ترتیب: خالد محمود، خالد جاوید
صفحات: 248، قیمت: 150روپے
ناشر: دہلی اردو اکیڈمی، سی پی او بلڈنگ کشمیری گیٹ، دہلی ۔ 6
تبصرہ نگار: سہیل انجم
ادھر حالیہ کچھ برسوں میں اردو کے جادو قلم اور مقبول عام جاسوسی ناول نگار ابن صفی کے کارناموں، ان کی خدمات او ران کے ادبی نصب العین پر تیزی سے کام ہو رہا ہے۔ ہند و پاک میں ان پر کتابیں شائع کی جا رہی ہیں اور اردو کے جریدے ان پر خصوصی شمارے نکال رہے ہیں۔ ہندوستان کے مقابلے میں پاکستان میں زیادہ کام ہوا ہے بلکہ ہو رہا ہے۔ البتہ ہندوستان میں اب ابن صفی پر سمیناروں کا بھی اہتمام ہونے لگا ہے۔ مولانا ابواکلام آزاد اردو نیشنل یونیورسٹی حیدر آباد اور جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی میں بھی سمیناروں کا انعقاد ہوا ہے۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ کا تین روزہ سمینار اپنے آپ میں کافی اہم تھا جس میں ملک بھر سے ادیبوں، مصنفوں اور صحافیوں نے اپنے مقالے پیش کیے۔ یہ سمینار دہلی اردو اکیڈمی کے اشتراک سے ہوا تھا اور اس کے کنوینر اس وقت کے شعبہ اردو جامعہ ملیہ کے صدر پروفیسر خالد محمود کو مقرر کیا گیا تھا۔ انھوں نے ابن صفی سے گہری دلچسپی رکھنے او رابن صفی پر قابل قدر کام کرنے والے شعبہ اردو میں استاد ڈاکٹر خالد جاوید کو اپنا معاون بنایا۔ اس طرح یہ سمینار 14تا 16دسمبر 2012 کو منعقد ہوا۔ اس سمینار میں جو مقالے پیش کیے گئے تھے ان کو ترتیب دے کر اب کتابی شکل میں شائع کر دیا گیا ہے جو ابن صفی کے چاہنے والوں کے لیے ایک گراں قدر تحفہ ہے۔
اس کا پیش لفظ خالد محمود نے او رمقدمہ خالد جاوید نے لکھا ہے۔ خالد محمود جو کہ اس وقت دہلی اردو اکیڈمی کے وائس چیئرمین ہیں، ابن صفی پر قومی سطح کا سمینار کرنے کا خواب ایک عرصے سے اپنے دل ودماغ میں پالے ہوئے تھے اور جیسے ہی انھیں موقع ملا انھوں نے اس خواب کو تعبیر پہنا دی۔ خالد جاوید نے اس سے قبل ابن صفی چند معروضات کے عنوان سے ایک قابل توجہ مضمون قلمبند کیا تھا جس نے شائقین ابن صفی اور دوسرے لوگوں کی توجہ اپنی جانب مبذول کی تھی۔ انھوں نے جو مقدمہ لکھا ہے وہ بھی بہت اہم ہے اور کئی نئے گوشوں کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ غالبا مجنوں گورکھپوری نے اپنے ایک مضمون میں ابن صفی پر تنقید کی تھی جس کا مفہوم یہ ہے کہ ابن صفی نے صرف ایک ناول لکھا تھا وہ اپنے باقی تمام ناولوں میں اسی کی تکرار کرتے رہے۔ لیکن مجنوں گورکھپوری ابن صفی کی زبان سے متاثر ہوئے بغیر بھی نہ رہ سکے۔ انھوں نے جہاں مذکورہ بالا خیال کا اظہار کیا ہے وہیں یہ بھی لکھا ہے کہ ابن صفی کی زبان معیاری ہے اور اس میں ادبی چاشنی بھی ہوتی ہے اور محاوروں کا لطف بھی جو افسانے کی گہرائی اور دل کشی برقرار رکھنے میں مدد دیتا ہے۔ خالد جاوید نے بھی مجنوں گورکھپوری کی رائے کے مماثل اپنی رائے رکھی ہے لیکن دوسرے انداز میں اور تحسین آمیز پیرائے میں۔ ان کے مطابق ابن صفی نے در اصل زندگی بھر ایک ہی ناول لکھا ہے یا شائد دو ناول لکھے ہوں۔ ایک فریدی حمید کے کرداروں پر مشتمل اور دوسرا عمران پر۔ ان کی تحریریں در اصل ایک مہاکاویہ ایک مہابیانیہ ہیں جو لگاتار اٹھائیس سال تل قسطوار شائع ہوتا رہا۔ انھوں نے ابن صفی پر عائد کیے جانے والے بہت سے الزامات کو اپنے دلائل سے غلط ثابت کیا ہے۔ اس کتاب میں پیش لفظ اور مقدمہ کو چھوڑ کر کل بیس مضامین ہیں جن میں مختلف انداز میں ابن صفی کے فن کا جائزہ لیا گیا ہے۔
مسلم یونیورسٹی علیگڑھ میں شعبہ صحافت کے صدر پروفیسر شافع قدوائی نے اپنے مضمون میں ابن صفی کو قرا ت مسلسل کا استعارہ قرار دیا ہے اور لکھا ہے کہ ابن صفی کے فن کے معروضی مطالعہ کا سلسلہ ہنوز شروع نہیں ہوا ہے گو کہ ان سے متعلق بہت سا مواد اشاعت پذیر ہو چکا ہے۔ وہ سوال کرتے ہیں کہ ابن صفی کی تحریروں کا سحر گزشتہ دہائیوں سے کیوں قائم ہے؟ اس سوال کے جواب کے لیے مقبول ادب کے جمالیاتی اصولوں سے استنباط لازمی ہے۔ انھوں نے ابن صفی کے ناولوں پر نقادوں کی جانب سے توجہ نہ دینے کا شکوہ کیا ہے اور ان کی تحریروں پر عائد کیے جانے والے الزامات کو غلط قرار دیا ہے۔ ابن صفی کی تحریروں میں جہاں عوامی دلچسپی ہوتی ہے وہیں ان میں ادبی رنگ بھی ہے۔ ان کی تحریروں میں بڑا سحر ہے اور بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ ان میں شعریت بھی ہے۔ علی احمد فاطمی نے ابن صفی کی تحریروں میں شعریت کی تلاش کی ہے۔ ابن صفی کے ناولوں میں طنز و مزاح کا مزا بھی خوب ہے۔ انھوں نے اپنے کرداروں کی زبانی ایسے ایسے طنز کیے ہیں کہ طبیعت عش عش کر اٹھتی ہے۔ عمران، حمید اور قاسم کے کرداروں میں طنز کے ساتھ ساتھ مزاح کا جو پہلو ہے وہ قاری کو بے ساختہ اپنی جانب کھینچتا ہے۔ مختار ٹونکی نے ابن صفی کے ناولوں کے مختلف حوالوں سے ان کی تحریر میں طنز و مزاح کا دلچسپ انداز میں جائزہ لیا ہے۔
ابن صفی نے اپنے ناولوں میں کہیں کہیں نقادوں اور شاعروں کا مذاق بھی اڑایا ہے لیکن ان کی تنقیص نہیں کی ہے۔ مناظر عاشق ہرگانوی نے ابن صفی کے جاسوسی ناولوں میں اردو کا ذکر کے عنوان سے اردو کے تعلق سے ابن صفی کی آرا کا جائزہ لیا ہے۔ ایک عورت قاسم سے کہتی ہے کہ مجھے بھی سکھا دو اردو کی گالیاں۔ اور قاسم اسے گالیاں سکھاتے ہوئے کہتا ہے کہ ایک ہلکی سی گالی بتاتا ہوں تم شائد ادا بھی کر سکو، حرام زادہ۔ عورت حرام زادہ رٹنے لگتی ہے۔ پھر اس کا محل استعمال پوچھتی ہے جس پر قاسم کہتا ہے کہ کہیں بھی استعمال کر ڈالو کوئی پابندی نہیں ہے۔ اس پر وہ قاسم حرام زادہ فٹ کر دیتی ہے۔ پھر وہ بتاتی ہے کہ چونکہ یہ گالی صوتی اعتبار سے اچھی ہے اس لیے وہ قاسم کو حرام زادہ ہی کہا کرے گی۔ مناظر عاشق نے ایسی بہت سی مثالیں پیش کی ہیں۔ خالد جاوید نے اپنے ایک مضمون میں عمران کے کردار کا جائزہ لیا ہے۔ شعیب نظام نے انور اور رشیدہ کا۔ رضی الرحمن نے حمید کا اور شان فخری نے مجموعی کردار نگاری کا جائزہ لیا ہے۔ جبکہ لئیق رضوی نے ابن صفی کے منفی کرداروں کا احاطہ اپنے مقالے میں کیا ہے۔ ابن صفی جہاں جرائم اور ہمہ قسم کی برائیوں کے خلاف تھے اور انھیں سماج سے ختم کرنا چاہتے تھے وہیں وہ ایک پختہ عقیدے کے مسلمان بھی تھے۔ انھوں نے اپنے ایک غیر جاسوسی ناول تزک دو پیازی میں بد عقیدہ مسلمانوں خاص طور پر جعلی پیروں فقیروں او رمجاوروں اور ان کے چیلوں چانٹوں کی انتہائی دلچسپ انداز میں قلعی کھولی ہے۔ راقم (سہیل انجم) نے تزک دو پیازی کا جائزہ لیا ہے۔
اس کے علاوہ اس کتاب میں ابن صفی کے ادبی نصب العین، ابن صفی فن اور شخصیت، ابن صفی کے بعض امتیازات اور اردو فکشن میں ابن صفی کی معنویت کا بھی جائزہ لیا گیا ہے۔ دیگر قلمکاروں میں قاضی مشتاق احمد، وہاج الدین علوی، یعقوب یاور، قمر الہدی فریدی، محمد عارف اقبال، خان احمد فاروق اور سیفی سرونجی بھی شامل ہیں۔ لیکن ابن صفی کے لازوال کردار فریدی کے بارے میں الگ سے کوئی مقالہ نہیں ہے۔ اس کردار کا بھی جائزہ لیا جانا چاہیے تھا۔ مجموعی طور پر کہا جا سکتا ہے کہ یہ کتاب ابن صفی شناسی میں معاون و مددگار ہو سکتی ہے اور اسے خالدین کا رنامہ کہا جا سکتا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ابن صفی پر ابھی اور کام کیا جائے۔ جن دنوں ان کے ناول بازاروں میں ہاٹ کیک کی مانند بکتے تھے ان دنوں ایسے بہت سے ابن صفی کے عاشق پیدا ہو گئے تھے جنھوں نے ان کے ناول پڑھنے کے لیے ہی اردو سیکھی۔ لہذا اگر آج بھی ان کے ناولوں کو رواج دیا جائے تو ممکن ہے کہ کچھ نئے لوگ اردو سیکھنے پر مجبور ہو جائیں۔ اس کے علاوہ اگر اردو جاننے والے ان ناولوں کا مطالعہ کریں تو ان کی زبان اچھی ہو سکتی ہے۔ اردو کے نوجوان صحافیوں کو بھی ابن صفی کے ناول پڑھنے چاہئیں اور ان کی تحریروں کی روشنی میں اپنی تحریروں میں ادبی چاشنی پیدا کرنی چاہیے۔ اگر ایسا ہو جائے تو صحافت کا بھی کچھ بھلا ہوگا۔
sanjumdelhi@gmail.com
احمد صفی
لاھور پاکستان