“کبھی کبھی انسان کے اپنے ہی فیصلے اس کی سمجھ سے پرے ہوتے ہیں؟”

ہر انسان خود کو اتنا ذہین تو سمجھتا ہی ہے کہ وہ جو فیصلہ اپنے حق میں کر رہا ہے وہ اس کے لئے بہتر ہے/ہوگا۔ یہ الگ بات ہے کہ اکثر انسان اپنے بڑے آٓسان سے معاملات میں بھی بڑی سے بڑی ٹھوکریں کھا جاتا ہے ألا یہ کہ وہ کتنا ہی بڑا دانشور کیوں نہ ہو! اس کی بڑی ساری مثالیں دنیا کی ہر تاریخ میں موجود ہیں کہ جب بھی انسان نے خود کو خودمختار سمجھ کر کوئی فیصلہ کیا ہے تو یقیناً وہ اوندھے منھ نیچے کو ہی گرا ہے، جبکہ اس کے برعکس کچھ لوگوں نے اپنی زندگی کے فیصلے حالات کی ستم ظریفی یا مشکلات کی وجہ سے لینے کو مجبور ہوئے ہیں لیکن انجام کے اعتبار سے وہ ان کے موافق ہی نہیں رہا بلکہ سرخ روئی کا باعث بھی بنا ہے!
پورے قرآٓن کی رو سے جب ہم دیکھتے ہیں تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ انسان نے جب بھی کبھی کوئی بھی فیصلہ اپنے رب کے نام پر لیا ہے اور اس نے پوری کائنات اور اس میں بسنے والی مخلوق کو ذہن میں رکھا ہے تو یقیناً اسے کامیابی ہی ملی ہے۔ اس لحاظ سے اس دنیا میں دو کیا بلکہ تین گروہ دیکھنے میں آٓئے ہیں۔ ایک وہ جو ظالم رہا ہے جب بھی کبھی اس نےخودسری دکھائی ہے تو اس کا اپنا ہی فیصلہ ذلت و رسوائی کا سبب بنا ہے۔ جبکہ دوسرا طبقہ مظلوموں کا رہا ہے اس نے جو بھی ارادہ کیا رب کے بھروسے ہی کیا’ جس میں اسے کبھی تو صرف کامیابی ملی اور کبھی اس کے ساتھ دنیا میں بلند مقام و مرتبہ حاصل ہوا، اس کے علاوہ تیسرا طبقہ اپنے حال میں محو رہا ہے جسے نہ دنیا والوں کی فکر نہ اس کے بنانے والے کے نظام سے کوئی سروکار!
یہاں پر میں ظالم و مظلوم کی، فرعون کے اس واقعے سے وضاحت کرنا چاہوں گی جبکہ اس نے اپنے فی زمانہ حکومت میں یہ فرمان جاری کر دیا تھا کہ’بنی اسرائیل میں پیدا ہونے والے لڑکوں کو ذبح کر دیا جائے اور ان کی لڑکیوں کو زندہ چھوڑ دیا جائے’ جو کہ خدائی نظام میں فساد برپا کرنے والا حکم تھا! اللّٰه کی مشیت یوں ہوی کہ بہت سی پیشینگوئیوں کے باوجود بھی فرعون بی بی آٓسیہ کی عاجزی پر اس بچے کو اپنانے کے لئے راضی ہو گیا جو خود اس کی اور اس کے تمام جاہ و سلطنت کا قلعہ قمع کرنے والا تھا۔ دلیل:
فَالۡتَقَطَہٗۤ اٰلُ فِرۡعَوۡنَ لِیَکُوۡنَ لَہُمۡ عَدُوًّا وَّ حَزَنًا ؕ اِنَّ فِرۡعَوۡنَ وَ ہَامٰنَ وَ جُنُوۡدَہُمَا کَانُوۡا خٰطِئِیۡنَ
اس طرح فرعون کے لوگوں نے اس بچے ( یعنی حضرت موسیٰ علیہ۔السلام ) کو اٹھا لیا ، تاکہ آخر کار وہ ان کے لیے دشمن اور غم کا ذریعہ بنے ۔ بیشک فرعون ، ہامان اور ان کے لشکر بڑے خطاکار تھے ۔
(سورہ: القصص؛ ٠٨:٢٨)
جبکہ اس کے برعکس امہ موسیٰ اپنے نو مولود بچے کو اللّٰه کی رضا و اشارے پر جبر کے پتھر سینے پر رکھ کر سمندر میں ڈالنے کو مجبور تھیں۔ کیونکہ ربِّ کائنات کو یہ منظور تھا کہ اس بچے کی کشش اس کے دل میں ڈال کر اسے فرعون کی نظروں کے سامنے ہی امہ موسیٰ کے ذریعے پروان چڑھایا جائے۔ جس کا علم نہ ہی فرعون کو تھا اور نہ ہی امہ موسیٰ کو۔ مگر رب تعالیٰ کا اٹل فیصلہ کچھ اس طرح ہی ہوتا ہے کہ ظالم کو اس کے کمزور کے ذریعے سے ہی سزا ملتی ہے لیکن جب تک اندھے کو بصیرت نہ ملے کسی مظلوم کے لئے مشکل عزم کرنا کافی دقت طلب امر ہوتا ہے۔ اس کی بڑی جامع وضاحت قرآٓن کی آٓیتوں سے ملتی ہے:
فَرَدَدۡنٰہُ اِلٰۤی اُمِّہٖ کَیۡ تَقَرَّ عَیۡنُہَا وَ لَا تَحۡزَنَ وَ لِتَعۡلَمَ اَنَّ وَعۡدَ اللّٰہِ حَقٌّ وَّ لٰکِنَّ اَکۡثَرَہُمۡ لَا یَعۡلَمُوۡنَ
پس ہم نے اس کو اس کی ماں کی طرف لوٹا دیا کہ اس کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں اور وہ غم نہ کھائے اور تاکہ وہ اچھی طرح جان لے کہ اللہ کا وعدہ پورا ہوکے رہتا ہے لیکن اکثر لوگ اس حقیقت کو نہیں جانتے ۔
(سورہ: ایضاً ؛ آٓیت:١٣)
اس طرح ہمیں اس قصے سے یہ سبق ملتا ہے کہ زندگی میں خدا کی حدود سے تجاوز کریں گے تو رہتی دنیا تک مردود و ملعون کی فہرست میں شامل ہوکر رہیں گے جبکہ دوسری جانب حالات کی نزاکت کچھ بھی ہو اللّٰه پر توکل کرکے اندھیرے میں بھی روشنی کی تلاش کرنی چاہیے کوشش بہتر کی کرنی اللّٰه نے چاہا تو؛
ہر اندھیرے کا جگر چیر کے نور آٓئےگا
تم ہو فرعون تو موسیٰ بھی ضرور آٓئے گا!
.
رَبِّ ہَبۡ لِیۡ حُکۡمًا وَّ اَلۡحِقۡنِیۡ بِالصّٰلِحِیۡنَ
اے میرے رب! مجھے قوتِ فیصلہ عطا فرما اور مجھے زمرۂ صالحین میں شامل کر!
(سورہ الشعراء؛ ٨٣:٢٦)

Dr. Nurina Parveen
Assistant professor
Falah-e-Ummat Girls’ PG College.

اپنا تبصرہ لکھیں