(شیخ خالد زاہد)
کچھ حقیقتیں اتنی تلخ ہوتی ہیں کہ انکا سامنا کرنے کا حوصلہ نہیں ہوتا، لیکن سچائی چیخ چیخ کر اس حقیقت کو حرف عام بنا دیتی ہے۔ ہم بارہا بے حسی کا تذکرہ کرتے رہے ہیں اور یہ حقیقتیں اور یہ سچائیاں بھی اس بے حسی کی بھینٹ چڑھتی جا رہی ہیں بلکہ تقریباً چڑھ ہی چکی ہیں۔ ہمارے ملک میں روزانہ رات آٹھ بجے سے تقریباً گیارہ بجے تک ٹیلی میڈیا پر بڑے بڑے سیاسی فلسفی جلوہ گر ہوتے ہیں اور حالات و اقعات پر بھر پور گفتگو ہوتی ہے۔کچھ تو مانتے ہیں کہ یہاں بیٹھ کر ہی انکی روزی روٹی کا بندوبست ہوتا ہے باقیوں کا علم نہیں کہ وہ فقط روزی روٹی کی خاطر وہاں بیٹھے ہوتے ہیں یا پھرکوئی اور وجہ انہیں وہاں بیٹھائے رکھتی ہے۔ اب سچ بولنے کا رواج رہا نہیں، اب صرف بولنے کا رواج ہے یعنی آپ کے سامنے مائیک اور کیمرہ ہے اب آپ بولیں۔ ایسا نہیں کہ یہ کام صرف ٹیلی میڈیاپر سرانجام دیا جارہا ہے بلکہ پڑنٹ میڈیا اور سماجی میڈیا والے بھی سیاسی کیا، معاشرتی کیا،مذہبی کیا، تقریباً ہر موضوع پر طبع آزمائی کرتے دیکھے جاسکتے ہیں اور بڑے بڑے مسائل کے حل بھی تلاش کئے جاسکتے ہیں، ہم بھی اپنے آپ کو ان لوگوں میں شامل رکھتے ہوئے نا چاہتے ہوئے بدبودار پانی میں چھلانگ لگا ہی دیتے ہیں۔ حالات اور وقت کا تقاضہ ہے کہ بھلے کچھ کرو یا نا کرو لیکن دونوں ہاتھو ں سے ڈھول پیٹنا شروع کردو کہ یہ کیا ہوگیا یہ کیاہوگیا۔ سنتے ہیں کہ گزرے زمانوں کی عزت کی بقاء کی خاطر بڑے بڑے حادثے اور سانحہ لوگ خاموشی سے سہہ جاتے تھے (یہ غلط تھا یا صحیح پھر اور کبھی کیلئے رکھ چھوڑتے ہیں)۔آج تو گھروں کے بہت ہی اندر کی خبروں میں نمایاں کر نے کی استدعا کی جاتی ہے اور سماجی ابلاغ پر رجحان (ٹرینڈ) چلائے جاتے ہیں۔
کراچی چیخ رہا ہے درد کی شدت سے، کرب کی حد ت سے، کراچی اس وقت سے چیخ رہا ہے جب آخباروں میں لاشوں کی گنتیاں شائع ہوتی تھیں اور جس دن ایک یا دو کم ہوتی تھیں تو کچھ کراچی کے شہری حالات کو اچھا سمجھنے لگتے تھے یہ وہ وقت تھا جب پورا پاکستان کراچی کے نام سے خوفزدہ ہوجاتا تھا اور شائد سوائے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے افراد کے کہیں سے کراچی کوئی نہیں آتا تھا۔ روشنی کی علامت سمجھا جانے والا شہر خوف و دہشت کی ویرانی سے اٹ گیا اور ناحق خون میں ڈوب گیا تھا۔ پھر امن کا سورج طلوع ہوا پھر کراچی کی رونقیں بحال ہونا شروع ہوئیں لیکن اب کراچی والے خوف اور دہشت کے موذی مرض میں بری طرح سے مبتلا ہوچکے تھے جس سے بچنے کیلئے ان زبوں حال لوگوں نے خود کو پان، سگریٹ، گٹکے اور دیگر نشوں کے حوالے کردیا۔ ایک طرف جلاؤ گھیراؤ ہڑتالوں کی وجہ سے شہر برباد ہواتو دوسری طرف شہری بھی برباد ہوتے چلے گئے۔علم کے متوالوں کے شہر سے، علم کورخصت دے دی گئی جوکہ تاحال ملی ہوئی ہے اور اب بہت مشکل سے کوئی با ادب با ملاحظہ سے واقف ملتا ہے (ملتا ہے ایسا نہیں کہ نہیں ملتا)۔بد قسمتی سے علم سے دوری نے اردو بولنے والوں کو انکی اپنی زبان سے دور کر دیا، بولتے تو اردو ہی ہیں لیکن وہ اردو جو ادب سے عاری اور مغلظات سے بھرپور ہوچکی ہے۔
کراچی جو کہ پاکستان کے سب سے منظم شہروں کی فہرست میں اول نمبر پر آتا تھا، سیاست اور مفادات کی بھینٹ چڑھتے چڑھتے شائد اس فہرست میں سب سے آخری نمبر پر پہنچ گیا ہوگا۔ جہاں اس بات پر اغیار نے جشن منایا ہوگا تو اس میں اپنے بھی خوب شامل رہے ہونگے۔ پچھلے کچھ سالوں سے گرمی کی شدت بھی کراچی والوں پر غیض و غضب ڈھا رہی ہے پھر بادل برستے ہیں یعنی بارش ہوتی ہے تو پانی آتا ہے اور جب زیادہ بارش ہوتی ہے تو زیادہ پانی شہر کی سڑکوں کو ڈبودیتا ہے۔ کراچی اور کراچی والوں کو سیاست کی بھینٹ چڑھایا جاتا رہا ہے، حکومت سندھ کام نہیں کرتی کیوں کہ کراچی والے انہیں ووٹ نہیں دیتے کراچی والے ایم کیو ایم (پاکستان) کو ووٹ دیتے ہیں جو وفاق میں تو حکومت کا حصہ بن جاتے ہیں لیکن اپنے شہر کے صوبے میں حزب اختلاف کا حصہ بن جاتے ہیں، گوکہ کراچی کی مئیر شب ایم کیو ایم (پاکستان) کے پاس ہی رہی ہے کراچی کا ناظم بھی ایم کیوایم (پاکستان) سے ہی رہا لیکن مشکل یہ رہی ہے کہ ترقیاتی اور عمومی اخراجات حکومت سندھ کی طرف سے ملنے ہوتے ہیں جہاں ایم کیوایم (پاکستان) حکومت مخالف جماعت ہے۔یہ صرف کراچی ہی کی نہیں بلکہ پورے سندھ کی بد قسمتی ہے رہی ہے کہ یہاں ترقی کو رسائی دی ہی نہیں گئی۔ کراچی کی معاشی اہمیت کی بدولت ہمیشہ وفاق کی خصوصی گرانٹ کی مرہونِ منت کچھ کام ہوئے،ایک طرف ایم کیو ایم (پاکستان) سے نکلے ہوئے افراد نے پاک سرزمین پارٹی کی بنیاد رکھنے والے مصطفی کمال صاحب جوکہ سابقہ ناظم ِ کراچی رہ چکے ہیں انکے دور میں کئے جانے والے ترقیاتی منصوبوں کا سارا کا سارا سہرا اپنے سر باندھتے دیکھائی دیتے ہیں جوکہ ایک حد تک صحیح بھی ہے کیونکہ وفاق سے (اسوقت کے صدر پرویز مشرف صاحب)ملنے والی رقم کو اس طرح سے شہر کی تزئین و آرائیش پر لگتا کبھی پہلے یا بعد میں نہیں دیکھا جا سکا ہے۔
ہمارے ملک میں ایک شہر سے دوسرے میں باقاعدہ سکونت اختیار کرنے کے حوالے سے کوئی ضابطہ نہیں ہے اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کراچی میں روزگار کے لئے آنے والے مکمل سکونت اختیار کرتے چلے گئے اور دیکھتے ہی دیکھتے کراچی کی آبادی جوکہ سن دو ہزار (۰۰۰۲) میں لگ بھگ اٹھانوے لاکھ تھی اور دوہزار بیس میں کراچی کی آبادی دوکروڑ سے بھی تجاوز کر چکی ہے۔ کراچی میں بے قاعدگیوں کی ایک نا ختم ہونے والی داستانیں ہیں۔ کراچی سب کا ہے لیکن کیا صرف اس لئے کہ اسے نوچ نوچ کر کھایا جائے اس لئے نہیں کہ اس کا خیا ل بھی رکھا جائے۔ جس حساب سے آبادی بڑی اس حساب سے کوئی کام نہیں ہوا۔کراچی شہر دنیا کے بڑے شہروں میں شمار ہوتا ہے، اس شہر کے مسائل بھی بڑے بڑے ہی ہیں پینے کا پانی نایاب ہے، بجلی کا ہونا نا ہونا ایک برابر ہے اس پر بجلی کے بل من مانی، ہر طرف کچرہ کنڈی نے کراچی جیسے شہر کو کچرہ کنڈی میں بدل کر رکھ دیا ہے، اور سب سے بڑھ کر ہم نے گندے پانی کے نکاس کے نظام (سیوریج) پر کبھی بھی خاطر خواہ دھیان نہیں دیا بس چل سو چل والی حکمت عملی پر گامزن رہے۔
ایسا بھی سنتے آئے ہیں کہ کراچی کوتو سمندر بدر ہونا ہی ہے تو آجکل جو کراچی صورتحال ہے وہ بلکل ایسی ہی دیکھائی دے رہی ہے کہ کہ کراچی ڈوب رہا ہے۔ بارش کیساتھ ساتھ الزام تراشیوں کی بھی بارش جاری ہے کوئی کراچی کی تباہی کی ذمہ داری کو قبول کرنے کو تیار نہیں ہے،یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ پیپلز پارٹی نے کبھی کراچی کو اہمیت دینے کی کوشش ہی نہیں کی اور اس بات کا واضح ثبوت کراچی کی بد سے بدتر ہوتی ہوئی صورت حال ہے، یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے آبائی حلقوں میں کبھی کام نہیں کرایا تو وہ کراچی جیسے شہر کیلئے کیا کرینگے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے کراچی ایک ایسی لاش ہو جسے نامعلوم لوگوں نے قتل کردیا ہو اور اب کوئی اس لاش کو اٹھانے والا بھی نا ہو کیونکہ کراچی کی نامعلوم لاشوں کے وارث ایدھی صاحب بھی اس دنیا میں نہیں رہے۔ رات گئے جب اپنی بالکونی میں کھڑا سڑکوں اور گلیوں میں پانی اور دور تک پھیلے ہوئے اندھیرے کو دیکھتا ہوں تو کراچی کی نم آلود ہوائیں کانوں میں سرگوشیاں کرتی ہوئی گزر جاتی ہیں کہ ×ہمیں تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا×۔
—