کس کرب سے گزرنا پڑتا ہے

غزل
 
تمھیں کیا پتہ کس کرب سے گزرنا پڑتا ہے
بے رخی کی دلدل میں جب اترنا پڑتا ہے
 
دل سارا کا سارا زخم ذدہ ہوچکا ہے اپنا
لوگوں کی محبتوں سےاب مکرنا پڑتا ہے
 
سب کو تھوڑی تھوڑی محبت بانٹ سکوں
گاہے بگاہے مجھے بکھرنا پڑتا ہے
 
جن کے ساتھ کیلئے ساتھ ساتھ چلا کئے 
ان سے بھی تو ایک دن بچھڑنا پڑتا ہے
 
ٹھوکریں حادثوں کو جنم دیتی ہیں راہی
مسافتوں کو قدموں میں جکڑنا پڑتا ہے
(خالد راہی)
اپنا تبصرہ لکھیں