غربت کی وجہ سے والدین اپنے بچوں کو اچھے اسکولوں میں پڑھانے کا سوچ بھی نہیں سکتے ۔
جاگیر دارانہ نظام کی وجہ سے پسماندہ علاقے کے لوگ اپنے بچوں کو اسکول بھیجنے سے ڈرتے ہیں۔
گورنمنٹ اسکول کا تعلیم معیار بدتر سے بدتر ہوتا جا رہا ہے۔
رپورٹ: وسیم ساحل
اس دارالعمل میں جیسے دنیا کہتے ہیں انسان جس قدر کوشش کرتا ہے اتنا ہی صلہ اسے ملتا ہے چنانچہ وہ ہر قدم پر اپنا احتساب کرتا ہے اور یہ جائزہ لیتا ہے کہ وہ اس مقصد میں کہان تک کامیاب ہو سکا ہے ۔ اگر اسے کوئی کوتائی یا خامی نظر آئے تو اسے دور کرنے کی جدو جہد کر کے اس کام کو پایہ تکمیل تک پہنچا دیتا ہے۔ پاکستانی معاشرے کا ایک کردار حمیرا بچل جس نے پاکستان کے شہر کراچی کے انتہائی پسماندہ علاقے میں علم کی شمع کو روشن کرنے میں جس جرات اور عزم کا اظہار کیااس زخمی اور سلکتے شہر کے لیے ایک مثال ہے۔ کراچی کی رہنے والی ایک عام سی لڑکی جس نے تعلیم عام کرنے کے لئے سخت جدوجہد کے بعد ناممکن کو ممکن کر دکھایا۔ حمیرا بچل کی ان کاوشوں کو ملکی یا علاقائی سطح پر تو نہیں سہرایا گیا بلکہ ہالی ووڈ میگا اسٹار سلمیٰ ہائیک جس کی دنیا دیوانی ہے وہ خود اس عام سی لڑکی سے اتنی متاثر ہوئی کہ اس نے پاکستان کے شہر کراچی میں تعلیم کے فروغ کے لیے جدو جہد کرنے پر حمیرا بچل کی بھرپور مد دکیااور اس کی کاوشوں کو منظر عام پر لانے کے لیے زندگی پر دستاویزی فلم بنائی۔
فلم کا پریمیئر فرانس کے شہر ڈوویل میں ہونے والی ویمنز فورم گلوبل میٹنگ کے دوران کیا گیا ۔ اس دستاویزی فلم کی ہدایات آسکر اعزاز یافتہ پاکستانی فلم ساز شرمین عبید چنائے نے دی ہے۔ ڈریم ماڈل اسٹریٹ اسکول جس کا خواب حمیرا بچل نے اس وقت دیکھا تھا جب وہ
بارہ سال کی تھی ۔سلمیٰ ہائیک نے بارہ سالہ عام سی لڑکی کے خواب کوپایہ تکمیل تک پہنچا نے کے لیے گلوکار بیونسے اور ناول و تخلیقی ہدایت کار فریدہ جیانی کے ساتھ مل کر اس اسکول کی بنیاد رکھی اور خواتین کی عزم و ہمت اور ان کے حقوق کے بارے میں آگاہی پھیلانے کے لیے ستاویزی فلم بھی بنائیَ۔ جس کا عنوان حمیرا دی گیم چینجر رکھا۔اس دستاویزی فلم میںحمیرا بچل کی جدوجہد کوپیش کیا گیا جس نے پاکستان کے شہر کراچی کے انتہائی پسماندہ علاقے ماچھ گوٹھ میں تعلیم کے فروغ کے لیے وہ کر دیکھاجو ایک معجزے سے کم نہیں۔علم کی مشل کو بلند کرنے
وا لی حمیرا بچل جس نے ڈریم ماڈل اسٹریٹ اسکول قائم کرنے کا دیکھا تھا۔ حمیرا کا یہ خواب اس مو سم گرما میںمکمل ہوا
ماڈل اسکول میں ایک ہزار سے زائد بچے تعلیم پار ہے ہیں، جب کہ اس سے بہت سی مقامی عورتوں کو روزگار کے مواقع بھی میسر آئے ہیںَ اس موقع پر حمیرہ نے کہا کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے وہ ایک کھنڈر میں سے اٹھہ کر کسی محل میں آگئی ہے۔ سلمیٰ ہائیک نے اس دستاویزی فلم کی لانچنگ کے موقع پر کہا کہ وہ جب چھ سال کی تھیں تب ایک واقعہ نے انہیں اتنا متاثر کیا کہ وہ خواتین کے حقوق کے لیے جدو جہد میں مصروف ہیں۔سلمیٰ نے بتایا کہ وہ اپنے آبائی شہر میکسیکو سٹی میں اپنے والدین کے ہمراہ مارکیٹ جا رہی تھی کہ میں نے دیکھا کہ ایک شخص اپنی بیوی کو بے دردی سے مار رہا ہے، جب والد اس خاتون کی مدد کے لیے بڑھے تو خاتون نے بجائے میرے والد کے مشکور ہونے کے الٹا انہیں گالیاں دینا شروع کردیں اور اپنے شوہر کی وکالت میں بول اٹھی کہ تمہاری جرات کیسے ہوئی، وہ جو چاہے میرے ساتھ کر سکتا ہے۔ وہ خاتوں جو سوچ رکھتی تھی وہ اس کی مستحق بھی تھی۔ سلمیٰ ہائیک ان دنوں خواتین کے گھریلو تشدد کے خلاف بھی امدادی کام میں مصروف ہے، انہوں نے اس سلسلے میںFor Chime Changeاین جی او بھی بنا رکھی ہے جس میں لڑکیوں اور خواتین کے حقوق کے لیے کام کیا جاتا ہے جب کہ اس کام میں ہائیک کی معاونت بیونسے اور گوچی کی ڈائریکٹر فریدہ جیاننی کر رہی ہیں۔لندن میں حالیہ جون میں تینوں گلوکار خواتین میڈونا جینیفرلو پیز اور بیونسے نے ساونڈ آف چینج نامی اپنے لائیو کنسرٹس میں خواتین کے حقوق کے لیے بھی آواز اٹھائی ہے جس میں کئی معتبر شخصیات بھی آئیں۔سال 2014کی گرمیوں میں مکمل ہونے والے اس اسکول میں 18کمرے ،پلے گرائنڈ، کمپیوٹر لیب اور ایک لائبریری بھی شامل ہے۔ ڈاکیو مینٹری فلم کے ایک جذباتی لمحے میں 28سالہ حمیراا یہ کہتی دکھائی دیتی ہیں کہ ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ ہم کسی کھنڈر سے اٹھ کر محل میں آگئے۔ سب کچھ بدل گیا ہے۔ حمیرا۔دی گیم چینجر کی اسکریننگ سے پہلے سلمیٰ ہائیک نے اپنی تقریر میں کہاکہ ان کی کوشش اور مشن یہ ہے کہ دنیا بھر کی عورتوں کو انصاف ملے اور اسی سماجی خدمت کے لئے انہوں نے سنگر بیونسے اور فیشن ڈیزائنر گوچی کی کریٹو ڈائریکٹر کے ساتھ مل کر فلاحی تنظیم چیمی فور چینج کی بنیاد رکھی۔برطانوی اخبار ڈیلی میل کے مطابق کذشتہ سال ساونڈ آف چینج لائیو کنسرٹ میں اسٹیج پر حمیرا کی موجو دگی میں پوپ آئیکون میڈونا کا کہنا تھا کہ حمیرا آزادی کی جنگ لڑنے والی سپاہی، لڑکیوں کی ہیرو اور ہم سب کے لئے مثال ہیں۔ ہر لڑکی اسکول جانے کی مستحق ہے خواہ وہ دنیا میں کہیں بھی پیدا ہوئی ہو۔ حمیرا کے ڈریم اسکول نے سینکڑوں بچوں کی زندگیاں بدل دی ہیں۔
اپنے ایک انٹرویو میں حمیرا کا کہنا تھا کہ میں صرف بارہ سال کی تھی جب میں نے یہ ارادہ کر لیا تھا کہ کسی بھی قیمت پر ان بچوں کے لئے تعلیم کے راستے کھولوں گی جو اس نعمت سے محروم َ ہیں۔ میں نے ایک غریب علاقے میں آنکھ کھولی جہاں لڑکیوں کے لئے تعلیم حاصل کرنا برا سمجھا جاتا تھا اور انہیں یا تو بالکل ہی اسکول نہیں بھیجا جاتا تھا یا پھر دو چار جماعتوں کے بعد اٹھالیا جاتاتھا۔ اس لڑکیوں کے ساتھ ہونے والی مسلسل نا انصافی اور ناروا سلوک نے مجھے مجبور کردیا کہ میں ان کے لئے کچھ کروں۔ میں نے اپنا اسکول شروع کیا تو اگلا مرحلہ اور مشکل تھا کہ لوگوں کو مناوں کہ وہ اپنی لڑکیوں کو پڑھنے کے لئے بھیجیں اس مقصد کے لئے میں ہر دروازے پر گئی، بچوں کے والدیں سے ملاقات کی اور انہیں بچیوں کو پڑھانے پر راضی کیا۔ دس سال بعد میرے اسکول سے دس لڑکیوں نے میٹرک کیا اور بعد ازاں کالج میں گئیں، اب وہ لڑکیاں ٹیچرز ، نرسز اور کمپنیوں میں ملازم ہیں۔
حمیرا نے اظہار خیال کرتے ہوئے مزید بتایا کہ پاکستان میں کئی ایسی و جوہات ہیں جن کی بنا پر لڑکیوں کے لئے پڑھائی کے مواقع کم ہیں۔ ان میں سے ایک بڑا مسئلہ تو غربت ہیں کہ والدین اپنے بچوں کو اچھے اسکولوں میں پڑھانے کا سوچ نہیں سکتے۔ جو بچے گورنمنٹ اسکول جاتے ہیں وہاں کا تعلیمی معیار ہی بدتر ہوتا ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ ابھی بھی دیہی علاقے کے لوگ تعلیم کو اہم نہیں سمجھتے، بلکہ انہیں لگتا ہے کہ
تعلیم سے ان کے بچوں پر منفی اثر پڑے گا۔ اسی طرح جاگیر دارانہ نظام کی وجہ سے بھی لوگ اپنے بچوں کو اسکول بھیجنے سے ڈرتے ہیں کیونکہ ان علاقوں کے حکمران نہیں چاہتے ہیں کہ ان کی غریب رعایا کو پڑھ لکھ کر شعور آجائے اور وہ ان سے اپنے لئے حقوق مانگنے لگیں۔ حمیرا بچل کا خیال ہے کہ بدلتے وقت کے ساتھ لوگوں کی سوچ بھی بدل رہی ہے اور آہستہ آہستہ ان میں شعور پیدا ہو رہا ہے کہ وہ اپنے بچوں کو پڑھائیں تا کہ ایک روشن مستقبل کے راستے ان کے لئے کھل جائیں ۔ لیکن ابھی بطور معاشرہ ، پاکستان کو ابھی اس ضمن میں بہت ساری کوششیں کرنے کی ضرورت ہے۔
کسی بھی ادارے کی کارگردگی کا انحصار اس کے مستعد فعال اور فرض کی لگن سے سر شار عملے پر ہوتا ہے۔ اگر جس کے ارکان اپنے فرائض دیانت داری ، محنت اور ٹیم اسپرٹ سے ادا کریں تو ادارہ دن دگنی اور رات چوگنی ترقی کرتا ہے اور منتظمین کی نیک نامی کا باعث بنتا ہے۔ اس کے بر عکس جس ادارے کے کارکن کام چور، مقصد سے نا شا اور ذوق وشوق سے عاری ہوتو وہ ہمیشہ ناکامی کا منہ دیکھتا ہے۔ یہ بات سب سے زیادہ تعلیمی اداروں پر مصادق آتی ہے جن کی صنعت روح انسانی ہے جو سیرت و کردار کی تعمیر کرتے ہیں اور جن کی ہاتھوں میں قوم کی تقدیر ہوتی ہے۔ اچھے اسکول بچوں کے لئے خیرہ برکت اور ارکان عملہ کے لیے سرخروئی کا باعث ہوتے ہیں۔ لیکن اسکول کو یہ مقام فضیلت دلانے کے لئے محض بلند و بالا عمارتیں ، قیمتی سازو سامان اور ظاہری شان و شوکت ہی کافی نہیں۔ اس کے لئے قاندانہ صلاھیتوں کے مالک صدر ، معلم ، صاحب بصرت اساتذہ اور ماہر کارکنوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ انہی پر تعلیمی اداروں کی کایابی اور قوم کے بنائو اور بگاڑ کا دارومدار ہوتا ہے۔ حمیرا بچل کی کاوشیں اس معاشرے کے لئے ایک قابل تعریف مثال ہے اور اگر دوسرے پاکستانی نوجوان اس طرف توجہ دیں تو اس ملک سے جہالت کا خاتمہ ممکن بنایا جا سکتا ہے اور خوف زدہ کراچی کو شعور کی روشنی دے کر دوبارہ روشنیوں کا شہر بنانے کی کوشش کی جا سکتی ہے۔
Great people do great efforts and do not accept defeat, so they win.
Ji baig sahab ap thik kehtai hain or ham sab ko aisai logon ki hosla afzai karni chahiyai