کشمیر پالیسی بھی تبدیل کریں

عارف محمود کسانہ
عمران خان کی قیادت میں موجودہ حکومت تبدیلی کا نعرہ لے کر برسر اقتدار آئی ہے اور اس کی کوشش ہے کہ مختلف شعبہ جات میں تبدیلیاں لائی جائیں۔ کشمیر پر بھی حکمت علمی تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ تبدیلی اس لئے بھی ناگزیر ہے کہ مقبوضہ جموں کشمیر میں تمام تر بھارتی ظلم و ستم اور طویل کرفیو کے باوجود عالمی رائے کی جانب سے کوئی قابل ذکر رد عمل نہیں آیا۔ اب ضرورت ہے کہ ہمارے پالیسی ساز سر جوڑ کر بیٹھیں اور موجودہ کشمیر پالیسی کا جائیزہ لیں ۔ جب تک اپنی خامیوں اور غلطیوں کا اعتراف نہ کیا جائے، کامیابی کی طرف سفر ممکن نہیں، اس لئے حکومتی اداروں کو ان وجوہات کو تلاش کرنا ہوگا جن کی وجہ سے مسئلہ کشمیر عالمی توجہ حاصل نہیں کرسکا۔ خود احتسابی کا عمل روز اول سے شروع ہونا چاہیے اور یہ بھی دیکھنا چاہپیے کہ ہم نے کشمیر حاصل کرنے کے کون کون سے مواقع ضائع کئے اور کون سے تضادات کشمیر پالیسی کا حصہ ہیں تاکہ مستقبل میں وہ غلطیاں نہ دہرائی جائیں۔ جہاں تک جموں کشمیر حاصل کرنے کو مواقع ضائع کرنے کی بات کی ہے تو یہ جائزہ ضرور لینا چاہیے کہ اگست 1947 میں مہاراجہ جموں کشمیر نے حکومت پاکستان سے” سٹینڈ سٹل اگری منٹ“ کیا تھا وہ کیوں ختم ہوا؟ شیخ عبداللہ کے وفد کو لاہور میں قائد اعظم سے کیوں نہیں ملنے دیا گیا؟ بغیر سوچے سمجھے اور ناقص حکمت علمی کے تحت ریاست جموں کشمیر پر قبائلی حملہ کس کے حکم سے ہوا؟ اقوام متحدہ میں 1948 سے 1958 تک کیوں ناقص اور سست سفارتی حکمت علمی اپنائی گئی؟ اکتوبر 1947آزادحکومت ریاست جموں کشمیر جو پوری ریاست کی نمائندہ حکومت اور تحریک آزادی کا بیس کیمپ کے طور پر قائم ہوئی تھی ، اسے کیوں عضو معطل بنایا گیا؟ حد متارکہ توڑنے کے لئے 1958 میں شروع ہونے والے کشمیر لبریشن موومنٹ کو کیوں حکومت پاکستان نے ناکام بنایا؟ 1962 میں چین اور بھارت کی جنگ میں کشمیر حاصل کرنے کے سنہرے موقع کوکیوں ضائع کیا گیا بلکہ بھارت کو مشترکہ دفاع کی پیش کش کیوں کی گئی؟ 1965 میں مقبوضہ کشمیر میں ہوم ورک کے بغیر آپریشن جبرالٹر کیوںکیا گیا؟ تاشقند اور شملہ معائدہ میں کیوں کشمیری قیادت کو شامل نہ کیا گیا؟ جولائی 1972 کو ہونے والے شملہ معائدہ میں کیوں کشمیر کو دوطرفہ مسئلہ تسلیم کرلیا گیا؟ اور کیا کوئی بتائے گا کہ اس معائدہ کی رو سے سیز فائر لائین کو کنٹرول لائین تسلیم کرنے کا کیا مطلب ہے؟کشمیری حریت پسندوں پر لاہور قلعہ، مظفرآباد قلعہ، چلاس قلعہ اور دیگر عقوبت خانوں میں کیوں تشدد کیا جاتا رہا؟سوال یہ ہے کہ 1988 سے جاری تحریک آزادی کی کامیابی کے لئے کوئی حکمت عملی بھی بنائی گئی یا پھر بغیر منصوبہ بندی سے یہ سلسلہ جاری ہے؟ 1992جب ہزاروں کی تعداد میں کشمیری چکوٹھی کے راستہ سری نگر جانا چاہتے تھے تو ان پر گولیاں چلاکر کیوں روکا گیااور کئی کارکنوں کو شہید کیا گیا؟ اتنے زیادہ ” بلنڈر“ کرنے کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے اس لئے پالیسی سازوں کو نئی حکمت عملی مرتب کرنی چاہیے اور کشمیر پالیسی میں تبدیلیاں لانی چاہیے تاکہ بار بار ایسی فاش غلطیاں نہ ہوں۔
ہمارا دفتر خارجہ بار بار دنیا کی توجہ اس جانب مبذول کرواتا ہے کہ کشمیر پاک بھارت دو طرفہ معاملہ نہیں بلکہ عالمی تنازعہ ہے لیکن دنیاکا ہر ملک اسے پاک بھارت تنازعہ کہہ کر آپس میں بات چیت سے حل کرنے کا مشورہ دیتا ہے۔ حالیہ بھارتی اقدامات کے باوجود دنیا میں اسے بھارت کا اندرونی معاملہ قرار دے رہی ہے۔ ہمارے پالیسی سازوں کو اس کی وجوہات بھی تلاش کرنی چاہیں۔کیا اس کی بنیادی وجہ پہلی غلط اینٹ نہیںہے جس نے جموں کشمیر کے تنازعہ کو بین الاقوامی مسئلہ کی بجائے دو طرفہ جھگڑا بنا دیا ہے۔ 1948 میں جب بھارت یہ مسئلہ اقوام متحدہ لے کر گیا اور سلامتی کونسل نے اس پر اگست 1948میں قرارداد پاس کی تو بعد میں اس قرار داد میں پانچ جنوری 1949میں ترمیم کروا کر کشمیری عوام کے حق خود آرادیت کو محدود کردیا گیااور جنگ بندی لائین پر اقوام متحدہ کی افواج کو UN Mission in Jammu Kashmir کی بجائے ” اقوام متحدہ مشن ان انڈیا اینڈ پاکستان“ کا نام دیا گیا۔ عالمی سطح پر حکومت پاکستان کشمیری عوام کے حق خود آرادیت کو علمبرادر ہے لیکن ہمارے وزیر خارجہ قومی اسمبلی میں ” کشمیر بنے گا پاکستان“ کے نعرے لگاتے ہیں اور حکومت اسی نعرے کو عوامی جذبات کے لئے استعمال کرتی ہے۔ کیا دنیا یہ سب دیکھ نہیں رہی؟ جب ہمارا طرز عمل اسے دو طرفہ مسئلہ بنائے گا تو دنیا سے کیا شکوہ۔ ” کشمیری عوام کے حق خود آرادیت “ کو ہی کشمیر پالیسی کی بنیاد ہونا چاہیے۔ کشمیریوں پر اعتماد کرتے ہوئے آزاد حکومت ریاست جموںکشمیر کو پوری ریاست کی نمائندہ حکومت کے طور پر تسلیم کریں اور اسے دوست ممالک سے تسلیم کروانے کے بعد اسے عالمی سطح پر مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرنے کا موقع دیں اور اسے دنیا کے سامنے یہ مسئلہ پیش کرنے کا موقع دینا چاہئے۔پارلیمانی کشمیر کمیٹی کی کوئی افادیت نہیں اسے تحلیل ہونا چاہیے۔
وزیر اعظم عمران خان 27ستمبر کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب میں مسئلہ کشمیر اٹھائیں گے۔ ہم توقع رکھتے ہیں کہ وہ روایتی باتیں دہرانے کی بجائے دنیا کے سامنے مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے تجاویز پیش کریں گے۔ وہ پوری یاست جموں کشمیر کو غیر فوجی علاقہ قرار دے کر اس میں اقوام متحدہ کی فوج کی تعیناتی کی تجویز دیں۔ دنیا پر باور کردیں کہ پاکستان کشمیری عوام کی آزادی چاہتا اور ان کے حق خود آرادیت کی حمایت کرتا ہے اورہمیں اس سے غرض نہیں کہ پاکستان کے شامل ہوتے ہیں یا نہیں، اس کا فیصلہ خود کشمیری عوام کریں۔ مقبوضہ کشمیر میں عالمی اداروں کی رسائی کے لئے دباﺅ بڑھائیں۔ وہ اپنے وفد میں آزاد جموں کشمیر کے صدر، وزیر اعظم اور گلگت بلتستان کے گورنر اور وزیر اعلیٰ کو ضرور شامل کریں اور ان کی عالمی راہنماﺅں سے ملاقاتوں کا اہتمام کراوئیں۔ یہ حقیقت اظہرمن الشمس ہے کہ جب تک مسئلہ کشمیر پر حکمت علمی تبدیل نہیں ہوگی ، یہ مسئلہ جوں کا توں رہے گا۔

اپنا تبصرہ لکھیں