کرشماتی پودا
شہزاد بسراء
نومولود سیاہ فام بچہ زندگی کے آخری سانس لے رہا تھا ۔ اس کا پیٹ پھولا ہوا تھا، آنکھیں اندر کو دھنسی ہوئی اور بازو اور ٹانگیں انتہائی پتلے تھے۔ گھر میں کھانے کو کچھ نہ تھا۔ اس کی ماں ابر یتا میں اُٹھنے کی بھی ہمت نہ تھی۔ ابریتا کو کئی روز سے باقاعدہ کھانا نہیں مل سکا تھا، کبھی پتے ابال لئے اور کبھی کوئی سوکھی روٹی کا ٹکڑا مل گیا ۔کل رات سے اس کی چھاتیاں تک خشک ہوگئی تھیں جس کی وجہ سے بچہ اب بیماری کے ساتھ بھوک کا بھی شکار تھا۔
90کی دہائی کے آخر کا زمانہ تھا کہ افریقی ملک سینیگال میں قحط پڑ گیا ۔ جب تک اقوام عالم غذائی امداد فراہم کرتے ہزاروں لوگ بھوک اور بیماریوں کا شکار ہوکر موت کے منہ میں چلے گئے۔ خوراک کی کمی کی وجہ سے لوگ طرح طرح کی بیماریوں کا شکار تھے۔قحط کا شکارصرف انسان ہی نہیں جانور بھی تھے۔ تیسری دنیا کے زیادہ تر ممالک کی طرح سینیگال حکومت بھی غیر ملکی امداد کی منتظر تھی۔ ابریتا کو آس تھی کہ شائد کوئی غذائی امداد کا ٹرک ان کے گاؤں میں آئے اور خوراک ، پانی اور ادویات فراہم کرے تو وہ موت کے بھیانک منہ سے بچ سکے ۔ اچانک باہر شور مچا اورایک ٹرک کی آوازسُنائی دی ۔ ابریتا بچے کو چھوڑ کر برتن لیکر شدید نقاہت کے باوجود ہمت جمع کرکے باہر نکلی تاکہ امداد کی خوراک حاصل کرسکے ۔ گاؤں کے لوگوں نے ٹرک کو گھیر رکھا تھا اور خوراک حاصل کرنے کیلئے دھکم پیل کررہے تھے۔ ٹرک سے ایک اُدھیڑ عمر وجیہ باریش شخص نکلا اور لوگوں سے اونچی آواز میں مخاطب ہوا۔
’’میرا نام فوگلی ہے اور میں زراعت کا پروفیسر ہوں۔’’ورلڈ چرچ سروس‘‘ کے ذیلی ادارہ ’’بھوک کا خاتمہ بذ ریعہ تعلیم ‘‘ کی طرف سے امریکہ سے آپ کی خدمت کے لیے حاضر ہوا ہوں۔ میں آپ کو ایک ایسی تعلیم دوں گا جِس سے آپ کی غذائی قلت میں کمی ہوسکتی ہے‘‘
مجمع پر سناٹا چھا گیا پھر ما یوسی میں لوگ پھٹ پڑے کہ ہم لوگ بھو ک سے مر رہے ہیں ہمیں خوراک دو ہمیں کوئی لیکچر نہیں سننا۔
’’چرچ تنظیم نے خوراک بانٹنے کو کہا تھا مگر میں نے کہا کہ خوراک تو چند روز میں ختم ہو جائے گی ۔میں آپ کے لئے نہ تو آٹا ، پانی ، چاول وغیرہ لے کر آیا ہوں اور نہ ہی میرے پاس آپ کودینے کیلئے کوئی رقم ہے ۔ مگر آپ کے فائدہ کی بات بتاؤں گا‘‘۔
مجمع سے ایک آدمی چیخا۔’’ مرتے ہوئے انسانوں کو کسی مذہب یا چرچ سے لگاؤ نہیں رہتا ۔ اگر خوراک ہے تو دو، ورنہ دفع ہوجاؤ ۔ آخر اس ٹرک میں کیا ہے؟‘‘
فوگلی نے ٹرک کو کھولا تو مجمع پر جیسے برف گر پڑی ۔ ٹرک ایک ہی قسم کے پودے کے گملوں سے بھراہوا تھا ۔فوگلی اونچی آواز میں بولا۔’’لوگو میں آپ کے لئے ایک کرشماتی پودا لے کر آیا ہوں۔جو آپ لوگوں کی غذائی قلت دور کر سکتا ہے اور آپ کے جانوروں کی بھی‘‘
’’ہم انسان ہیں ، ہمیں روٹی چاہیے ، خوراک چاہیے۔ ہم بھیڑبکریاں نہیں جو پودے کھا سکیں ۔چلے جاؤ یہاں سے‘‘ ۔ مجمع سے آوازیں بلند ہوئیں
فوگلی بولا۔’’ دیکھو، ابھی کچھ ہی دیر میں اقوام متحدہ کی طرف سے خوراک کے ٹرک بھی آنے والے ہیں مگر وہ خوراک چند دنوں یاہفتوں میں ختم ہو جائے گی۔ مگریہ پودا ایک دفعہ لگاؤ تو ہمیشہ رہتا ہے اور آپ کی نسل در نسل خدمت کرے گا‘‘۔
ابریتا جو مایوسی کے عالم میں گھر چلی گئی تھی، نیم مردہ بچے کو اُٹھایا اور غُصے سے فوگلی کے سامنے بچہ کرتے ہوئے بولی۔’’لو ، کھلاو اِسے کرشماتی پودا۔ ہم بھوک سے مر رہے ہیں اور تم مذاق کر رہے ہو‘‘۔
ایک اور ٹرک کے انجن کی آواز آئی تو لوگ اس طرف دوڑ پڑے ۔ دودھ کے ڈبے ، پانی کی بوتلیں ، اناج کی بوریاں ، خشک میوے ، بسکٹ ۔لوگ پاگل ہوگئے اورچھینا جھپٹی میں لگ گئے ۔اسی دوران فوگلی اپنے رضاکاروں کے ہمراہ پورے گاؤں میں پودے لگا رہا تھا۔ ابریتا کے گھر پودا لگاتے ہوئے فوگلی نے پانی کا گھڑا دیکھا تو کھانا کھاتی ابریتا سے پوچھا
’’کیا میں اِس سے پانی لے سکتا ہوں؟‘‘
’’یہ پانی صاف نہیں ہے۔ تم بیمار ہو جاؤ گے ہماری طرح‘‘
’’اگر یہ صاف نہیں تو پھر کیوں پیتی ہو؟‘‘
’’صاف پانی کا چشمہ بہت دور ہے، جو پاس ہیں وہ خشک ہو چکے ہیں۔ مجبوراََ یہی گدلا پانی پیتے ہیں‘‘۔ ابریتا اب بچے کے حلق میں ڈبے کا دودھ ٹپکا رہی تھی۔
ٖفوگلی نے پانی شیشے کے دو جگوں میں انڈیلا۔ ایک تھیلے سے کچھ بیج نکالے اور ابریتا سے ہاون دستہ مانگا۔ ابریتا حیرت سے فوگلی کی حرکتیں دیکھ رہی تھی۔فوگلی نے بیج کُوٹ کے اُن کا سفوف بنایا اور چٹکی بھر ایک جگ میں ڈال کے خوب ہلایا، جبکہ دوسرا ویسے ہی رہنے دیا۔ ابریتا سے کہنے لگا۔’’دیکھتی جاؤ کیا ہوتا ہے۔ میں مزید پودے لگا کے آتا ہوں‘‘۔
’’جادو، جادو‘‘۔ ابریتا گھر کے دروازے میں کھڑی چلا رہی تھی۔ لوگ اُس کی آوازیں سُن کے بھاگتے ہوئے آئے۔ ’’اِس سفید چمڑی والے نے بیج کا سفوف اِس پانی میں ڈالا تو یہ دیکھو بالکل صاف ہو گیا۔جبکہ دوسرا ویسا ہی گدلا ہے‘‘۔
سب حیرت سے دیکھ رہے تھے کہ فوگلی نمودار ہوا اور مسکراتے ہوئے بولا۔’’دیکھا کمال اِس پودے کا؟ اِس کے بیج کا سفوف ڈالنے سے پانی بالکل صاف ہو جاتا ہے۔ سب مٹی، نقصان دہ اجزاء اور جراثیم نیچے بیٹھ جاتے ہیں اور پینے کے لیے بہترین پانی تیار ہو جاتا ہے۔ پانی کو اِس سے صاف کر کے پیو اور صحت مند ہو جاؤ۔ زیادہ تر یہاں بیماریاں آلودہ پانی پینے کی وجہ سے ہیں‘‘
خوراک کھا کر لوگوں میں اب کچھ طاقت اور آسودگی آ چکی تھی۔ پھر پانی والے واقعہ کی وجہ سے لوگ اب فوگلی کی طرف متوجہ ہو گئے۔فوگلی نے انہیں بتایا کہ اس پودے کو زمین میں بوئیں تو یہ ایک ڈیڑھ سال ہی میں چھوٹا سا درخت بن جاتا ہے اور دو سال میں اچھا بھلا درخت ۔ قدرت نے اس درخت کے ہر حصے میں کمال کی غذائیت اور طبی افادیت رکھی ہے جو دنیا کے شاید ہی کسی مہنگے سے مہنگے فروٹ اور اناج میں ہو۔اِس کے صرف 50گرام خشک پتے کا سفوف کھانے سے پورے دن کے لیے اہم غذائی اجزاء جیسے پروٹین ، کیلشیم ، پوٹاشیم او ر وٹامنز کی زیادہ تر ضروریات پوری ہو جاتی ہیں۔ اس میں ایسے جراثیم کش عناصر بھی پائے جاتے ہیں جو ہیضہ ، ٹی بی ، ایڈز ، ذیابطیس ، امراض قلب وغیرہ میں مفید ہیں۔ لوگ حیرت سے فوگلی کی باتیں سُن رہے تھے۔ اُس نے مزید بتایا۔’’اس میں اسقدر طاقت ور غذائی اور طبی عناصر ہیں کہ انسان کی کھوئی ہوئی طاقت اور صلاحتیں چند دنوں میں ہی لوٹ آتی ہیں۔ اِس کے پتے، پھول، پھلیاں، جڑیں، چھال اور بیج سب خود بھی کھاؤ اور اپنے جانوروں کو بھی کھِلاؤ۔ یہ قدرت کا انمول خزانہ ہے‘‘
ایک بوڑھے دیہاتی نے پودے کے پتوں کو غور سے دیکھتے ہوئے کہا۔ ’’پروفیسر ہمیں بے و قوف مت بناؤ۔ یہ درخت تو ہمارے گاؤں میں بھی ہے اورعلاقے میں بھی کافی پائے جاتے ہیں۔ جب اس پر پھول آتے ہیں تو ہم پکا کر کھاتے ہیں۔ ہمارے بڑے اِس کی چٹنی بھی بناتے تھے اور حکیم اِس سے ادویات بھی بناتے ہیں۔ مگر ہمارے بڑوں کو تو یہ سب نہیں پتا تھا‘‘۔
فوگلی بولا۔ ’’ہاں یہ پود ا افریقہ میں بھی بکثرت پا یا جاتا ہے۔ مگر لوگوں کو اس کی اہمیت کا پوری طرح سے ادراک نہیں ۔ مجھے وہ درخت دکھاو‘‘
فوگلی اس بوڑھے کی ہمراہی میں اس درخت کی جانب چل پڑا ، جس کی بوڑھے نے نشان دہی کی تھی۔ پورا گاؤں بھی ان کے پیچھے ایک جلوس کی شکل میں چل رہا تھا ۔
’’واہ کمال ہو گیا۔ آپ لوگوں کے پاس تو پہلے ہی سے یہ درخت موجود ہے‘‘۔فوگلی نے خوشی کا اظہار کیا۔ پھر آس پاس کئی اور درخت مل گئے۔ پروفیسر کے موثر انداز بیاں سے لوگ رفتہ رفتہ متاثر ہونے لگے ۔
’’اس پودے کے پتے آپ اپنے جانوروں کو دوسرے چاروں کے ساتھ کھلائیں۔ وہ صحت مند بھی ہو جائیں گے اور دودھ بھی اعلی اور زیادہ مقدار میں دیں گے ‘‘۔
دیہاتیوں نے پتے جانوروں کو چارے کے طور پر کھِلانے شروع کر دیئے۔پھر لوگ اپنے بڑے بوڑھوں کے طریقوں اور فوگلی کی ہدایات کے مطابق خود بھی استعمال کرنے لگے۔ صرف چند ہفتوں کے استعمال سے گاؤں کے لوگ اس کرشماتی پودے کی طبی اور غذا ئی اہمیت کے قائل ہوگئے۔ لوگوں اور مویشیوں کی صحت بہتر ہونا شروع ہو گئی۔ فوگلی نے لوگوں کو اس کے پتوں سے مختلف کھانیبنانا سکھائے اور پتوں کو خشک کرکے محفوظ کرنے کا طریقہ بتایا ۔دیہاتیوں کے لیے سب سے حیرت انگیز استعمال پینے کے پانی کو صاف کرنا تھا۔لوگ پودے کے بیج کا پوڈر بناکر پانی کے گھڑے میں ڈالتے تو پانی کچھ گھنٹوں میں بالکل صاف ہوجاتا۔ یہ پانی پینے سے لوگوں کے معدے کے امراض بھی دور ہوگئے ۔ابریتا نے بھی اس کرشماتی درخت کے پتے کبھی اُبال کے اور کبھی پکا کے کھانے شروع کر دیئے۔ اس کی صحت حیرت انگیز طور پر بہتر ہو گئی اور اس کے بچے کو ماں کا دودھ بھر پور ملنے لگا وہ صحت مند ہوگیا۔ ابریتا فوگلی کی رضاکاروں کی ٹیم میں شامل ہو گئی اور آس پاس کے دیہات میں لوگوں کو اِس کی اہمیت سے اجاگر کرنے کے لیے کام کرنے لگی۔ اُس کی دیکھا دیکھی مقامی لوگ بھی فوگلی کی مہم کا حصہ بنتے گئے۔ رفتہ رفتہ علاقہ بھر میں فوگلی کے کرشماتی پودے کا چرچا ہونے لگا ۔ گاؤں گاؤں لوگ فوگلی کے رضا کار بنتے گئے اور پودے کی اہمیت اور استعمال سے آگاہ کرنے لگے ۔ نئے پودے لگانا بھی اُن کی مہم کاحصہ تھا ۔ چند ہی ماہ میں ایک بندے کی کاوش نے پوریعلاقے کی غذائی قلت کو بہتر کردیا۔پھر شائید ہی سینیگال کا کوئی گھر بچا ہو گا جہاں یہ درخت نہ ہو۔
میں فیصل آباد کے ایک قدرے پس ماندہ علاقے سے گزر رہا تھا کہ گاڑی کا بیلنس خراب ہوگیا ۔گاڑی کو روک کے دیکھا تو ٹائر پنکچر ہو چکا تھا۔ فالتو ٹائر تو گاڑی میں موجود تھا مگر جیک نہ ملا۔ جب سے گاڑی لی یہ دو سال میں پہلا ٹائر پنکچر ہونے کا واقعہ تھا۔ کبھی ضرورت ہی نہ پیش آئی تو جیک کے نہ ہونے کا علم بھی نہ ہوا۔ ایک دوست کو فون کرکے جیک لانے کا کہا اور اسے جگہ سمجھا کے انتظار میں سڑک کنارے کھڑا ہو گیا۔ تھوڑی ہی دیر میں دھوپ کی تپش سے بے حال ہوگیا تو قریب ہی ایک کریانہ کی دوکان سے پانی کی بوتل لے کر دیوار کی چھاؤ ں میں کھڑا ہو گیا۔ حسبِ عادت لوگوں کو پڑھنے لگا ۔ لباس،چال ڈھال، اندازِ گفتگو میرے لئے ہمیشہ سے دلچسپی کا باعث ہوتے ہیں۔ علاقہ قدرے پس ماندہ تھا ۔ لوگ مفلوک الحال اور آبادی بے حدوحسا ب ۔ زیادہ تر آبادی ان پڑھ اور مزدور طبقہ لگ رہی تھی۔ دوکان پر خریدار بھی ویسے ہی تھے۔ دوکان پہ ایک 10سال کا لاغر سا بچہ میری توجہ کا مرکز بن گیا۔ اُس کے پاؤں میں جوتی ندارد، انتہائی بوسیدہ نیکر اور پھٹی ہوئی ٹی شرٹ۔ بچے کی ٹانگیں کافی کمزور اور آنکھیں اندر کو دھنسی ہوئی تھیں۔ 50روپے کا ایک مڑا تڑا نوٹ دوکاندار کو تھما کر کہنے لگا ۔
’’ چاچا 20روپے کی دال ، 5کا مرچ مصالحہ اور باقی کاآٹا دے دو‘‘
دوکاندار نے ایک شاپنگ بیگ میں تھوڑا سا آٹا، دوسرے میں تھوڑی سی دال اور ایک پڑیا میں مرچ نمک ڈال کے دے دیا۔ میرے وہاں آدھے گھنٹہ کے قیام میں زیادہ تر گاہک ایسے ہی آئے۔ میرے دماغ میں ایک فلم سی چلنی شروع ہو گئی۔ ان کے گھروں میں کتنے لوگ ہونگے ؟ کم از کم 5,6 افراد کا کنبہ تو ہوگا۔ کیا یہ آٹا 10روٹیاں بنا سکے گا۔ گھی تو ان کے گھر نہیں ہوگا اس کے بغیر کیا ذائقہ ہو گا اس پتلی دال کا اور کیا خبر یہی ایک کھانا اس کنبے کو24گھنٹے میں میسر آیا ہو۔کیا خبر یہ 50روپے بھی مانگ کے یا ادھار سے آئے ہوں ۔ لوڈ شیڈنگ اور دہشت گردی سے فیکٹریا ں بند ، مزدور بے روزگار ، بھوکے بیمار۔دن بدن مہنگائی کا جن بڑھتا ہوا۔
’’180مِلین کی آبادی میں 70فی صد لوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں‘‘۔ ہم اخبار میں ایسی خبریں روٹین میں پڑھتے ہیں اور صرف اعدادو شمار کا پتہ ہی چلتاہے، اِن کی سنگینی کا کم ہی احساس ہوتا ہے۔ اب اندازہ ہوا کہ یہ لوگ پورے دِن میں کیسا کھانا کھاتے ہیں ۔فروٹ ،سبزی،گوشت ، دودھ وغیرہ تو ان کے لئے خواب ہونگے۔باقی آئس کریم، مٹھایاں وغیرہ تو خواب میں بھی نہیں سوچتے ہونگے ۔میری گاڑی کی پچھلی سیٹ فروٹ ، سبزی اور چکن سے بھری پڑی تھی مجھے اپنے آپ سے گھن آنے لگی ۔ مجھے گرمی کا احساس ختم ہوگیا۔رَگوں میں خون جمنے لگا۔کیا یہ میرا ہمسایہ بھوکا نہیں اور ہم بسیارخوری کا شکارلوگ ڈاکٹروں حکیموں سے ہاضمہ کے دوائیاں کے متلاشی ہیں۔ ہم کیسے لوگ ہیں جہاں خوشحال لوگوں نے اپنی کالونیاں الگ بسالی ہیں اور غریبوں کو الگ بسا دیا۔ امیر کے ہمسائے سب امیر ، کوئی ہمسایہ بھوکا نہیں۔ہر سال عمرہ و حج، لوگوں کو دکھانے کے لیے لاکھ لاکھ روپے کے بکروں کی عید پر قربانی۔ کبھی و قت تھا کہ غریب لوگ امیر ہمسائے سے اچار، لسی یا کبھی کبھار سالن مانگ کے روٹی کھا لیا کرتے تھے اور سب ہنسی خوشی دے دیا کرتے تھے۔ امیر نذر نیاز کے بہانے اکثرو بیشتر اہلِ محلہ میں اچھا کھانا تقسیم کر دیا کرتا تھا۔ اب وہ بھی تیزی سے ختم ہو رہا ہے اور پوش علاقوں میں تو کوئی ہمسایہ کا نام نہیں جانتا۔
مجھے سینیگال کی ابرتیا اور اس کا قحط و افلاس سے مرتا بچہ یاد آگیا۔ پھر لگا میرے ارگرد سب امریتا اور اس کے بچے ہیں۔ جو بھوک سے بلبلا کر میر ی طرف ہاتھ بڑھا رہے ہیں۔اللہ نہ کرے میرے دیس میں کبھی یہ حالت آئے مگر اعدادوشمار بتا رہے ہیں کہ ہر موسم رکھنے اور ہر طرح کا غلہ اگانے والا پاکستان بے پناہ آبادی میں اضافہ، مسلسل کرپشن اور بدانتظامی کی وجہ سے شدید غذائی قلت کی طرف بڑھ رہاہے۔اب بھی زیادہ آبادی کو دو وقت کی روٹی ٹھیک سے دستیاب نہیں۔اِس کی واضح مثال سٹرکوں پر کوڑے کے ڈھیروں سے غذا تلاش کرتے بچے ہیں۔
مجھ سے تو فوگلی اچھا تھا جو چرچ کی طرف سے مذہب کی خاطر ایک کرشماتی پودا لے کر اپنا آرام و آسائش چھوڑ کر ہزاروں میل دور بھوکے افریقیوں کی غذائی قلت دور کرنے چل پڑا ۔ اور ایک میں ہوں کہ جو ایک سچے مذہب کا پیروکار، جہاں عبادات کے بعد سب سے بڑھ کر صدقہ و خیرات اور غریب پروری کادرس ہے، بے حِس بیٹھا ہوں۔فوگلی جس پودے کو لے کر سینیگال گیا تھا، میں اسی پودے، مورِنگا، پر ریسرچ کر رہا ہوں۔ دھڑا دھڑ اپنے پراجکٹ اور تحقیقی پرچوں کی تعدادمیں اضافہ کیے جارہا ہوں۔ یہکرشماتی پودا ، مورنگا، جو کہ میرے اپنے دیس کا پودا ہے اور پوری دنیا اس سے بھوک، افلاس اور غذائی قلت ختم کر رہی ہے اور میں ائیرکنڈیشن آفس میں بیٹھ کر اسی پودے پر پیسے بہار ہا ہوں۔ مجھے ساری رات ٹھیک سے نیند نہ آئی۔ابریتا، اس کا بچہ، 50 کا نوٹ، دال کی پڑیا، میلا کچیلا بچہ، کارمینا کی شیشی ، مورِنگا، فوگلی ساری رات میری آنکھوں کے سامنے بھوت بن کے ناچتے رہے۔ بار بار ہڑ بڑا کے اُٹھ بیٹھتا۔
اگلے دن اللہ کے پیارے نبیﷺ کی ایک حدیث شریف نظر آئی
’’اگر تمہارے ہاتھ میں بیج ہے اور اس کو بونے لگے تھے کہ خبر ملی کہ قیامت آنے کو ہے اور ہر چیز فنا ہوجائے گی تو بھی اس بیج کو بو دو ‘‘
’’جو مومن بھی درخت لگائے گا جب تک انسان ، پرندے ، جانور اس سے فائدہ اُٹھاتے رہیں گے اس کے حق میں صدقہ جاریہ ہو گا‘‘
کیا جادو اثر تھا اِن الفاظ میں کہ فیصلہ کرتے پھر دیر نہ لگی
’’اُٹھو شہزاد بسراء۔ نکلو آفس سے اور اپنے سوہنے نبیؐکی حدیث کو زندہ کر دو۔ لگاؤ اپنے ہاتھوں سے مورنگا۔ عام کر دو یہ کرشماتی پودا اپنے دیس میں۔مت انتظار کرو اُس وقت کا جب غذائی قلت ہو جائے اور کوئی انگریز، جاپانی، امریکی خیرات کے ساتھ پروفیسر بھیجے جو تیرے ہی وطن کے پودے کا تیرے ہم وطنوں کو تعارف کروائے۔ اس سے پہلے کہ کوئی عیسائی چرچ فوگلی کو بھیجے ۔ اُٹھو، ہمت کرو اِس قوم نے تم پر لاکھوں روپے خرچ کر کے، ساری دنیا گھوما کے پروفیسر بنایا ہے، اُس کا حق ادا کرو۔ اگر لوگ تیرا مزاح پڑھ لیتے ہیں، لطیفے سُن لیتے ہیں تو سوہنے نبیؐ کی بات کیوں نہ سُنیں گے۔‘‘
پھرطلباء سے، ساتھی اساتذہ سے، گھر میں، کلاسوں میں، کانفرنسوں میں، ای میل، فیس بُک، جب، جیسے اور جہاں ممکن ہوا مورنگا جِسے ہم ’’سُہانجنا‘‘ کہتے ہیں، کا تعارف شروع کر دیا کہ یہ میرے دیس کا پودا ہے۔ پاکستان کے زیادہ تر علاقوں میں بتدریج ختم ہو رہا ہے جبکہ جنوبی پنجاب میں اگرچہ سہانجنا عام ہے مگر اِس کا استعمال صرف اسکے پھولوں کا لذیذ سالن اور جڑوں سے مولی کا اچار بنانے تک محدود ہے۔ لوگوں کو اس کے غذائی ، چارے ، طبی اور دیگر فوائد کا علم ہی نہیں۔ یہ پودا اس خطے سے پوری دنیا میں پھیلا اور کرشماتی پود ا یا Miracle Treeکے نا م سے مشہور ہوا۔ اِسے ناسا نے 21ویں صدی کا پودا قرار دیا ۔اس کے پتوں میں وٹا من اے گاجر سے 4گنا ، وٹا من سی مالٹے سے 7گنا ، پروٹین دہی سے دوگنا ، کیلشیم دودھ سے دوگنا، پوٹاشیم کیلے سے 3گنا زیادہ ہوتی ہے۔ جبکہ کینسر ، TB ہپاٹائیٹس ، شوگروغیر ہ سے بچاؤ کیلئے بے شمار انٹی بائیوٹک انٹی الرجک اور دیگر ادویاتی اجزاء پائے جاتے ہیں۔ اس کے بیج کا تیل زیتون کے تیل کی طرح بہترین کھانے کا تیل ہے ۔اس کے پھول اور پھلیاں غذائیت سے بھر پور اور لذیز ترین سبزیاں ہیں۔ سہانجنا کے پتوں کے عرق فصلوں پر سپرے کرنے سے پیداوار40%تک بڑھ جاتی ہے اور موسمی اور فضائی سختیوں کے خلاف قوت مدافعت بھی بڑھ جاتی ہے۔ اس کو چارے کے طور پر استعمال کرنے سے جانوروں کا دودھ 30,40%تک پیداوار بڑھ جاتا ہے اور انہیں کسی قسم کے کھل بنولہ کی ضرورت نہیں رہتی ۔اس کے بیج سے پینے کا پانی صاف کیا جاتا ہے جس سے بیشترجراثیم مر جاتے ہیں، مٹی اور نقصان دہ دھاتیں نیچے بیٹھ جاتی ہیں۔ترقی یافتہ دنیا میں سہانجنا سے قدرتی غذائی ٹانک،انرجی ڈرنک، ادویات اور میک اپ کا سامان بنایا جاتا ہے۔ اِس کے تیل سے گاڑیوں کا ایندھن بھی بنایا جا رہا ہے ۔جبکہ غریب ملکوں میں اِس کے خشک پتوں کا سفوف غذائی کمی کو پورا کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے جیسے فوگلی نے سینیگال میں کروایا۔
ہر کسی نے حیرت سے سُنا اور پھرحدیث پاک کوسُن کے سنت کو زندہ کرنے میرے ساتھی بنتے چلے گئے۔ چند ہی ہفتوں میں Facebook پر ایک بڑی تعداد میں رضا کار مل گئے۔طالب علموں نے میرا بھرپور ساتھ دیا اور Moringa For Life نامی تنظیم معرضِ وجود میں آ گئی۔ پاکستان بھر کی زرعی یونیورسٹیوں ، ریسرچ اداروں میں سہانجناکا چرچا شروع ہوگیا۔ میرے علاوہ بیشمار سائنسدانوں نے اِس پر کام شروع کر دیا۔ کانفرنسوں،یونیورسٹیوں، اداروں، کالجوں اور سکولوں میں مجھے سہانجناکے تعارف کے لیے بلایا جانے لگا اور تنظیم کے رضاکاروں میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ چند ہفتوں میں ملک بھر سے اتنا بیج اکٹھا ہو گیا کہ سنبھالنا مشکل ہو گیا۔ تنظیم کے کارکنان نے ہزاروں کی تعداد میں پنیری تیار کر دی اورپورے ملک میں اِس کی سپلائی جاری کر دی۔ روزانہ بے شمار طالب علم، زرعی سائنسدان، زمیندار اور عام لوگ مجھ سے رابطہ کررہے ہیں اور اس کے بارے میں معلومات حاصل کررہے ہیں۔میری توقعات سے کہیں بڑھ کر طلبہ و طلبات اور ہر طبقہ فکر کے لوگ اس میں شامل ہو رہے ہیں اور سُہانجنا کے بارے آگاہی ہو رہی ہے۔جو کام فوگلی نے لاکھوں ڈالروں میں 1997-2004میں سینیگال میں کیا، میرے سوہنے نبیﷺ کے متوالوں نے ایک روپیہ کسی سے مانگے بغیر رضاکارانہ طور پرصرف تین مہینوں میں اُس سے بڑھ کر کر دیا۔ انشاء اللہ چند برسوں میں سہانجنا پاکستان کے ہر گھر میں موجود ہوگا اور ہر پاکستانی اس کے فوائد سے بھر پور مستفید ہو رہا ہو گا ۔
رابطہ کیلئے mfl@shahzadbasra.com
Facebook open forum : Moringa for Life
www.shahzadbasra@.com Ph: 041-2619675