں قصے سناتا ھوں مگر میرے قصے سنجیدہ اور حقیقی ھونگیں.. “
اب 25 ویں منزل تک وہ سنجیدہ اور حقیقی قصے سنتے سناتے ھوئے چلتے رھے.. جب 50 ویں منزل تک پہنچے تو تیسرے ساتھی نے کہا.. ” اب میں تم لوگوں کو کچھ غمگین اور دکھ بھرے قصے سناتا ھوں.. ” جس پر پھر سب متفق ھوگئے اور غم بھرے قصے سنتے ھوئے باقی منزلیں بھی طے کرتے رھے..تینوں تھک کر جب دروازے تک پہنچے تو تیسرے ساتھی نے کہا.. ” میری زندگی کا سب سے بڑا غم بھرا قصہ یہ ھے کہ ھم کمرے کی چابی نیچے استقبالیہ پر ھی چھوڑ آئے ھیں..یہ سن کر تینوں پر غشی طاری
ھوگئی..
اگر دیکھا جائے تو ھم لوگ بھی اپنی زندگی کے 25 سال ھنسی مذاق ‘ کھیل کود اور لہو و لعب میں گزار دیتے ھیں.. پھر باقی کے 25 سال شادی ‘ بچے ‘ رزق کی تلاش ‘ نوکری جیسی سنجیدہ زندگی میں پھنسے رھتے ھیں..

اور جب اپنی زندگی کے 50 سال مکمل کر چکے ھوتے ھیں تو زندگی کے باقی آخری سال بڑھاپے کی مشکلات ‘ بیماریوں ‘ ھوسپٹلز کے چکر ‘ بچوں کے غم اور ایسی ھی ھزار مصیبتوں کے ساتھ گزارتے ھیں.. یھاں تک کہ جب موت کے دروازے پر پہنچتے ھیں تو ھمیں یاد آتا ھے کہ “چابی” تو ھم ساتھ لانا ھی بھول گئے..
رب کی رضامندی کی چابی..
جس کے بغیر یہ سارا سفر ھی بےمعنی اور پچھتاوے بھرا ھوگا..اس لیے اس سے پہلے کہ آپ موت کے دروازے تک پہنچیں ‘ اپنی چابی حاصل کرنےکے لیےتخلیق کائنات ,عبادات الہیہ اور خدمت انسانی کو سمجھنا ہو گا۔ ایک دفعہ ایک بدوامیرالمومینین حصرت علی ابن ابی طالب کی خدمت میں حاضر ہوا اور کچھ حاجت کی درخواست کی امیرالمومینین حصرت علی ابن ابی طالب نے فرمایا گھر میں سوائے آج کی روٹی کےکچھ نہیں۔ بدو نے مایوس ہو کر کہا کہ الله تعالی آپ سے میرے متعلق باز پرس کرے گا اور چل پڑا آپ ہچکیوں سے رو پڑے اربدو کو واپس بلایا اور اپنی قیمتی ذرہ جوآپ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے چہرہ مبارک پر امڈتی ہوئی پریشانیوں کو بارہا دور کرنے کے لیےاستمال کرتے تھے , بدو کو دے دی اور فرمایا کہ اگر یہ دنیا میرےلیے سونا چاندی بن جائے تو آج سب اسکو دے دوں تو تب بھی مجھے کوئی کوفت نہیں ہو گی کیونکہ جو شخص میرے پاس کھڑا ہے اگر الله تعالی نے مجھ سے اسکےاس کے بارے میں بازپرس کی تو میں کیا جواب دوں گا۔ ایسے اعمالوں سے رب کی رضامندی کی چابی حاصل کی جاتی ہے۔
اپنا تبصرہ لکھیں