ایم اے حکیم
کستوری کو دل و دماغ کی ادویات میں جزو اعظم کی حیثیت حاصل ہے۔ماہرین طب نے اس کی بہت تعریف کی ہے۔بعض لوگوں کا خیال ہے کہ ہرمیدانی ہرن سے نافہ یا مشک کی تھیلی حاصل ہو سکتی ہے اور ایک خاص قسم کی بلی سے بھی نافہ نکلتا ہے ۔یہ خیال غلط ہے۔اس غلط فہمی کو دور کرنے اور قارئین کی معلومات کیلے اس مضمون کو پیش کیا جا رہا ہے۔
کستوری ایک نہائیت ہی قیمتی اور کار آمد مرکب ہے اسے مختلف ادویات میں استعمال کیا جاتا ہے۔آپکی دلچسپی کے لیے ایک واقعہ عرض کرتا ہوں میرے والد ستر سال قبل کشمیر میں تحصیل دار تھے۔ایک برفانی علاقے میں دورے پر بنگلے میں ٹھہرے ہوئے تھے۔کسی زمیندار نے کستورہ ہرن شکار کیا ہوا آپ کی خدمت میں پیش کیا۔والد صاحب فرماتے تھے دوپہر کو انہوں نے اسکا گوشت کھایا اور سہ پہر کو برفباری شروع ہو گئی۔لیکن جسم میں گویا آگ لگ گئی۔پہلے بنگلے کے دروازے کھڑکیاں کھولے۔پھر لحاف اتاردیا۔اور رات بھر کستورہ ہرن کی طرح بنگلے میں گھومتے رہے۔
دوسرا واقعہ میرا اپنا ہے میری کتیا نے دسمبر کے مہینے میں بچے دیے۔رات پانی اس پر ٹپکتا رہا۔ میں کچہری چلا گیا۔میرا نوکر بھاگتا ہوا آیا کہنے لگا کتیا کو کچھ ہو گیا ہے ۔اور وہ مرنے کے قریب ہے ۔میں فوراً گھر پہنچا اور دیکھ اکہ اسکا پچھلا دھڑ مفلوج ہے۔میں نے جلدی سے نصف دال مونگ جتنی کستوری پانی میں ملا کر اس کے منہ میں ڈال دی اور کپڑے اور جگہ تبدیل کر کے کچہری چلا گیا۔واپسی پہ کستوری نے اپناجوہر دکھایا کتیا بالکل تندرست دم ہلا رہی تھی۔اور کئی سال زندہ رہی۔
والد صاحب سے سنا کرتا تھا کہ اگر خالص کستوری کو سونگھا جائے تو ناک سے خون جاری ہو جاتا ہے۔انیس سو چالیس کا ذکر ہے میں اپنے بھائی کے پاس شکار کی غرض سے گیا۔ایک دن بس پر اور چار دن پیدل سفر کیا۔مجھے کستوری کی تھیلیاں اکٹھی کرنے کا شوق تھا۔واپسی پر بھائی صاحب نے مجھے ایک نافہ دیا جو دھوپ کی گرمی لگنے سے پگھل جاتا تھا۔میں نے پن کے ساتھ اس میں سوراخ کیا اور کوٹ کی جیب میں رکھ لیا تاکہ اس سے خوشبو آتی رہے۔پہلے دن تقریباً بیس کلومیٹرکے سفر کے بعدمجھے ناک سے بہت خون آیا۔خوب لسی اور دہی استعمال کیا۔دوسرے دن بھی یہی صورتحال رہی۔مجھے والد صاحب کی بات یاد آ گئی نافہ نکال کر صندوق میں بند کر دیا۔اس کے بعد چالیس کلومیٹر پیدل سفر کیا مگر خون نہ آیا۔
کبوتروں کے شوقین حضرات اگر خشخاش کے دانے کے برابر کستوری انہیں کھلائیں تو کبوتر رات سے صبح تک اڑتا رہتا ہے بشرطیکہ کہ خالص کستوری ہو۔جس کا ملنا بہت مشکل ہے ۔بہت سے ملکوں میں کستوری سے عطر تیار کیا جاتا ہے۔اس عطر کی خوشبو نہائیت فرحت بخش اور دیر پا ہوتی ہے۔
اصل کستوری کی پہچان
اصل کستوری کی پہچان یہ ہوتی ہے کہ اگر سوئی کو دھاگے سمیت لہسن کی پوتھی سے گزارا جائے اور پھر اس سوئی دھاگے کو نافے سے گزارا جائے اور لہسن کی بو غائب ہو جائے تو سمجھ لیں کہ کستوری خالص ہے۔کستوری چونکہ بہت قیمتی اور نایاب ہے اس لیے نافہ میں خشک خون یا خشک کلیجی کا سفوف نافے میں وزن بڑہانے کے لیے ملا دیا جاتا ہے۔لوگوں کا خیال ہے کہ ہر میدانی ہرن کے نافے سے مشک کی تھیلی برآمد ہوتی ہے۔یا پھر ایک خاص قسم کی میدانی بلی سے بھی نافہ نکلتا ہے ۔اس غلط فہمی کو دور کرنے کے لیے یہ مضمو ن پیش کیا جا رہا ہے۔کستوری والا ہرن خاص جنگلوں میں آٹھ سے دس فٹ کی بلندی پر پایا جاتا ہے۔چین نیپال گلگت اور اور روس کے بالائی پہاڑی علاقوں میں یہ ہرن پایا جاتا ہے۔یہاں اسکی باقائدہ فارمنگ کی جا رہی ہے۔یہ بھورے رنگ کا ایک چھوٹا سا ہرن ہے۔جس کے بال بھورے اور گھا س کی طرح ہیں۔اس کے کان کافی لمبے قد ڈھائی تین فٹ اور اگلی ٹانگیں چھوٹی اور پچھلی ٹانگیں لمبی ہوتی ہیں۔نر ہرن کے منہ سے دو دانت نکل کر نچلی طرف بڑہے ہوئے ہوتے ہیں۔مادہ کے دانت ایسے نہیں ہوتے۔کستوری صرف نر سے نکلتی ہے۔جو اس کی ناف میں تھیلی کی شکل میں ہوتی ہے۔حلال کرنے سے پہلے فوری طور پر اسے رسی سے باندھ دیا جاتا ہے تاکہ خون میں تحلیل نہ ہو۔کستوری کلیجی کے رنگ جیسی گاڑھے سے محلول کی شکل میں ہوتی ہے جو کہ نکالنے کے بعد چند منٹوں میں جم کر سخت ہو جاتی ہے۔ناف میں بال نماء تھیلی کو بمعہ کھال کاٹ کر محفوظ کر لیا جاتا ہے۔
کستوری والے ہرن کا شکار
اس ہرن کا شکار دشوار بھی ہے اور تجربہ کاروں کے لیے آسان بھی ۔جس جھاڑی یا چٹان کے نیچے یہ رہائش رکھتا ہے وہ جگہ نہائیت صاف ہوتی ہے۔فضلہ اپنی رہائش سے دور ڈالتاہے ۔جس چٹان کے ساتھ رہتا ہے بڑی خوبصورتی سے اسی کا حصہ بن جاتا ہے۔اور زمین کے ساتھ زمین ۔نا واقف شکاری پاس سے گزر جاتا ہے یہ یہ ہرن اپنا بسیرا جھاڑی دار جنگل میں برف کے نزدیک کرتا ہے۔تجربہ کار شکاری چار پانچ ساتھیوں کے ساتھ خود نالے کے منہ پر اور ساتھیوں کو نالے کے نیچے بٹھا دیتا ہے۔ایک بالکل تہہ میں جبکہ باقی نالے کے کناروں پر بیٹھ جاتے ہیں۔تہہ والا آدمی زور سے ڈندا درخت پر مارتا ہے۔ہرن اپنی پناہ گاہ سے نکل کر بھاگتا ہے۔دائیں اور بائیں والے آدمی بھی اسے طرح ڈنڈے درخت پر مارتے ہیں اور ہرن سیدھا دہانے پہ بیٹھے شکاری کے پاس پہنچ جاتا ہے۔عام طور سے ان علاقوں میں شکاری چوری چھپے کستوری کی تلاش میں شکار کرتے ہیں۔اس کا شکار ہر ملک میں ممنوع ہے اور سخت سزا دی جاتی ہے۔کستوری چونکہ سونے سے بھی دگنے داموں بکتی ہے ا سلیے شکاری پیسے کی وجہ سے اسے مارتے ہیں۔اس ہرن کی تعداد باوجود پابندی کے بہت کم ہو چکی ہے۔چین میں باقائدہ فارم ہیں جہاں کستوری وقت مقررہ پہ سرنج کے ذریعے نکال لی جاتی ہے۔دوسرے سال پھر کستوری ناف میں پک جاتی ہے ۔تب ہرن اسے سورج سے گرم شدہ پتھروں پر رگڑتا ہے ۔حتیٰ کہ یہ پھوڑا نماء بال پھٹ کر چٹانوں پر بہہ جاتا ہ ے پرانے وقتوں میں شکاری لوگ چٹانوں سے کھر چ کر یہ بھی بطور تحفہ دیا کرتے تھے۔